What's new
  • اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    ماہانہ ممبرشپ صرف 1000 روپے میں!

    یہ شاندار آفر 31 دسمبر 2025 تک فعال ہے۔

    ابھی شامل ہوں اور لامحدود کہانیوں، کتابوں اور خصوصی مواد تک رسائی حاصل کریں!

    واٹس ایپ پر رابطہ کریں
    +1 979 997 1312

وائف افئیر کہانی پیاسی ہاؤس وائف گڑیا

Story LoverStory Lover is verified member.

Super Moderator
Staff member
Moderator
Points 93
Solutions 0
Joined
Apr 15, 2025
Messages
143
Reaction score
751
Story LoverStory Lover is verified member.
**پیاسی ہاؤس وائف گڑیا**

محترم قارئین، وعدے کے مطابق آج میں اپنی پہلی سیکس کہانی شیئر کرنے جا رہا ہوں۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ میری بیوی "گڑیا" کی میرے دوست "شاہ" کے ساتھ چدائی کی کہانی ہے، جو میں نے اتفاقاً دیکھ لی۔ یہ واقعہ 25 جون 2018 کی صبح کا ہے۔

گڑیا ایک انتہائی خوبصورت، گُلابی رنگت، دلکش گول چہرے، مقناطیسی جسم، 34/30/34 کے فگر والی، نہایت خوش اخلاق اور فرینک لڑکی ہے۔ جو بھی گڑیا سے ملتا ہے، اس کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ شادی سے پہلے میرے گھر پر دوست احباب کا جمگھٹا رہتا تھا، جس کی وجہ طالب علمی کی سیاست اور میرا کاروبار تھا۔ لیکن چونکہ گڑیا کو یہ سب پسند نہیں تھا، اس لیے یہ سلسلہ بند کرنا پڑا۔ البتہ 5/6 کاروباری ساتھی کبھی کبھار آتے رہتے، جن میں شاہ (پرویز شاہ) اور ملک بلال بھی شامل تھے۔ یہ دونوں ہوٹل کی صنعت سے وابستہ ہیں اور دو مختلف ہوٹلوں کے جنرل مینیجر ہیں۔

شاہ پشاور کا رہنے والا، لمبے قد کا، گورا شخص ہے، انتہائی متاثر کن شخصیت کا مالک ہے۔ اس کی بیوی اور بچے پشاور میں ہیں، اور وہ روزگار کی وجہ سے کراچی میں اکیلا گلشن معمار میں رہتا ہے۔ جبکہ ملک بلال راولپنڈی کا رہنے والا ہے، اس کی بیوی کوثر اردو بولنے والی ہے اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی میں مقیم ہے۔ کوثر بھی کبھی کبھار آتی رہتی ہے۔

گڑیا ایک زبردست اور تعاون کرنے والی بیوی ہے۔ وہ سیکس میں بھرپور ردعمل دیتی ہے، خود ہی بلاتی ہے اور چدائی کو خوب انجوائے کرتی ہے۔ اس نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔ گڑیا کھانا تو سب اچھا بناتی ہے، لیکن اس کی کافی کا کوئی جواب نہیں۔ میں روزانہ گڑیا کے ہاتھ کی کافی پیتا ہوں۔ ہم باہر کھانا کھاتے ہیں، لیکن کافی گڑیا کے ہاتھ کی ہی پیتے ہیں۔ شادی کے دو ڈھائی سال تک ہم نے خوب انجوائے کیا، نہ دن دیکھا نہ رات، جب موڈ ہوا چدائی کر لی۔ اس دوران ایک بیٹی بھی ہوئی، "مریم"، جو اب 30 ماہ کی ہے۔

اب کاروباری مصروفیات اور بیٹی کی دیکھ بھال کی وجہ سے میں گڑیا کو پہلے کی نسبت کم وقت دے پاتا تھا۔ گڑیا نے کئی بار دبے دبے لفظوں اور مزاح کے انداز میں اپنی "غیر تسلی" کا اظہار کیا، لیکن میں نے اس پر خاص توجہ نہ دی۔ نوشین باجی اور گڑیا کی اچھی بنتی تھی، اس لیے زندگی بے فکری سے چل رہی تھی۔ باجی نے ایک دو بار دوستوں کی محفل کا ذکر کیا کہ کبھی کبھار دعوت کر دیا کرو، اچھا لگتا ہے۔

ایک رات جب بیٹی سو گئی اور میں اور گڑیا بیڈ پر آئے، تو گڑیا نے ایک سیکس ویڈیو لگائی۔ اس میں ایک بیوی نائٹی پہنے بیڈ پر لیٹی تھی اور شوہر صوفے پر بیٹھا فون پر مصروف تھا۔ بیوی مسلسل سیکسی نظروں سے شوہر کو دعوت دے رہی تھی، لیکن شوہر فون پر لگا رہا۔ فون شاید خراب تھا۔ شوہر نے انٹرکام پر مینجمنٹ کو شکایت کی۔ کچھ دیر بعد ایک فون ٹیکنیشن آیا، جو ایک لمبا، کالا شخص تھا۔ ٹیکنیشن کام کر رہا تھا، جبکہ بیوی اسے دیکھ رہی تھی۔ شوہر نے دیکھا تو ہاتھ کی مٹھی بنا کر بیوی کو اس کے ساتھ چدائی کا اشارہ کیا۔ بیوی نے شرما کر سر جھکا لیا۔ شوہر نے تیسری بار اشارہ کیا تو بیوی نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔ ٹیکنیشن کام سے فارغ ہوا تو شوہر نے اسے ایک بڑا نوٹ دیا۔ ٹیکنیشن نے معذرت کی کہ اس کے پاس چھٹے نہیں ہیں۔ شوہر نے کہا کہ یہ رکھ لو۔ ٹیکنیشن حیرت سے دیکھنے لگا تو شوہر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر تم ایک کام اور کر دو تو ایک اور نوٹ دوں گا۔ ٹیکنیشن نے کام پوچھا تو شوہر نے بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے چود دو۔ ٹیکنیشن نے بیوی کی طرف دیکھا تو بیوی نے نائٹی اتار کر خود کو ننگا کر لیا اور بیڈ کے کونے پر بیٹھ گئی۔ ٹیکنیشن نے بھی کپڑے اتارے اور شوہر نے ایڈوانس میں پیسے دے دیے۔

یہ فلم دیکھ کر گڑیا نے اسی انداز میں چدائی کی اور پھر ہم سو گئے۔ صبح ناشتے پر بھی گڑیا فلم کی بات کرتی رہی۔ کبھی کہتی، "افففف، کاشف، اتنا بڑا لنڈ لینے میں کتنا مزہ آتا ہوگا!" کبھی کہتی، "شوہر کتنا خیال رکھتا ہے بیوی کا!" میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا، "اچھا، میں بھی کوئی کالا ڈھونڈ کر لاتا ہوں!" اور ہنستے ہوئے کام پر جانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔

محترم قارئین، تمہید کچھ زیادہ ہو گئی، لیکن یہ سیاق و سباق کہانی کو سمجھنے اور لطف اندوز ہونے میں مددگار ہوگا۔ اس طرح گڑیا نے 5/6 ایسی فلمیں دکھائیں (یہ شاید اس کی ترغیب تھی)۔

دوسری طرف شاہ، جو کبھی کبھار آتا تھا، اب روز آنے لگا اور دیر تک رہتا۔ گڑیا اس کے ساتھ کافی فرینک ہو گئی تھی۔ اس طرح رمضان آئے اور گڑیا اور باجی نے شاہ کو روزے ہمارے ہاں افطار کرنے کو کہا۔ اب شاہ افطار کے وقت آ جاتا اور رات دیر تک رہتا۔

چند دنوں میں مجھے کچھ گڑبڑ لگی کیونکہ شاہ بات بات پر گڑیا کے جسم کو چھوتا، یہاں تک کہ گڑیا کے سینوں کو بھی چھیڑتا۔ گڑیا کوئی ردعمل نہ دیتی، نارمل رہتی۔

اب عید کا چاند نظر آ گیا تھا اور سب کی طرح میں اور گڑیا بھی بیٹی کو لے کر بازار جا رہے تھے۔ گڑیا نے شاہ کو بھی ساتھ لے لیا، بلکہ اپنی گاڑی کے بجائے شاہ کی گاڑی میں جانے کو کہا۔ یہ مجھے ناگوار گزرا۔ میں نے خاموشی اختیار کی۔ مارکیٹ میں بھی گڑیا اور شاہ ایک دوسرے کے قریب رہے۔ رات تین ساڑھے تین بجے ہم گھر لوٹے۔ گڑیا نے شاہ کے لیے بھی شلوار قمیص خریدی۔

گھر آ کر گڑیا بیڈروم میں چلی گئی۔ میں اور شاہ لاؤنج میں بیٹھ گئے۔ مریم شاہ کی گود میں کھیل رہی تھی۔ گڑیا کچھ دیر بعد آئی تو آرام دہ لباس میں تھی، یعنی بڑے گَلے کی بغیر آستین کی چھوٹی ٹی شرٹ اور لوزر، جبکہ نیچے برا بھی نہیں تھی۔

میں نہانے کے لیے جانے لگا تو گڑیا نے کہا کہ میں کھانا تیار کرتی ہوں۔ باتھ روم میں گیا تو تولیہ نہیں تھا۔ الماری میں بھی نہیں تھا۔ بیڈروم کا دروازہ بغیر آواز کھولا تو سارے شکوک یقین میں بدل گئے۔ گڑیا شاہ کی گود میں کھیلتی مریم کو لینے کے لیے جھکی تو شاہ نے گڑیا کی شرٹ کے اندر ہاتھ ڈال کر اس کے سینوں کو دبانا شروع کر دیا۔ کچھ دیر سینے دبوا کر گڑیا ہٹ گئی اور ہنستے ہوئے بولی، "یہ عید ایڈوانس سمجھ کر صبر کرو اور انتظار کرو۔"

محترم قارئین، تمہید زیادہ ہو گئی، اب میں آپ کو گڑیا کی پہلی کہانی سناتا ہوں۔ یہ جون 2018 کی صبح تھی، پیر کا دن، عید کی لمبی چھٹیوں کے بعد پہلا کام کا دن تھا۔ ہم ناشتہ کر رہے تھے۔ گڑیا آرام دہ لباس میں تھی، بغیر برا کے، بڑے گَلے کی بغیر آستین کی چھوٹی ٹی شرٹ اور لوزر۔ آج گڑیا کچھ بے چین سی تھی اور مجھ سے آج کی مصروفیات پوچھ رہی تھی کہ پہلے کہاں جائیں گے، واپسی کب ہوگی، شاہ کے ہوٹل کب پہنچیں گے وغیرہ۔

میں اب گڑیا کی ہر حرکت پر شک کر رہا تھا۔ انہی شکوک کے ساتھ میں کام کے لیے نکل گیا اور مین روڈ پر فوٹو کاپی کی دکان پر کام کے بہانے رُک گیا۔ میری نظر روڈ پر تھی۔ 15/20 منٹ بعد، جیسا کہ میں نے شک کیا تھا، میں نے شاہ کی گاڑی کو اپنے گھر کی طرف جاتے دیکھا۔ میں نے 20/25 منٹ کا وقت لیا اور گھر کی طرف چل دیا۔ اپنی چابی سے انتہائی آہستگی سے مین گیٹ کھولا اور بغیر آواز لاؤنج کی طرف بڑھا۔ ابھی راہداری میں ہی تھا کہ رُک گیا اور غصے میں آ گیا۔ اندر کا ماحول کچھ یوں تھا:

شاہ دو سیٹوں والے صوفے پر بیٹھا تھا، جبکہ گڑیا شاہ کی گود میں بیٹھی تھی اور شاہ گڑیا کے نپلز چوس رہا تھا۔ گڑیا کی ہلکی ہلکی سسکیاں کمرے میں سنائی دے رہی تھیں۔ شاہ نے گڑیا کی شرٹ اوپر کی تو گڑیا نے مسکراتے ہوئے ہاتھ اوپر کر دیے اور شاہ نے گڑیا کی شرٹ اتار پھینکی۔ اب شاہ باری باری گڑیا کے گُلابی نپلز چوس رہا تھا اور گڑیا کی سسکیاں تیز ہو گئیں۔ شاہ کافی دیر تک گڑیا کے نپلز چوستا رہا، جو سخت ہو کر مینارِ پاکستان کی طرح کھڑے ہو گئے اور گُلابی سے سنہری ہو چکے تھے۔ گڑیا کے دونوں سینے بری طرح بھیگ چکے تھے۔ گڑیا کی گُلابی رنگت لال ہو چکی تھی۔ گڑیا نے لذت کی شدت سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور تیز تیز سسکیاں لے رہی تھی، جو کمرے کا ماحول سیکسی کر رہی تھیں۔ اُفففف!

شاہ نے کافی دیر اس طرح گڑیا کو مست کیا اور اب گڑیا کے نپلز چھوڑ کر اسے اتارا اور اپنے پیروں کے درمیان زمین پر بٹھا دیا۔ گڑیا شاہ کی پینٹ کی زپ کھولنے لگی۔ "اوہ واہ! زبردست!" یہ وہ الفاظ تھے جو شاہ کا 8+ انچ لمبا اور موٹا لنڈ دیکھ کر گڑیا کے منہ سے نکلے۔ گڑیا للچائی نظروں سے شاہ کے لنڈ کو دیکھ رہی تھی اور اب اپنی زبان اس پر پھیر رہی تھی۔ (گڑیا لنڈ بڑی مہارت سے چوستی ہے۔)

اب گڑیا نے شاہ کے لنڈ کا کچھ حصہ، ٹوپی سمیت، منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ شاہ اب گڑیا کے سر کو نیچے کی طرف دبا رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں گڑیا شاہ کا لنڈ جڑ تک پورا منہ میں لے چکی تھی اور آہستہ آہستہ اندر باہر کر رہی تھی۔ اب شاہ آنکھیں بند کر کے مزہ لے رہا تھا۔ گڑیا بڑی مہارت سے شاہ کا لنڈ چوس رہی تھی اور شاہ کی تیز سیکسی آوازیں جاری تھیں۔ گڑیا کافی دیر تک اسی طرح شاہ کا لنڈ چوستی رہی۔

اب گڑیا نے شاہ کا لنڈ اپنے منہ سے نکالا اور نشے کے لہجے میں بولی، "شاہ صاحب، بیڈروم میں چلیں۔" شاہ نے گردن ہلا کر کھڑا ہو گیا اور دونوں بیڈروم کی طرف چل دیے۔ میں بھی تیزی سے ملحقہ کمرے میں گھس گیا اور کھڑکی کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر پردے کی اوٹ سے دیکھنے لگا۔ بیڈروم میں پہنچ کر گڑیا نے لوزر اتار کر بیڈ کے کونے پر بیٹھ گئی اور شاہ بھی اپنے کپڑے اتارنے لگا۔

اب دونوں مکمل ننگے تھے۔ شاہ نے گڑیا کو وہیں بیڈ پر لٹا کر اس کی ٹانگیں پھیلائیں اور اوپر کیں اور گڑیا کی چوت چاٹنے لگا۔ گڑیا کی میٹھی میٹھی اور تیز سسکیاں کمرے میں سنائی دینے لگیں اور وہ اپنا سر دائیں بائیں ہلانے لگی۔ شاہ اپنی زبان گڑیا کی چوت میں گھسیڑ کر اندر باہر کرتے ہوئے گھما رہا تھا اور گڑیا کی سسکیاں مزید تیز ہوتی گئیں۔ شاہ کچھ دیر اسی طرح گڑیا کی چوت چاٹتا رہا۔ گڑیا مسمساتے ہوئے نشیلی آواز میں بولی، "شاہ صاحب، اب ڈال دیں، پلیز ڈال دیں، برداشت نہیں ہو رہا۔"

شاہ نے چوت چاٹنا بند کیا اور گڑیا کو بیڈ پر سیدھا لٹا کر اس کے کولہوں کے نیچے دو تکیے رکھ کر اس کی ٹانگیں سیدھی کر کے پھیلائیں اور خود گڑیا کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر اپنے لنڈ کی ٹوپی گڑیا کی چوت پر سیٹ کرنے لگا۔ گڑیا نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور دونوں ہاتھوں کی مٹھی بنا کر چادر کو سختی سے پکڑا ہوا تھا۔ گڑیا کے چہرے پر خوف سا تھا اور وہ ہلکے ہلکے کانپ رہی تھی۔ گڑیا نے کانپتی آواز میں کہا، "شاہ صاحب، بہت بڑا ہے، ڈر لگ رہا ہے، پلیز آرام سے ڈالنا۔" شاہ نے "اچھا" کہتے ہوئے لنڈ کی ٹوپی گڑیا کی چوت پر فٹ کی اور گڑیا کو اپنی ٹانگیں بند کرنے کو کہا۔ گڑیا نے اپنی ٹانگیں قینچی ڈال کر بند کر لیں اور شاہ نے اپنی ٹانگوں کی قینچی سے گڑیا کی ٹانگوں کو مضبوطی سے پکڑ کر اپنے ہاتھ پیچھے سے لے جا کر گڑیا کے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اب شاہ نے دباؤ بڑھانا شروع کیا۔

شاہ نے دباؤ مزید بڑھایا اور "آہہہہہہ، اوئییییییی، مار دیا، شاہ صاحب!" کمرہ گڑیا کی تیز اور طویل چیخ سے گونج اٹھا کیونکہ شاہ نے ایک زوردار دھکے سے پورا لنڈ گڑیا کی چوت میں گھسیڑ دیا تھا۔ اُفففف!

شاہ نے مزید تین چار ایسے ہی زوردار دھکے لگائے۔ گڑیا مچلتے ہوئے خود کو شاہ کی گرفت سے چھڑانے لگی، لیکن شاہ نے اپنی گرفت اور مضبوط کر دی۔ اب شاہ نے دھکے لگانا بند کر دیے اور گڑیا کے نپلز چوستے ہوئے اپنا لنڈ گڑیا کی چوت میں آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ گڑیا نے سرشاری کے عالم میں سختی سے شاہ کو جکڑ لیا۔

"افففففففففففففف، ہاہاہاہاہاہاہاہ!" گڑیا مستی میں کراہتے ہوئے زور زور سے چیخ رہی تھی، "شاہ صاحب، ایسے ہی کریں، پلیز بہت مزہ آ رہا ہے، پلیز ایسے ہی کریں، پلیز!" اور شاہ بھی زبردست ردعمل دے رہا تھا۔

اب شاہ آہستہ آہستہ دھکوں کی طاقت بڑھانے لگا اور گڑیا کی سسکیاں اب ہلکی ہلکی اور میٹھی میٹھی چیخوں میں بدل گئیں، جن سے کمرہ سیکسی ہو گیا۔ "زبردست شاہ جی، واہ شاہ جی، ایسے ہی چودیں شاہ جی، گڑیا آپ کی ہے، پوری، اففففففففففف، آہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا، افففففففف!"

"شاہ صاحب، پہلی دفعہ کوئی مرد گڑیا کو چود رہا ہے، پہلی دفعہ گڑیا کو لنڈ کا پتا چلا ہے، ایسے ہی اور زور سے ٹھونکو اپنی گڑیا کو!" گڑیا بڑی سرشاری سے کر رہی تھی اور شاہ کو سختی سے بھینچ رکھا تھا۔ شاہ مسلسل گڑیا کے نپلز چوس اور کتر رہا تھا اور دھکوں کو تیز کرتا جا رہا تھا۔

اب شاہ بار بار اپنے لنڈ کو گڑیا کی چوت سے باہر نکال کر درمیانی طاقت کے دھکے سے گڑیا کی چوت میں گھسیڑ رہا تھا، جس سے گڑیا کلبلاتی اور مدہوشی سے شاہ کو جکڑتے ہوئے کہتی، "اُفففففف، اوہہہہہ، آہہہہہ، نہہہہمممم، شاہ صاحب، جڑیں تک ہلا رہے ہیں، اُفففففف، اوہہہہہ، آہہہہہ، ممممم، بڑا مزہ آ رہا ہے، ایسے ہی شاہ صاحب، ایسے ہی، پلیز ایسے ہی کریں، بڑا مزہ آ رہا ہے!" گڑیا کی مدہوش آوازوں نے کمرے کا ماحول سیکسی کر دیا تھا اور اب مجھے بھی اس لائیو شو میں مزہ آنے لگا تھا۔

شاہ نے گڑیا کو بڑی مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا اور گڑیا مکمل طور پر شاہ کے کنٹرول میں تھی۔ شاہ نے گڑیا کے نپلز کو چوس چوس کر سنہری کر دیا تھا۔ اب شاہ کے دھکے مزید زور پکڑ گئے، جبکہ گڑیا کی مدہوشی میں ہلکی ہلکی اور میٹھی میٹھی چیخوں میں بھی بھاری پن آ چکا تھا، "آہہہہہہ، اوہہہہہہ، اُفففففف، اوہہہہہ، امممممآہہہہہ!"

شاہ بھی اب بڑبڑانے لگا، "اُفففففف، کیا بچی نے سب بھلا دیا، گڑیا نے تو جنت لے گئی، پیاری گڑیا، مزہ ہی مزہ ہے اس بچی میں!" گڑیا بھی مدہوشی میں نشے سے بھرپور آواز میں بولی، "شاہ صاحب، چودو بچی کو، مزے لو جتنے چاہے اس بچی سے، یہ بچی آپ کی ہے، گڑیا پوری آپ کی ہے!" اور شدتِ لذت سے نیچے سے اوپر کو دھکے لگانے لگی۔ شاہ نے بھی دھکے تیز کر دیے۔ اب کمرے میں دونوں کی نشہ آور اور لذت اندوز آوازیں گونج رہی تھیں۔ اب گڑیا نیچے سے شاہ کے دھکوں کا برابر جواب دے رہی تھی۔

شاہ کافی دیر سے گڑیا کو ایک ہی پوزیشن میں کبھی ہلکے کبھی تیز دھکے لگا کر چود رہا تھا، لیکن گڑیا کو لگائی گئی چاروں ہاتھ پیروں کی قینچی کمزور نہیں ہونے دی اور گڑیا بھی کافی آرام دہ محسوس کر رہی تھی۔

اب دھکوں کی رفتار کچھ سست ہو گئی تھی۔ شاہ گڑیا پر مکمل کنٹرول رکھے ہوئے تھا اور اپنی مرضی سے گڑیا کو چود رہا تھا۔ گڑیا کی سسکیاں مسلسل جاری تھیں، "اُفففففف، اوہہہہہ، آہہہہہ، اوئےےےے، ممممم، اممممآہہہہہ!"

شاہ ایک بار پھر دھکوں کی رفتار بڑھانے لگا اور گڑیا کی مزیدار میٹھی میٹھی ہلکی ہلکی چیخیں بھی تیز ہوتی جا رہی تھیں۔ اُفففففف!

اب شاہ کافی طاقتور دھکے لگا رہا تھا۔ گڑیا بھی نیچے سے جواب دے رہی تھی اور دونوں کی چیخیں بھی ساتھ ساتھ جاری تھیں۔ اب شاہ کے دھکے طوفانی رفتار اختیار کر گئے، "اُفففففف، اوہہہہہ، آہہہہہ، اوئےےےے، ممممم، اوہہہہہ، اممممآہہہہہ!"

گڑیا چیختی رہی۔ شاہ کے دھکے طوفان در طوفان برپا کیے ہوئے تھے۔ گڑیا نیچے سے ہلتے ہوئے کانپنے لگی، "اففففففف، شاہ صاحب، میرا ہو رہا ہے، میرا ہو رہا ہے، ایسے ہی پلیز، ایسے ہی، میرا ہو رہا ہے!" گڑیا چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی۔ شاہ بھی ہانپتے ہوئے چیخنے لگا، "میرا بھی ہو رہا ہے، میرا بھی ہو رہا ہے!" گڑیا نے سختی سے شاہ کو جکڑ لیا اور ہانپتے ہوئے بولی، "شاہ صاحب، اندر ہی، اندر ہی، شاہ صاحب، سارا پانی میری چوت میں انڈیل دو، پلیز، پلیز!" اور تیزی سے اوپر نیچے ہونے لگی۔ شاہ نے بھی تیزی پکڑ لی۔ دونوں زور زور سے چیخ رہے تھے، "میرا ہو رہا ہے، میرا ہو رہا ہے!"

اب دونوں کی سانسیں پھولنے لگیں اور کمرے میں دونوں جسموں کے ٹکراؤ کی آوازیں بھی اب آنے لگیں، جو ماحول کو انتہائی سیکسی کر رہی تھیں۔ اُفففففف!

اب دونوں تیزی سے ہانپ رہے تھے اور سانسیں اُکھڑ گئیں، یہاں تک کہ دونوں جھڑ گئے۔ شاہ کچھ دیر اور ہلکے ہلکے ہلتا رہا۔ اب دونوں بے سدھ پڑے ہوئے ہانپ رہے تھے۔ گڑیا تین سال میں اتنی آرام دہ نہیں ہوئی جتنی آج لگ رہی تھی۔ اب شاہ نے اپنا لنڈ گڑیا کی چوت سے باہر نکال لیا اور کپڑے سے صاف کرتے ہوئے مسکراتی ہوئی گڑیا کے ہونٹ چوسنے کے بعد باتھ روم میں گھس گیا۔
 
Back
Top