What's new
  • اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    ماہانہ ممبرشپ صرف 1000 روپے میں!

    یہ شاندار آفر 31 دسمبر 2025 تک فعال ہے۔

    ابھی شامل ہوں اور لامحدود کہانیوں، کتابوں اور خصوصی مواد تک رسائی حاصل کریں!

    واٹس ایپ پر رابطہ کریں
    +1 979 997 1312

وائف افئیر کہانی شوہر کے دوست سے چد گئی

Story LoverStory Lover is verified member.

Super Moderator
Staff member
Moderator
Points 93
Solutions 0
Joined
Apr 15, 2025
Messages
150
Reaction score
758
Story LoverStory Lover is verified member.
میرا نام عشا ہے میں کراچی میں رہتی ہوں۔ یہ اسوقت کی بات ہے جب میری عمر27 سال تھی۔ ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی کہ ایک دن صبح کام پر جانے سے پہلے میاں کہنے لگے کے وہ شام کو جلدی آئیں گے ان کے دوست کے گھر دعوت ہے۔
شام کو میاں آئے تو میں تیار تھی۔ شادی کے بعد سیکس کا نیا نیا نشہ تھا اس لئے میں بھی میاں کو گرم کر دینے کے حساب سے تیار ہوئی۔ ہلکی پنک ساڑھی میں میرا جسم غضب ڈھا رہا تھا۔ بوبس جیسے باہر نکلنے کو بے چین تھے۔ میاں نے جیسے ہی دیکھا تو ٹھٹک گئے شاید ان کے لنڈ میں کرنٹ دوڑنے لگا تھا۔ وقت کم تھا اس لئے جلدی سے میرے میاں اپنے دوست عماد کے گھر دعوت لے گئے۔
گاڑی سے اترنے سے پہلے اپنے سیکسی بدن کو دوسروں کی نظر سے بچانے کے لئے میں نے عبایا پہن لیا۔ اب میری نرم جلد نظر نہیں آ رہی تھی مگر پھر بھی گانڈ کا ابھار واضح تھا اور میری نپل جو تنے ہوئے تھے وہ عبایا کہ اوپر نشان چھوڑ رہے تھے۔
دعوت کے دوران عماد نے میرے میاں کو خوب مبارک دی اور آنکھ بھی ماری۔ میاں سے کہہ رہا تھا کہ پورے کراچی کا خزانہ تم نے لے لیا ہے اب ہم بے چارے کہاں جائیں گے۔ میں شرم سے سرخ ہو گئی۔ میاں ادھر ادھر دیکھ رہے ہوتے تو عماد مجھے بھی گھور کر دیکھتا۔ جیسے نظروں میں ہی تول رہا ہو۔ عماد نے کوشش تو بہت کی مگر میرا نام بھی عشا ہے۔ اسے اپنے جسم کا نظارہ نہ کرنے دیا اور وہ بےچارہ تڑپتا رہ گیا۔
گاڑی میں بیٹھے تو میں نے عبایا اتار دیا۔ گھر کی پارکنگ میں گاڑی سے نکلنے لگی تو میاں نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ میں مسکرا کر ہاتھ چھڑانے لگی مگر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ میں نے ان کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ جیسے ہی انہوں نے ہاتھ چھوڑا میں بھاگ کر اندر گئی۔ باگھنے کے چکر میں میری ساڑھی دروازے میں پھنسی اور میں چکرا گئی۔ اس ایکسیڈنٹ میں میری ساڑھی کھل کر نیچے گر گئی۔ اب صرف چولی نے میری چھاتیوں کو ڈھانپ رکھا تھا یا پینٹی نے میری چوت کا پردہ کیا تھا۔ میں ساڑھی سمیٹنے کو جھکی تو پیچھے سے میاں نے آکر مجھے دبوچ لیا۔
میں ایسے ہی ننگی حالت میں اٹھا کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈال دیا۔ اپنا لنڈ باہر نکالا جو اکڑ کے لوہے کا بن چکا تھا اور میری دونوں ٹانگیں کھول کر رگڑنے لگے۔ میری چولی کو کھول کر نپل باہر نکالے اور میرے کاٹنے کے بدلے میں میری نپل کو انہوں نے کاٹا۔
اس رات گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹا کر میاں نے خوب چودا۔ میری چوت سے پانی نکل کر ان کا لنڈ بھی گیلا کرنے لگا۔ چودائی کر کے جب وہ نڈھال ہو گئے تب جا کر جان چھوٹی۔ درد تو ہوا مگر مزہ بھی بہت آیا۔ جس مقصد کے لئے میں اتنا تیار ہوئی تھی وہ پورا ہو گیا۔
شادی کے بعد یونہی وقت گزرنے لگا۔ عماد بھی ہمارے گھر آنے جانے لگا تھا۔ کبھی کبھی تو آدھی رات کو اسے کوئی کام پڑ جاتا۔ اور پھر میاں جب تک میری چدائی نہ کر لیتے وہ مہمان خانے میں انتظار کرتا رہتا۔
عماد اکثر میاں کی غیرموجودگی میں بھی آتا رہتا تھا اور میں دروازے کی اوٹ سے ہی اسے واپس کر دیتی۔ میاں اس بات پر ناراض ہوتے کے میں ان کے دوست کو پانی تک نہیں پوچھتی۔ عماد بھی اکثر جاتے جاتے چوٹ کر جاتا۔ کبھی کہتا کہ بھابھی ابھی تو جا رہا ہوں مگر میرا حصہ کب ملے گا۔ کبھی کہتا کہ رات آپ کو خواب میں دیکھا۔
گھر کی بات اب گھر تک نہیں رہی تھی بلکہ مہمان خانے تک پہنچ رہی تھی۔ میرے میاں شرارت بھری باتیں عماد کو بھی بتانے لگے تھے۔ ایک دفعہ جب میں مہمان خانے میں چائے دینے گئی تو وہ عماد کو بتا رہے تھے کہ رات کی مستی میں ان کے لنڈ پر عشاء نے کاٹا ہے۔ میں شرم سے لال ہو گئی اور دروازے میں ہی رک گئی۔ عماد بھی الٹی باتیں پوچھنے لگا کہ میرے ممے کتنے بڑے ہیں اور میری چوت کس رنگ کی ہے۔
اففف توبہ، یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ایسے تو میں مہمان خانے نہیں جا سکتی۔ شرم سے ڈوب جائوں گی عماد کے سامنے۔ میں واپس کچن میں چلی گئی اور جان بوجھ کر ایک کانچ کا گلاس فرش پر پھینک کر توڑ دیا۔ میاں اندر پوچھنے آئے تو میں ایسے پیش آئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور پھر ان کے پیچھے پیچھے مہمان خانے چائے دینے پہنچ گئی۔
شرم سے میرا چہرہ لال ہو رہا تھا۔ ان دونوں کو نہیں پتہ تھا کہ میں ان کی باتیں سن چکی ہوں۔ عماد میرے بوبس کو ہی گھورے جا رہا تھا جیسے ابھی کاٹ کھائے گا۔ عماد کی نظروں کی تپش مجھے اندر تک جلا رہی تھی۔ جب میں اسے چائے دینے کو آگے جھکی تو اس کے ٹرائوزر کا ابھار مجھے بہت کچھ سمجھا گیا۔
دن یوںہی گزرتے گئے مگر اب میاں کام میں زیادہ مصروف ہو گئے تھے۔ کراچی میں ہوتے ہوئے بھی دیر سے گھر آتے اور جلدی سے چدائی کر کے سو جاتے۔ مجھے مزہ نہیں آرہا تھا۔
میں شاور لے رہی تھی اور میاں گھر پر نہیں تھے ۔ پھر سے عماد آ گیا۔ میں نے اندر سے ہی آواز لگائی کے مہمان خانے میں بیٹھے میں تھوڑی دیر تک آتی ہوں۔ افف توبہ عماد کے ٹرائوزر کا ابھار یاد تھا مجھے۔ کچھ دنوں سے میری چوت پیاسی تھی اور عماد کا ابھار یاد آتے ہی میری چوت میں ہلچل ہوئی۔ میری چوت شاور میں بھی آگ لگانے لگی۔
میں نے جلدی سے شاور لیا، کپڑے پہنے اور مہمان خانے کا رخ کیا جہاں عماد میرا انتظار کر رہا تھا۔ عماد نے سلام کیا اور ساتھ ہی اس کے نظریں میری چھاتیوں پر مقناطیس کی طرح چپک گئیں۔ میں نے اپنی چھاتیوں کی طرف دیکھا تو میں چکرا گئی۔ کیونکہ میں نے جلدی میں برا نہیں پہنی تھی اور شاور لینے سے بدن گیلا تھا جس سے میری سفید قمیض بھی گیلی ہو کر بدن سے چپک گئی تھی۔ میرے بوبس کا نظارہ عماد کے سامنے تھا۔
میں ہمیشہ عبایا پہنتی تھی اور کسی غیر مرد کو اپنے قریب آنے نہیں دیا۔ میں نے ہمیشہ اپنا بدن عماد سے چھپایا تھا مگر آج مجھے لگا جیسے میں عماد کے سامنے ننگی ہو گئی ہوں۔ اور بات بھی کچھ ایسی تھی میری برائون نپل سفید قمیض سے واضح نظر آرہی تھی جیسے سفید چادر پر پیتل کر سکہ رکھا ہو۔
میں اتنی بوکھلا گئی کے میں کچھ پوچھنا ہی بھول گئی۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کے میں کیا کروں۔ میں اپنی چھاتیوں کو بانہوں میں چھپایا اور آخر کار گھبرا کر میں اندر کی طرف دوڑ گئی۔
آج پھر عماد کے گھر دعوت تھی۔ شاور والے واقعے کے بعد میں عماد سے کترا رہی تھی مگر میاں کے اصرار پر جانا پڑا۔ میں نے عبایا پہنا ہوا تھا اس لئے تھوڑا سا سکون محسوس کر رہی تھی کہ وہ میرا بدن نہیں دیکھ سکتا۔
واپس آنے لگے تو میاں کے فون کی گھنٹی بج گئی اور ساتھ ہی میری قسمت کی بھی۔ میاں کو آفس کے کام سے جانا تھا اور عماد سے کہا کے مجھے گھر چھوڑ دے۔ میں ہچکجانے کے باوجود نہ نہیں کر سکی اور عماد کی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ سارے راستے میں اپنا جسم سمیٹنے میں لگی رہی اور عماد شیشے سے مجھے گھورتا رہا۔
گھر پہنچتے ہی میں گاڑی سے اتری اور عماد کو بائے بول دیا۔ ساتھ ہی عماد بھی گاڑی سے اتر آیا۔ کہنے لگا بھابھی آپ کے پاس دودھ ہے؟ میں نے غصے سے بولا کیا مطلب تو کہنے لگا کچھ نہیں میں تو کہہ رہا تھا کہ ایک کپ چائے پلا دیں۔
اوہ اچھا۔ مہمان خانے میں بیٹھو میں لاتی ہوں۔ اور وہ میرے پیچھے پیچھے اندر آنے لگا۔ اس کے آگے چلتے ہوئے مجھے لگا جیسے وہ میری گانڈ کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا ہے۔ عبایا تو پہنا تھا مگر جیسے جیسے میں چلتی جاتی میری گانڈ بھی جھوم رہی تھی۔ مجھے لگا جیسے وہ میری گانڈ کو چھونے لگا ہے۔
شکر ہے اندر آنے تک ایسا ویسا کچھ نہ ہوا جو میں سوچ رہی تھی۔ مگر جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہوئے تو عماد نے دروازے کی کنڈی چڑھا دی۔ میرے دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہو گئی جیسے ابھی حلق سے باہر نکل آئے گا۔ میرے ہونٹ تو جیسے سوکھ گئے۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر آج عماد نے کچھ ایسا ویسا کیا تو میں کیا کروں گی۔
میری چوت جو اتنے دنوں کی پیاسی تھی وہ کچھ اور کہہ رہی تھی مگر یہ جسم کسی اور کی امانت ہے۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کے اگر عماد نے مجھے چودنے کا بولا تو میں اسے تھپڑ ماروں یا کہیں بھاگ کر چھپ جائوں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کے اگر عماد کی نیت خراب ہے تو میاں کو بتائوں یا چپ رہوں۔
ایسے ہی کھڑے کھڑے نہ جانے کتنی دیر ہوئی کے عماد نے میری کمر پر ہاتھ رکھا۔ میں ایک دم سے ڈر گئی۔ میرے بدن میں کرنٹ سا دوڑ گیا اور چوت پر چیونٹیاں سی رینگنے لگی۔ نپل ایک دم تن گئے۔ جیسے ہی پیچھے مڑی تو عماد نے کہا بھابھی چائے۔
میں نے کہا اچھا بیٹھو۔ اور پھر کچن میں چلی گئی۔ میں عبایا اتارتے ہوئے ڈر رہی تھی کے میں نے عبایا اتارا تو میرے مست بوبس عماد کو اپنی طرف متوجہ کر دیں گے۔ ایسے ہی میں نے چائے بنا کر عماد کو پیش کی اور سامنے بیٹھ گئی۔ عماد مجھے ہی گھورے جا رہا تھا اور مجھ میں نظریں ملانے کی ہمت نہیں تھی۔
میں نے دیکھا کے عماد کی پینٹ میں ٹینٹ سا بن گیا ہے۔ یقینا اس کا لنڈ کھڑا ہو گا مگر میں تو عبایا میں بیٹھی ہوں پھر کس چیز نے اس کا لنڈ کھڑا کر دیا۔ میں یہ سب سوچتے ہوئے لاشعوری طور پر اس کے لنڈ کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ عمام نے کھانس کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا تو میں جھینپ سی گئی۔ گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھی اور خالی کپ اٹھانے کو آگے بڑھی۔ جیسے ہی میں نے کپ کو پکڑا عماد نے بھی کپ کو پکڑنے کے انداز میں میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
میرا جسم گرمی اور گھبراہٹ سے آگ بنا ہوا تھا۔ جیسے ہی عماد نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں کانپ سی گئی۔ عماد نے بولا کیا ہوا بھابھی۔ میں نے کہا کچھ نہیں۔
اور عماد نے میرے ہاتھ سے کپ لے کر میز پر رکھ دیا۔ اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی پینٹ کے ابھار پر رکھ دیا۔
میں نے کہا یہ کیا کر رہے ہو عماد۔ عماد بولا کچھ نہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ میرے لنڈ کو ہی دیکھنا چاہتی ہیں۔
میں نے انکار کر دیا اور اپنا ہاتھ چھڑانے لگی۔ عماد کی گرفت مضبوط ہو گئی اور میرا ہاتھ اسے کے لنڈ کو محسوس کرنے لگا۔ شاید 5 انچ لمبا اور 2 انچ موٹا لنڈ تھا اس کا۔ میں نے نظریں جھکا لی اور کہا کے ایسا کرنا ٹھیک نہیں۔ تو عماد نے کہا آپ جو ایک سال سے مجھے تڑپا رہی ہیں کیا وہ کرنا ٹھیک ہے۔
میں کچھ نہ بولی۔ میرے ہاتھ پر اس کے لنڈ کا ابھار محسوس ہو رہا تھا۔ میری نپل ٹائٹ ہو گئی اور مجھ پر حوس حاوی ہونے لگی۔ مجھے لنڈ چاہئے مگر صرف اپنے میاں کا۔ میں کسی غیر مرد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھ سکتی۔
میں نے فیصلہ کیا اور اپنا ہاتھ عماد کے ہاتھ سے چھڑوا لیا۔ میں جانے کے لئے جیسے ہی مڑی تو عماد نے مجھے پیچھے سے دبوچ کر اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ میری کمر عماد کے سینے کو محسوس کر سکتی تھی اور عماد کی گرم سانس میری گردن میں آگ لگاتی ہوئی گزر گئی۔ عماد کی پینٹ کا ابھار جو کے اس کا لنڈ تھا وہ بھی میری گانڈ کے آس پاس ہی تھا۔ یوں سمجھ لو کے عماد نے مجھے کمر سے گلے لگایا تھا۔
عماد نے میرے کان کے پیچھے چوما اور پھر میرے کان کا نچلا حصہ اپنے ہونٹوں میں دبا کر چوسنے لگا۔ میری ہمت جواب دینے لگی۔ اس نے میری کمزوری پکڑ لی تھی۔ کان کو چوسنے کے ساتھ ہی میری چوت سے پانی نکلنا شروع ہو گیا اور میں یکدم سب کچھ بھول گئی۔ اب میں صرف ایک عورت تھی جسے ایک تگڑے لنڈ کی ضرورت تھی اور عماد وہ دیوتا تھا جو کسی چوت کے لئے ہر مشکل سے گزر سکتا تھا۔
میں یہ سب عماد پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے میری مزاحمت جاری تھی۔ میں نے کہا عماد چھوڑو مجھے۔ مگر عماد تو جیسے میری بات سن ہی نہیں رہا تھا۔ اس نے عبایا کے اوپر سے ہی اپنا لنڈ میری گانڈ پر رگڑنا شروع کر دیا۔ اور اپنے دونوں ہاتھوں میں میرے بوبس کو پکڑ کر دبانے لگا۔
افففف یہ سب حیرت انگیز طور پر جادوئی تھا۔ اپنے میاں کے علاوہ کسی اور کا لمس مجھے اور ہی نشہ دے رہا تھا۔ جیسے جیسے عماد میرے کان چوس رہا تھا اور میرے نپل کو دبا رہا تھا میری چوت سے پانی رستا جا رہا تھا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کے میری پینٹی مکمل گیلی ہو چکی ہے۔
میری ہمت جواب دینے لگی
میں نے اپنی شرم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عماد کے لنڈ کا مزہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اب میں نے عماد کی جینز کے اوپر سے ہی اس کے لنڈ کو پکڑ لیا۔ اس کا موٹا لنڈ اکڑا ہوا تھا۔ میرے ہاتھوں کو محسوس کرتے ہی اس کا لنڈ سرشار ہو گیا ہو گا۔ وہ گھوم کر میرے سامنے آیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کا بوسہ دیا۔
اس کی آنکھوں میں ایک وحشی چمک تھی جیسے ایک سپہ سالار کسی قلعہ کو فتح کرتا ہے اور پھر اس کی سب دیواروں کو روندتا ہوا تخت پر جا بیٹھتا ہے۔ آج عماد میرے ساتھ بھی وہی کچھ کرنے جا رہا تھا۔ اس نے میرے ہونٹوں کو دانتوں میں دبا کر کاٹا اور درد سے میری آہ نکل گئی۔ شاید اسے اسی لمحے کا انتظار تھا۔
ہونٹ چوسنے اور کاٹنے کے ساتھ عبایا کے اوپر سے ہی اس نے میرے بوبس کو مسلنا شروع کر دیا ۔ میے نپل اکڑ کر سخت ہو گئے۔ اس کے ہاتھوں کی گرفت مجھے سرنڈر کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔ اس نے عبایا اور قمیض کے تہہ کے اندر ہاتھ ڈالا اور میرے جسم کو ٹٹولتے ہوئے میرے بوبس کو برا سے باہر نکال دیا۔ اس نے عبایا کو سامنے سے اٹھایا اور میری چھتیوں کو ننگا کر اپنے چومنے لگا۔ نپل کو چومنے کے ساتھ جب وہ دانتوں سے دباتا تو درد اور لذت کے ملے جلے جذبات سے میری آہ نکل جاتی اور یہ بات اسے سکون دے رہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں میری دونوں نپل سرخ ہو چکی تھیں۔
لذت کا یہ دور شروع ہوا تو میری حوس بھی جاگ گئی۔ میں نے اس کی جینز کھول کر اس کا لنڈ باہر نکال دیا۔ جیسے جیسے وہ میرے نپل کو چوس رہا تھا میرے ہاتھ بھی اس کے لنڈ کو مسل رہے تھے۔ اس کا لنڈ لوہے کے راڈ کی طرح سخت تھا اور مجھے یقین ہونے لگا کے اب میری چوت پیاسی نہیں رہے گی۔
میرے دودھ کو چکھنے کے بعد اس کا دھیان میری گیلی ہوتی ہوئی چوت کی طرف گیا۔ یہ اس کا تخت تھا جہاں اس نے کسی بادشاہ کی طرح بیٹھنا تھا۔ اس نے ہاتھ میرے ٹرائوزر میں ڈال دیا اور میرے چوت کا گیلا پن محسوس کر کے مسکرانے لگا۔ نہ جانے اس کے مسکرانے کا مطلب کیا تھا مگر جیسے ہی اس کا ہاتھ میری چوت کے ساتھ لگا میرے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا۔ میری چوت نے ایک گرم پانی کا ایک تازہ سیلاب چھوڑ کر اس کا استقبال کیا۔ اس کی انگلیاں بہت مہارت سے میری چوت کو مسل رہی تھیں۔ اور میری برداشت ختم ہو گئی۔
میری چوت کو اسی وقت لنڈ چاہئے تھا۔ میری حوس پوری طرح حاوہ ہو چکی تھی۔ مجھ سے اب مزید صبر نہیں ہوتا۔ میں نے اس کے لنڈ کو اپنی چوت کے قریب رگڑنا شروع کیا۔ شاید اسے اندازہ ہو گیا تھا کے اب میں کیا چاہتی ہوں۔
اب اس نے میرا رخ صوفے کی طرف کیا اور میں دونوں ہاتھ سوفے پر رکھ کر جھک گئی۔ اس نے میری کمر سے عبایا تھوڑا سا اٹھایا اور پھر میرا ٹرائوزر اتار کر میری گانڈ ننگی کر دی۔ اس سے پہلے کے وہ اسی پوزیشن میں میری چوت میں لنڈ ڈالتا اس نے پٹاخ کی آواز کے ساتھ میری گاںڈ پر تھپڑ مارا۔ آہ ہ ہ
میری چیخ نکل گئی۔ اور پھر میری گانڈ کو مسلتے ہوئے اس نے اپنا لنڈ میری ٹاگوں کے بیچ سے گزار کر چوت پر رگڑ دیا۔ میرا انتظار طویل ہو رہا تھا اور مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی تھی جب اس نے ایک جھٹکے سے اپنا لنڈ میری چوت میں اتار دیا۔
اف ف ف ف ف
میری چوت رس سے بھر گئی تھی۔ گیلی چوت میں اس کا لنڈ سرکتا ہوا اندر چلا گیا۔ میرے جسم میں ایک سرور کی لہر دوڑ گئی۔ اپنے میاں کے بعد یہ پہلا لنڈ تھا جس نے میری چوت کو سیراب کیا تھا۔
پہلے پہل تو وہ آہستہ آہستہ چودتا رہا اور میری چوت کو ترساتا بھی رہا مگر اب اس کے دھکوں میں تیزی آگئی۔ اس کا لنڈ میری چوت کے آخری کونے تک سرکتا ہوا جاتا اور پھر واپس چوت کے داہنے تک آتا۔ اور ایک بار پھر وہ تیزی سے دھکا لگاتا۔
لگاتار پانچ منٹ چودنے کے دوران میری چوت جھڑ گئی۔ اس کا لنڈ بھی میری چوت سے گیلا ہو گیا اور تیزی سے پھسلنے لگا۔ اب وہ بھی فارغ ہونے لگا تھا۔ اس نے مجھے زور سے اپنے بازو میں جکڑ لیا اور میرے بوبس کو ہاتھوں میں دبا لیا۔ اس کا لنڈ میری چوت میں پانی چھوڑ رہا تھا۔
چود کر وہ فارغ ہوا اور اس نے اپنا لنڈ میری چوت سے نکالا تو اچانک مجھے خیال آیا کے یہ میں نے کیا کر دیا۔ ایک غیر مرد سے چدوا لیا۔ شرم سے مجھے پسینہ آنے لگا۔ اور ٹرائوزر پہن کر عبایا ٹھیک کر کے میں مہمان خانے سے بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی
 
Back
Top