What's new
  • اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    ماہانہ ممبرشپ صرف 1000 روپے میں!

    یہ شاندار آفر 31 دسمبر 2025 تک فعال ہے۔

    ابھی شامل ہوں اور لامحدود کہانیوں، کتابوں اور خصوصی مواد تک رسائی حاصل کریں!

    واٹس ایپ پر رابطہ کریں
    +1 979 997 1312

وائف افئیر کہانی شبانہ

Story LoverStory Lover is verified member.

Super Moderator
Staff member
Moderator
Points 93
Solutions 0
Joined
Apr 15, 2025
Messages
151
Reaction score
767
Story LoverStory Lover is verified member.


اگرچہ شبانہ کی عمر بیالیس برس تھی مگر اس کا جسم اتنا شہوت انگیز اور خوبصورت تھا کہ دیکھنے والے کا لن بغیر وقت ضائع کیے رالیں ٹپکانے لگتاتھا۔دو جوان بچوں کی ماں ہونے کے باجود اس کی فٹنس قابل داد تھی ۔

شبانہ کا شوہر دبئی میں جاب کرتاتھا اور وہ خود ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر کے طور پر کام کرتی تھی ۔ شبانہ روایت پسند تھی ۔ سر پر دوپٹہ لے کر خود کو ڈھانپتی تھی ۔ آفس کا ہر نوجوان ، ادھیڑ عمر اس کا دیوانہ تھا۔مگراس کا رویہ ہر ایک کےسا تھ بہت پروفیشنل ہوتاتھا۔۔ اسی دفتر میں 25 سال کا ایک نوجوان صابر کام کرتا تھا۔ صابر نے بارہویں جماعت پاس کی تھی اور وہ دفتر میں آفس بوائے، ڈرائیور اور شبانہ کا سیکرٹری جیسے کئی کام کرتا تھا۔ وہ دفتر کے اوپر والے حصے میں ایک چھوٹے سے سٹور روم جیسے کمرے میں رہتا تھا۔ وہ ہمیشہ چاق و چوبند رہتا تھا اور کوئی بھی کام فوراً کر لیتا تھا، اسی وجہ سے شبانہ کو وہ بہت پسند تھا۔ صابر بھی شبانہ میڈم، شبانہ میڈم کہہ کر پیار سے پیش آتا تھا۔



گو کہ وہ مینیجر تھی اور اسے میڈم کہہ کر عزت دیتا تھا، لیکن جب وہ اسے دفتر، گاڑی، یا گھر لے جاتا تھا، تو اکثر اس کے بھاری مموں اور جل تھل کرتی ہوئی سیکسی گانڈ کو شہوت بھری نظروں سے گھورتا تھا۔ شبانہ اسے کبھی کبھار پکڑلیتی تو وہ فوراً اپنی نظریں بدل لیتا ، لیکن وہ زیادہ پروا نہیں کرتی۔



اکثر چھٹی والے دن، جب کوئی دفتر نہیں آتا تھا، صابر نے اس یقین کے ساتھ کہ کوئی نہیں آئے گا، دفتر کے کمپیوٹر پر فحش فلمیں دیکھنا شروع کیں اور اپنا لن باہر نکال کر اسے سہلانے لگتا ۔ اس کا لن موٹا اور لمبا تھا، تقریباً ساڑھے سات سے آٹھ انچ۔ وہ ٹرپل ایکس فلموں کا رسیا تھا۔

ایک سنڈے کو شبانہ کچھ سے کام کے لیے دفتر آئی اور صابر کو کمپیوٹر پر فحش فلمیں دیکھتے ہوئے پکڑ لیا۔ وہ غصے سے چیخی، صابر! صابر گھبرا کر کھڑا ہو گیا، اور اس کا لمبا، سیاہ لن باہر لٹک رہا تھا۔ وہ اسے چھپانے کی کوشش میں پریشان ہو گیا اور پتلون میں ڈالنے کی کوشش کی، لیکن اس کے اکڑے ہوئے لن نے اندر جانے سےانکار کردیا۔وہ شبانہ سے نظریں چرانے لگا ۔ شبانہ نے کہا، اگر ایسی حرکتیں کرنی ہیں تو اوپر اپنے کمرے میں جا کر کرو! یہ کہہ کر وہ کمپیوٹر پر اپنا کام شروع کرنے لگی۔



خوفزدہ صابر کچھ دیر ہچکچاہٹ کے بعد اس کے پاس گیا اور معافی مانگی۔ شبانہ نے اسے تنبیہ کی کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے اور اپنا کام جاری رکھا۔ صابر اپنے کمرے میں واپس چلا گیا۔ لیکن اب شبانہ کا دھیان کام پر نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں صابر کا بڑا اور لمبا لن گھوم رہا تھا۔ اس سے پہلے کبھی اس نے اس طرح کے خیالات نہیں سوچے تھے۔ وہ بار بار اپنے ذہن سے ایسے آوارہ خیالات کو جھٹکنے کی کوشش کررہی تھی ۔مگر صابر کا موٹا لن اس کے دماغ سے نکل ہی نہیں رہاتھا۔اس کا شوہر ایک سال پہلے پاکستان آیاتھا۔اسے چدائی کئے ایک سال ہوگیاتھا۔بلاخر وہ اپنی ہوس کے ہاتھوں ہار گئی ۔وہ اپنی شلوار کے اوپر سے اپنی چوت کو سہلانے لگی اور اپنے مموں کو دبانے لگی۔ اس نے اپنے کمپیوٹر پر پورن سرچ کرنا شروع کردیا ۔ جو کام اس نے صابر کو منع کیا تھا، وہی وہ خود کرنے لگی۔ یہ دیکھ کر اس کا جسم اور گرم ہو گیا۔ اس نے ایک سائٹ کھول لی ۔اس میں مختلف مردوں کے لن تھے ۔، اور اسے سیاہ، لمبے اور موٹے، بغیر ختنہ والے لن زیادہ پسند آئے۔ اسی دوران ایک تصویر اسے صابر کے لن کی طرح لگی۔ وہ اسے دیکھ کر بےخود ہو گئی اور صابر کا نام لے کر آہ بھرنے لگی۔ وہ شلوار کے اوپر سے اپنی چوت کو زور سے رگڑنے لگی اور اپنے مموں کو مسلنے لگی۔



اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ کیا کررہی تھی ۔شبانہ بہت شرمند ہ ہوگئی ۔ ہوش میں آ کر اس نے کمپیوٹر بند کیا اور گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے صابر کو فون کیا جو اس کے قریب ہی اوپر والے کمرے میں تھا اور اسے گھر چھوڑنے کو کہا۔ صابر نے کہا کہ گاڑی تیار تھا۔ شبانہ کی نظریں بےاختیار صابر کی پتلون پر چلی گئیں۔لن والی جگہ ابھی تک ابھری ہوئی تھی ۔ صابر نے ایک بار پھر معافی مانگی اور گاڑی تیار کرنے چلا گیا۔ شبانہ گاڑی میں بیٹھی۔ گھر جاتے ہوئے اس کی نظریں بار بار صابر کی پتلون پر جا رہی تھیں، لیکن صابر اسے نظر انداز کر کے گاڑی چلا رہا تھا۔ جب وہ گھر پہنچی اور اتر کر جا رہی تھی، تو صابر اس کے ہلتے ہوئے کولہوں کو دیکھ کر پھر سے گرم ہو گیا۔ شبانہ نے اچانک مڑ کر اسے دیکھا اور بےاختیار شہوت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ کر چلی گئی۔ اس مسکراہٹ نے صابر کی پریشانی دور کر دی اور اس کا لن اور زیادہ تن گیا۔



شبانہ گھر کے اندر آئی۔ اس کے دونوں بچے گھر پر نہیں تھے ۔ وہ اپنے کمرے میں گئی، اپنے کپڑے اتار کر پھینکے اور ننگی ہوکر بیٹھ پر لیٹ گئی اور صابر کے تنے ہوئے لن کے خیال میں کھو گئی۔ گرم جوشی میں اس نے دبئی میں موجود اپنے شوہر کو ویڈیو کال کی۔ دونوں سیکس کال کرنے لگے ۔ وہ اپنا ننگا جسم دکھا کر انہیں گرم کرنے لگی۔ اس کے شوہر نے ویڈیو کال پر اپنا لن دکھایا اور ہلانے لگا، جبکہ شبانہ اپنی چوت میں انگلی ڈال کر ہلانے لگی۔ پانچ منٹ میں ہی اس کے شوہر نے منی نکال دی۔کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اس نے کال بند کردی ۔مگر اس کی شہوت آسمان کو جا لگی تھی ۔اس کی چوت پانی چھوڑ رہی تھی اور اسکے جسم میں آگ لگی ہوئی تھی ۔ وہ بےاختیار اپنے شوہر کے لن کا موازنہ صابر کے لن سے کرنے لگی۔ صابر کا لن والد کے مقابلے میں دو انچ لمبا اور بڑا تھا۔ اسی شہوانی خیال میں ڈوبی ہوئی تھی کہ ڈور بیل بجنے لگی ۔وہ چونک گئی ۔ شبانہ نے جلدی سے نائٹی پہنی اور دروازہ کھولا۔اس کے بچے گھر آگئے تھے ۔ اس کی پوری رات کروٹیں بدلتی ہوئی گزری ۔



اگلی صبح سے شبانہ نے صابر کو ذاتی کاموں کے بہانے زیادہ وقت دینا شروع کیا۔ اس دوران وہ جان بوجھ کر اپنے خوبصورت جسم کو ایکسپوز کرتی ۔اس نے ڈوپٹہ لینا بھی چھوڑ دیاتھا۔وہ کبھی اپنے بھاری مموں کو سائیڈ سے دکھاتی، اور کبھی اپنی سیکسی گانڈ کو مٹکاتی ہوئی صابر کے نزدیک سے گزر جاتی ، اس طرح صابر کو گرم کرنے لگی۔

وہ چپکے چپکے سے صابر کی پتلون پر بننے والے ابھار کو دیکھتی اور مزہ لیتی۔ کبھی کبھار وہ اس سے ٹکراتی یا رگڑتی، اسے لذت بھری اذیت دیتی۔

ایسے ہی دن گزررہے تھے۔شبانہ کی پیش قدمی کی ہمت نہیں ہورہی تھی ۔مگرا س کی ہوس بڑھتی جارہی تھی ۔

نئے سال کی رات کو ان کے دفتر نے ایک بڑے ہوٹل میں پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ شبانہ نے پہلی بار ایسا لباس پہنا ۔جس میں اس کا خوبصورت بدن بہت زیادہ نمایاں ہورہاتھا۔ اس کے بھاری سینے اور گانڈ فلوٹنگ انداز میں نمایاں تھے۔

اس رات جس نے بھی شبانہ کو دیکھا۔وہ اسے چودنے کے لیے بے تاب ہوگیا۔شبانہ کے سامنے ایک سے بڑھ کر ایک ہینڈسم مردتھا۔لیکن اس کے دل میں صابر کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔

شبانہ کو اس روپ دیکھ کر صابر کا لن ناچنے لگا۔ پارٹی میں سب کی نظریں شبانہ پر تھیں۔ کمپنی کے مالک اور پارٹنرز کی بھی شبانہ پر نظر تھی۔ وہ اسے چھونے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے مرے جارہے تھے، لیکن شبانہ اب تک ان کے ہاتھ نہیں آئی تھی۔ پارٹی میں وہ ہاتھ ملانے یا تصویر لینے کے بہانے شبانہ کو چھونے کی کوشش کرنے لگے۔ اس سے ناراض ہو کر شبانہ نے پارٹی ادھوری چھوڑ دی۔ صابر نے دیکھا اور اس کے پیچھے گیا۔ اس نے پوچھا، میڈم، کیا ہوا؟ آپ غصے میں کیوں جا رہی ہیں؟ شبانہ نے کہا، مجھے یہ پارٹی پسند نہیں آئی، تم رہو اور مزے کرو۔ صابر نے کہا، کوئی بات نہیں، میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ شبانہ نے کہا، تمہاری پارٹی خراب ہو جائے گی، تم مزہ کرو۔ صابر نے جواب دیا، ہمارے دفتر کی چھت سے پورے شہر کے پٹاخوں کا نظارہ دیکھا جا سکتا تھا۔ میں آپ کو گھر چھوڑ کر وہ دیکھ لوں گا۔ شبانہ نے کہا، اگر ایسا تھا تو ہم دونوں دفتر چلتے ہیں، چھت پر پٹاخے دیکھتے ہیں، پھر تم مجھے گھر چھوڑ دینا۔



دونوں دفتر کی چھت پر پہنچے۔ صابر شبانہ کی خوبصورتی اور بھرے ہوئے جسم کو انچ انچ دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ شبانہ اس کی نظروں کو کونے سے دیکھ کر مزہ لیتی تھی۔ جب بارہ بجے، آسمان پر پٹاخوں کا آغاز ہوا، تو وہ گھوم گھوم کر اسے دیکھنے لگے۔ اس دوران ان کے جسم ایک دوسرے سے ٹکرانے اور رگڑنے لگے۔ صابر نے ہمت کر کے شبانہ کی کمر پر ہاتھ رکھا۔ شبانہ کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ دیکھ کر اس نے کمر کو زور سے پکڑ لیا۔ شبانہ نے گہری سانس لی اور اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس خاموشی کو رضامندی سمجھ کر صابر نے اس کے گال پر بوسہ دیا اور کہا، ہیپی نیو ایئر، میڈم!

شبانہ نے ہلکی سی ہچکچاہٹ سے کہا، مجھے گھر چھوڑ دو۔ صابر نے کہا، کچھ دیر یہاں رہو۔ یہ کہہ کر اس نے اسے پیچھے سے گلے لگا لیا۔ اسی دوران اس کی بیٹی نے شبانہ کو فون کیا اور پوچھا کہ وہ کب گھر آئے گی۔ شبانہ فون پر بیٹی سے بات کر رہی تھی کہ صابر نے اس کے گلے اور گالوں کو کاٹتے ہوئے دوسرے کان میں کہا، کہہ دو کہ لیٹ ہو جائے گا۔ شہوت کی بھوک میں ڈوبی شبانہ نے جھوٹ بولا کہ پارٹی ابھی ختم نہیں ہوئی، لیٹ ہو جائے گا۔ فون بند کرنے کے بعد صابر نے شبانہ کو گود میں اٹھایا اور اپنے کمرے میں لے گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، جس کے فرش پر صرف ایک بستر بچھا تھا۔



کمرے میں پہنچتے ہی صابر نے اسے زور سے گلے لگایا۔ شبانہ نے اپنے مموں کو اس سے بچانے کی کوشش کی، لیکن صابر نے اس کے ہاتھ ہٹا کر اسے مضبوطی سے گلے لگایا۔ اس کے بھاری سینے صابر کے سینے سے دب کر کچلے جا رہے تھے ۔ اب تک میڈم، میڈم کہنے والا صابر بولا، اے شبانہ، میرا چہرہ دیکھ! شبانہ شرم سے سر جھکائے رہی۔ صابر نے اپنی قمیض اتار کر پھینکی اور اس کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا۔ شبانہ کا ہاتھ کانپنے لگا۔ صابر نے کہا، ڈر مت! اس نے شبانہ کی قمیض پکڑی اور اسے اتارنے لگا ۔ شبانہ نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی ، لیکن صابر نے اس کے ہاتھ پکڑ کر کہا، اپنی خوبصورتی کیوں چھپاتی ہو ؟ اس نے آہستہ آہستہ اس کے سارے کپڑے اتاردئیے ۔شبانہ صابر کےسامنے ننگی ہوچکی تھی ۔اسے بہت شرم آرہی تھی ۔پہلی بار وہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور مر دکےسامنے الف ننگی تھی ۔

صابر آنکھیں پھاڑے اس کے خوبصورت جسم کو دیکھ رہاتھا۔اس کاتو وہ حال ہوگیا تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں ۔شبانہ نے شرم سے جھکیں ہوئی نگاہیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھاتو اس نے مبہویت دیکھ کر اس کے دل میں عجیب سی سرشاری چھاگئی ۔کیا دیکھ رہے ہو صابر ؟۔اس نے مسکراتے ہوئے کہاتوصابر یکدم ہوش میں آگیا۔

شبانہ نے ہچکچاتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا۔ صابر نے اسے کھینچ کر اپنی گود میں بٹھایا۔ اس کے بڑے کولہوں نے صابر کی پتلون میں ابھار بنائے ہوئے لن کو دبا دیا۔ صابر نے اس کے ہاتھ اپنی گردن پر رکھوائے اور اس کے بھاری مموں کو اپنے سینے سے دبانے لگا۔ اس نے اس کے گال پکڑ کر اس کے ہونٹوں پر بوسہ دینا شروع کیا۔ اس نے کہا، منہ کھول! شبانہ نے منہ کھولا تو صابر نے اس کے اوپری اور نچلے ہونٹوں کو چوسا، کاٹا اور اپنی زبان اس کے منہ میں ڈال کر بوسہ دیا۔ وہ اس کے بلاؤز کے اوپر سے اس کے ایک سینے کو دبانے لگا۔ اس سے شبانہ کا جسم جھٹکوں سے کانپنے لگا۔



صابر نے شبانہ کو بستر پر لٹایا اور اس کے بدن کے انگ انگ کو چومنے لگا۔آہ آہ ۔شبانہ کے ہونٹوں سے تیز سسکیاں نکلنے لگیں ۔صابر اس کے بدن کو ہونٹوں کو زبان سے اور آنکھوں سے چوم رہاتھا۔ شبانہ مزے سے آنکھیں بند کیے لیٹے ہوئے تھی۔ صابر اس کے کان کے قریب گیا اور پوچھا، کیسا لگ رہا تھا؟ اس نے اپنی انگلی سے اس کی پیشانی سے لے کر پیٹ تک لکیریں کھینچیں اور اس کی چوت پر پہنچ کر اسے سہلانے لگا۔شبانہ کے ہونٹوں سے لذت بھری چیخیں نکل گئیں ۔ صابر نے اس کی ناف کے قریب بوسہ دیا اور چاٹنا شروع کیا۔ جب شبانہ اس لذت میں کھو گئی تو اس نے اپنے پاجامے کی ڈوری کھولی اور اسے اتار دیا۔ اس نے اپنی پتلون اتاری اور صرف چڈی میں کھڑا ہو گیا۔



وہ اس کے پاؤں کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا اور اس کے پاؤں سے بوسے دینا شروع کیا۔ رانوں تک آ کر اس نے اس کی چوت پر بوسہ دیا۔ شبانہ نے اس کے بال پکڑ کر اسے اوپر کھینچا۔ صابر اوپر آیا اور اس کے دونوں مموں کو دباتے ہوئے دوبارہ اس کے ہونٹوں پر بوسہ دیا۔ اس نے اسے الٹا کیا اس کی چمکتی ہوئی پیٹھ اور ملائم بڑی گانڈ دیکھ کر وہ پاگل ہوگیا۔صابر نے اس کی چکنی پیٹھ کو سہلایا، بوسہ دیا اور چاٹا۔ پھر اس کے بھاری کولہوں پر آیا۔ اس نے کولہوں کو دبایا، کاٹا اور اسے آہ بھرنے پر مجبور کیا۔ صابر کی زبان اس کی گانڈ کے چاروں طرف گھوم رہی تھی ۔شبانہ مزے سے چیخ رہی تھی ۔اس کی گانڈ میں تھرتھراہٹ ہورہی تھی ۔صابر یہ سین دیکھ کر پگلا گیا۔اور زور زور سے اس کی گانڈ چوسنے لگا۔

اب اس نے شبانہ کو سیدھا کیا شبانہ نے اپنے مموں کو ہاتھوں سے چھپانے کی کوشش کی، لیکن صابر نے اس کے ہاتھ سر کے اوپر اٹھا کر پکڑ لیے اور اس کے جسم کو دیکھنے لگا۔ اس کے 36D ممے اور صاف کی ہوئی چوت نے اسے پاگل کر دیا۔ اس نے اس کے ہاتھ پکڑ کر اس کے مموں کو چوسنا شروع کیا۔ اس کے نپلز کو دانتوں سے کاٹ کر کھینچا، جس سے وہ درد سے چیخ اٹھی۔ وہ ایک سینے کو چوستا اور دوسرے کو ہاتھ سے دباتا۔ اس نے اپنا دوسرا ہاتھ آہستہ سے اس کی چوت پر رکھا۔ شبانہ نے اپنی رانیں سکیڑ لیں۔



صابر نے شبانہ کو بستر پر بٹھایا اور اس کے پیچھے بیٹھ کر اس کے مموں کو دبانے لگا۔ اس نے سامنے والے آئینے میں اسے دیکھتے ہوئے اس کے کان میں کہا، کچھ تعاون کر، میں تجھے جنت دکھاؤں گا۔ اس نے اس کی ٹانگیں کھولیں اور اسے آئینہ دیکھنے کو کہا۔ آئینے میں شبانہ کا پورا جسم نظر آ رہا تھا۔ صابر کے ہاتھ اس کے ایک سینے اور چوت کو سہلا رتھا تھے۔ یہ دیکھ کر شبانہ نے شرم سے آنکھیں بند کر لیں۔ صابر نے اس کی چوت کو انگلی سے سہلانا شروع کیا۔ اس کے سہلانے سے شبانہ کی آہ و بکا بڑھنے لگی۔ صابر نے اپنی انگلی کی رفتار بڑھائی۔ جیسے جیسے رفتار بڑھتی گئی، شبانہ کی چوت گیلی ہونے لگی اور اس کا جسم پیچھے کی طرف جھکنے لگا۔ جب وہ اپنی ٹانگیں بند کرنے لگی تو صابر نے اپنی ٹانگوں سے اس کی ٹانگیں پھیلا کر رکھیں اور اپنی درمیانی اور انگوٹھی والی انگلی اس کی چوت میں ڈال کر تیزی سے ہلانے لگا۔ وہ آئینے میں شبانہ کی بےقراری دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اس کی آہ و بکا بڑھتی گئی اور صابر کی رفتار بھی۔ آخر کار شبانہ نے آہہہ کی چیخ ماری اور اس کا جسم کانپنے لگا۔ اس کی چوت سے پانی کی بوچھار نکل پڑی۔ اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا اور وہ بستر پر لیٹ گئی۔



صابر نے کہا، کیا بات تھا، تیرا کام ہو گیا تو تھک کر لیٹ گئی؟ اتنی جلدی چھوڑ دوں گا؟ اٹھ! اس نے اسے اٹھایا اور دیوار کے کنارے گھٹنوں کے بل بٹھایا۔ وہ اس کے چہرے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس سے اپنی چڈی اتارنے کو کہا۔ جب شبانہ نے چڈی اتاری تو صابر کا آٹھ انچ کا لن اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ صابر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھا اور ہلانے کو کہا۔ اس کے نرم ہاتھوں سے صابر کو جھٹکا لگا۔ اس نے کہا، اب اسے منہ میں لے کر چوس! شبانہ نے اس کے لن کے سرے کو آہستہ سے چوسنا شروع کیا۔ جیسے ہی اس کا منہ لگا، صابر کی آنکھیں بند ہوئیں اور وہ ایسے ہی، ایسے ہی کہہ کر آہ بھرنے لگا۔ جب وہ چوس رہی تھی تو صابر نے اس کے ہاتھ سر کے اوپر اٹھا کر پکڑے اور اپنا لن اس کے منہ میں گہرائی تک ڈالنا شروع کیا۔ شبانہ گھبرائی، لیکن صابر نے پروا نہ کی اور اس کے منہ میں آگے پیچھے کرنے لگا۔ وہ اس کے منہ میں گہرائی تک ڈال کر چودنے لگا۔ شبانہ کا منہ لعاب سے بھر گیا۔ وہ اس کے گلے تک لن ڈال کر تیزی سے ہلانے لگا۔ شبانہ کی آنکھیں بند ہوئیں اور اسے قے آنے لگی، لیکن صابر نے رفتار بڑھائی۔ اس نے اس کے ہاتھ چھوڑ کر اس کے سر کو زور سے پکڑا اور تیزی سے اس کے منہ میں چودنے لگا۔ شبانہ نے اسے دھکیلنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہی۔ اس کے ناخن صابر کے کولہوں پر چھیلنے لگے۔ صابر اپنی چوٹی پر پہنچا اور شبانہ، شبانہ چیختے ہوئے اس کے گلے میں اپنی گرم منی نکال دی۔ آخری بوند تک اس نے لن باہر نہ نکالا۔ آدھی منی اندر گئی اور باقی اس نے باہر تھوک دی۔ وہ باتھ روم کی طرف بھاگی، اپنا منہ اور چہرہ دھویا اور باہر آئی۔



غصے سے واپس آئی شبانہ کو دیکھ کر صابر نے کہا، سوری، سوری، میں خود کو روک نہ سکا! وہ اسے کھینچ کر بستر پر لٹایا۔ شبانہ کچھ دیر چپ رہی اور پھر بولی، کیا تم لڑکیوں کے ساتھ اسی طرح بدتمیزی کرتے ہو؟ صابر نے کہا، سوری، آئندہ ایسا نہیں کروں گا! اس نے دوبارہ اسے آہستہ سے سہلانا شروع کیا۔ شبانہ نے کہا، بس، مجھے گھر چھوڑ دو! صابر نے کہا، ابھی تو اصلی کھیل باقی تھا! اس نے اس کی چوت کو آہستہ سے سہلایا۔ شبانہ نے کہا، پلیز، نیچے کچھ نہ کرو! صابر نے منتیں کیں اور اسے راضی کیا۔ شبانہ نے شرط رکھی کہ منی اندر نہیں ڈالنی۔ صابر نے کہا، ٹھیک تھا!



وہ اس کے ہونٹوں پر بوسہ دے کر اس کی چوت کی طرف گیا۔ شبانہ کی چوت خشک ہو چکی تھی۔ اس نے کہا، اتنی جلدی خشک ہو گئی؟ اس نے تکیہ اٹھایا، اس کے کولہوں کے نیچے رکھا تاکہ اس کی چوت بلند ہو، اور اس کی چوت کو چاٹنا شروع کیا۔ اس نے اس کی چوت کے ہونٹ کھول کر اس کے حساس حصے کو کاٹ کر کھینچا۔ شبانہ لذت اور درد میں تڑپنے لگی۔ اس کی نرم رانیں صابر کے گالوں سے رگڑ رہی تھیں۔ صابر کی کھردری داڑھی اس کی رانوں کو چبھ رہی تھی، جو اسے نئی لذت دے رہی تھی۔ صابر کی زبان اس کی چوت میں گہرائی تک گئی اور اس کا پانی نکلنے لگا۔ شبانہ نے اس کے بال پکڑ کر اس کے سر کو اپنی چوت سے دبایا اور اپنی چوت کو چاٹنے کے لیے اٹھایا۔ صابر نے پاگلوں کی طرح اس کی چوت کو چاٹا اور اسے دوبارہ چوٹی پر پہنچنے کا احساس ہوا۔ اس نے اس کی چوت پر منہ رکھ کر چوسنا شروع کیا۔ شبانہ نے آہ، صابر، صابر! چیختے ہوئے اس کے بال مضبوطی سے پکڑے اور اپنی ٹانگوں سے اس کے سر کو دبایا۔ اس کی چوت سے پانی کی بوچھار صابر کے منہ پر پڑی۔



صابر نے وہ پانی پیا اور اس کے چہرے کے قریب آ کر بولا، یہ میری زندگی کی بہترین شراب تھا! اس نے اپنا پانی سے بھرا منہ شبانہ کے منہ سے لگایا اور اسے بوسہ دیا۔ شبانہ اپنی دوسری چوٹی پر پہنچ کر نیم بےہوشی کی حالت میں تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ ہوش میں آتی، صابر نے اس کی ٹانگیں پھیلائیں اور اپنا لن اس کی چوت میں ڈال دیا۔ اس عمر میں بھی اس کی چوت بہت تنگ تھی۔ صابر نے پوری طاقت سے اپنا پورا لن اندر ڈال دیا۔ شبانہ نے آہ کی چیخ ماری۔ صابر نے اس کے منہ میں اپنی چڈی ڈال دی اور اس کے بھاری مموں کو زور سے دبا کر تیزی سے ہلنا شروع کیا۔ اس کی چوت پانی سے گیلی تھی، جس سے اس کا بڑا لن آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا۔ صابر نے تیزی سے اس کی چوت کو چودنا شروع کیا۔ گیلی چوت سے چلک چلک کی آوازیں آ رہی تھیں۔ صابر نے اپنی رفتار بڑھائی اور مشین کی طرح چلنے لگا۔ اس کے سینے ربڑ کی گیندوں کی طرح اچھل رتھا تھے۔ دونوں کے جسم پسینے سے شرابور تھے۔ صابر کی آہ و بکا اور شبانہ کی چیخیں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ جب صابر کی منی نکلنے والی تھی، اس نے اپنی حرکت روک دی اور شبانہ پر لیٹ گیا۔



جب اس کا لن کچھ ڈھیلا ہوا، شبانہ نے سمجھا کہ سب ختم ہو گیا۔ لیکن صابر نے اسے اٹھایا اور کتے کی طرح جھکنے کو کہا۔ اس نے اس کے کولہوں کے نیچے سے گیلی تکیہ نکالی اور اس کے سر کے پاس رکھ دی۔ اس نے اس کے بال پکڑ کر اس کا سر زور سے دبایا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے مموں کو دبا کر پیچھے سے چودنا شروع کیا۔



صابر تیزی سے اس کے کولہوں پر پٹ پٹ کی آوازوں کے ساتھ چود رہا تھا۔ شبانہ درد سے تکیہ کاٹ رہی تھی۔ صابر نے اپنی چوٹی پر پہنچ کر تھلکی رنڈی! چیختے ہوئے اپنی منی اس کی چوت میں نکال دی۔ اس نے کہا، کہا تھا نہ کہ اندر نہ ڈالنا، لیکن میں نے پورا اندر ڈال دیا! اب آ، میرا لن چاٹ کر صاف کر، رنڈی! شبانہ نے اس کا لن چاٹا۔ اس کے چہرے، منہ اور چوت پر منی لگی ہوئی تھی۔ وہ ایک پارسا عورت، بیوی اور ماں سے رنڈی بن گئی تھی۔ اسے صابر کا اس طرح بلانا غصے کی بجائے ایک نشہ دے رہا تھا۔(ختم شد)

 
Back
Top