ہیلو دوستو، میرا پیار کا نام شاہی ہے اور میں فیصل آباد کا رہنے والا ہوں۔ میری عمر 27 سال ہے۔ میں نے آج تک بہت سی سیکس کہانیاں پڑھیں اور یہ جانا کہ وہ ان جذبات کی عکاسی کرتی ہیں جو انسان کسی کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتا۔ میں نے بھی سوچا کہ آج میں اپنی 10 سال پہلے کی سب سے پہلی ان کہی کہانی سنا دوں جو حرف بہ حرف میرے سچے جذبات کی سچی داستان ہے۔ آپ اسے پڑھ کر مزید فیصلہ کریں۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب میں 17 سال کا تھا۔ میں اپنی امی، ابو اور دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ فیصل آباد میں ایک اچھی کالونی میں رہتا تھا۔ اس کالونی میں ایک مغلوں کی فیملی رہتی تھی جس سے میری امی کا بہت میل جول تھا۔ اس فیملی میں 8 بہنیں اور 2 بھائی تھے، والدین کے علاوہ۔ دو بہنوں کی شادی ہو چکی تھی، ایک طلاق یافتہ تھیں جنہیں سب گھر والے پیار سے رانی کہتے تھے، اصلی نام نہیں لوں گا۔ باقی سب کنوارے تھے۔
میری امی کی رانی سے بہت دوستی تھی جو کہ 35 سال کی تھیں۔ ان کا رنگ بالکل گورا تھا، جسم بھرا بھرا (نہ پتلی، نہ موٹی)، چھاتیاں لگ بھگ 36 سائز کی ہوں گی۔ ہم انہیں آنٹی رانی کہتے تھے۔ وہ تقریباً روزانہ ہمارے گھر آتی تھیں، ہم بچوں سے بہت اٹیچ تھیں، امی کے ہر کام میں مدد کرتی تھیں۔ جب تک ابو آفس سے واپس نہ آتے، وہ ہمارے گھر ہمارے ساتھ وقت گزارتی تھیں۔ ہمیں کبھی نہیں لگا کہ ان سے ہمارا کوئی خونی رشتہ نہیں ہے۔ اب میں آپ کو اس واقعے کی طرف لے جاتا ہوں جو آج بھی دماغ میں لمحہ بہ لمحہ اسی طرح تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو۔
ایک دن ہم اسکول سے آئے ہی تھے کہ گاؤں سے چچا کا فون آیا کہ دادا ابو کی طبیعت بہت خراب ہے اور ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے پھیپھڑوں میں پانی پڑ گیا ہے۔ انہوں نے امی سے کہا کہ آپ بھائی جان کے ساتھ آ کر دادا ابو کو علاج کے لیے شہر لے آئیں۔ یہ دسمبر کا مہینہ تھا اور سردی اپنی عروج پر تھی۔ امی بہت پریشان ہوئیں اور ابو کو دفتر فوراً فون کیا۔ آنٹی رانی اس وقت ہمارے گھر پر تھیں۔ امی نے آنٹی رانی سے درخواست کی کہ وہ رات کو میرے اور میری بہنوں کے پاس رہ جائیں تاکہ وہ ابو کے ساتھ گاؤں جا سکیں۔ آنٹی نے کہا کہ وہ اپنے ابو سے پوچھ کر بتا سکتی ہیں اور انہوں نے ہمارے گھر سے اپنے ابو کو فون کیا۔ میری امی نے بھی اپنی ایمرجنسی ان کے ابو کو بتائی اور درخواست کی تو وہ مان گئے۔ امی نے ضروری سامان پیک کیا اور اسی دوران ابو بھی آ گئے۔ آنٹی رانی بھی تھوڑی دیر میں اپنے گھر سے ہو کر آ گئیں۔ وہ امی سے کہنے لگیں کہ کیا میں رات کو بچوں کو اپنے گھر لے جاؤں؟ تو امی نے کہا کہ پتا نہیں انہیں دیر رات یا صبح سویرے دادا کو شہر لانا پڑے، تو ایسی حالت میں گھر بند کرنا ٹھیک نہیں۔ آنٹی رانی نے کہا کہ ٹھیک ہے، وہ رات ہمارے گھر ہی گزاریں گی۔ وہ پھر اپنے گھر گئیں اور 10 منٹ بعد واپس آ گئیں، ان کے ہاتھ میں ایک شاپر تھا۔ امی اور ابو چچا کے فون کے 2 گھنٹے بعد گھر سے اپنی کار میں گاؤں کے لیے روانہ ہو گئے۔
سردیوں کے دن تھے، جلد ہی مغرب کی اذانیں ہونے لگیں۔ مغرب کے تھوڑی دیر بعد آنٹی رانی نے میری سب سے چھوٹی بہن جو کہ 3.5 سال کی تھی، اسے فیڈر بنا کر دیا اور وہ فیڈر پینے کے بعد سو گئی۔ ہم نے بھی 7 بجے کے قریب کھانا کھایا اور بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگے۔ 8 بجے کے قریب میری چھوٹی سے بڑی بہن جو کہ 11.5 سال کی تھی، ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو گئی۔ 9 بجے کے قریب آنٹی نے مجھ سے کہا کہ رات بہت ہو گئی ہے، تم بھی ٹی وی بند کر کے سو جاؤ۔ انہوں نے شاپر سے اپنے کپڑے نکالتے ہوئے کہا کہ میں نہانے جا رہی ہوں۔ آنٹی رانی کی فیملی اتنی مالی طور پر مضبوط نہیں تھی، اس لیے ان کے گھر گیزر نہیں تھا اور وہ لوگ سٹو پر پانی گرم کر کے نہاتے تھے۔ ہمارے گھر آ کر انہیں گیزر کا پانی میسر آ رہا تھا اور وہ یہ موقع کھونا نہیں چاہتی تھیں، اس لیے اپنا ایک ڈریس ساتھ لائی تھیں۔ سہولیات کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جن کے پاس نہیں ہوتیں۔ ہمارے لیے گیزر کے پانی سے نہانا کوئی بات نہیں تھی، پر آنٹی کے لیے بڑا آرام دہ احساس تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اپنے ابو والے کمرے میں سو جاؤ گے جہاں روز سوتے ہو؟ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ڈر لگے گا، میں ہمیشہ ابو کے ساتھ سوتا ہوں، اکیلا نہیں۔ میں نے کہا کہ میں نیچے بستر کر لوں؟ تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ وہ یہ کہہ کر نہانے چلی گئیں۔ میں نے ڈبل تلائی لا کر پتلے روئی کے گدے بچھا کر اچھا کھلا بستر بچھایا اور ابو کے کمرے والی ڈبل رجائی لے آیا۔ اور بستر بچھا کر لیٹ گیا۔
مجھے لائٹ آف کر کے لیٹے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ مجھے خیال آیا کہ واش روم کے نچلے لاک میں سوراخ ہے جو کہ خراب لاک نکالنے کی وجہ سے ہو گیا تھا۔ ہم سب کو گھر میں پتا تھا کہ خراب لاک کی وجہ سے واش روم کے دروازے میں چھوٹا سا سوراخ ہے، پر ہمیں اس سوراخ سے کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ ہم فیملی میں کسی سے کسی کو خطرہ نہیں تھا اور نہ ہی اس سوراخ کو غلط استعمال کرنے کا کوئی سوچ سکتا تھا۔ واش روم کے دروازے میں لاک خراب ہونے کے بعد اوپر کنڈی لگوا لی تھی۔ مگر آج میرے دل میں خواہش اٹھی کہ آنٹی رانی کو نہاتے دیکھوں، پر مجھے خوف آیا کہ اگر آنٹی نے پکڑ لیا تو کیا ہوگا۔ میں اپنے بے جا خوف پر خود ہی مسکرا دیا کیونکہ آنٹی کو اس سوراخ کا پتا ہی نہیں تھا تو وہ مجھے کیسے پکڑتیں۔ میں چپ چاپ بستر سے اٹھا اور ابو کے کمرے میں داخل ہو گیا جہاں بالکل اندھیرا تھا۔ ابو کے کمرے کے ساتھ ہی واش روم اٹیچ تھا۔ میں نے پاؤں میں چپل اس لیے نہیں پہنی کہ کہیں میرے چلنے کی آواز نہ آئے۔ فرش اتنا ٹھنڈا تھا کہ میرے پاؤں جم رہے تھے، پر جذبات میں مغلوب میں چپ چاپ بے آواز باتھ روم کے دروازے کے سامنے پہنچ گیا۔ میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، میری ٹانگیں سردی کی شدت سے کانپ رہی تھیں اور دل جذبات کی شدت سے زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے سوراخ پر آنکھ لگائی، آنٹی نے شلوار اتاری ہوئی تھی اور واش بیسن کے سامنے انہوں نے قمیض پیٹ تک فولڈ کی ہوئی تھی۔ ان کے کولہے بہت سفید اور گول تھے۔ انہوں نے برش کر کے اپنا منہ واش روم کے دروازے کی طرف کیا تو ان کا پیٹ نظر آیا جو کہ نہایت خوبصورت تھا، سادہ اور گورا۔ ان کی ناف گول اور گہری تھی اور ان کا پیٹ ناف والی جگہ سے اندر کو گیا ہوا تھا، شاید شلوار کے ایلاسٹک کی وجہ سے۔ ان کی پھدی پر کالے گھنے بال تھے اور اس کے دونوں ہونٹ آپس میں جڑے ہوئے تھے درمیان سے۔ پھر انہوں نے اپنی شرٹ اتار دی، انہوں نے کالی برا پہنی ہوئی تھی۔ آنٹی اپنی چوٹی کھولنے لگیں اور اپنے کالے گیسو کھول دیے۔ ایسا لگا جیسے چاند کے آگے کالے بادل آ گئے ہوں۔ پھر انہوں نے اپنی برا کا ہک کھولا اور اسے اتار دیا۔ ایسا لگا جیسے 1000 واٹ کے بلب واش روم میں جل اٹھے ہوں۔ ان کی چھاتیاں بہت گوری تھیں، کالے نپل اور سفید چھاتیاں۔ نپل صرف کالے تھے، چھاتیوں پر کوئی کالا دائرہ نہیں تھا، وہ بالکل گوری تھیں۔ بہت حسین منظر تھا۔ انہوں نے شاور چلا لیا اور نہانے لگیں۔ میں بھی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر تھک گیا تھا اور میرے پاؤں سردی کی شدت سے اکڑ رہے تھے۔ میں نے اٹھ جانا ہی مناسب سمجھا کیونکہ مزید رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ جیسے چپ چاپ آیا تھا، ویسے ہی چپ چاپ اپنے بستر میں جا کر لیٹ گیا۔ سردی اور جذبات کی شدت کی وجہ سے رجائی میں بھی میرا جسم کانپ رہا تھا۔ میرے جسم کو نارمل ہونے میں تقریباً 10 منٹ لگے، پر میرے جذبات تو کسی بھی طرح نارمل نہیں ہو رہے تھے۔ وہ حسین مناظر میری آنکھوں کے آگے گھوم رہے تھے۔
کچھ دیر بعد آنٹی نہا کر کمرے میں آ گئیں۔ میں نے یہی دکھاوا کیا کہ میں بھی سو چکا ہوں، پر میرا انگ انگ جاگ اٹھا تھا۔ میں اپنے لن کو رجائی کے اندر ہاتھ سے مسل رہا تھا۔ آنٹی بیڈ پر جا کر بیٹھ گئیں اور پھر آہستہ آواز میں بولیں کہ یہ بچیاں کتنا بے ڈھنگ سوئی ہوئی ہیں، میرے لیے تو بیڈ پر جگہ ہی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ آنٹی میری چھوٹی بہن کو اٹھا کر ایڈجسٹ کریں گی اور بیڈ پر اپنی جگہ بنائیں گی۔ پر تھوڑی دیر بعد میرے سائیڈ پر ایک تکیہ گرا اور پھر آن کی آن میں آنٹی رانی میری رجائی میں گھس کر میرے ساتھ لیٹ گئیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ ہو گیا تھا جس کا کبھی میں نے سوچا بھی نہ تھا۔ جسے چپ کر دل میں ڈر لیے واش روم میں نہاتے دیکھا تھا، وہ اب میرے برابر لیٹی ہوئی تھیں۔ اسے اب میں کیا کہتا، مجھے پتا نہیں تھا۔
تھوڑی دیر بعد آنٹی پرسکون اور گہری نیند کی آغوش میں کھوئی ہوئی لگنے لگیں۔ میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کروں، ورنہ بہت جوتے کھانے پڑیں گے، ابو، امی، آنٹی اور پتا نہیں کس کس سے، پر میرا دل کہہ رہا تھا کہ اگر قدرت نے اتنا بڑا موقع دیا ہے تو اسے کھونا نہیں چاہیے۔ دل اور دماغ کی بازی میں اکثر دل ہی جیتتا ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے آنٹی رانی کا ننگا جسم، خاص طور پر ان کا خوبصورت پیٹ گھوم رہا تھا جو میرے دماغ کو مفلوج کر رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہی کچھ کرنے کا وقت ہے اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اپنا ہاتھ ان کے پیٹ کی طرف بڑھایا۔ میرے دل کی دھڑکنیں بہت تیز ہو گئیں اور کان دھڑکنوں کی آواز سے گونج رہے تھے۔ میں ڈرتے ہوئے اپنا ہاتھ ان کے پیٹ پر رکھ دیا، اتنا نرم اور گداز احساس مجھے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس پر آنٹی کی دھیمی چلتی سانسوں سے پیٹ کا ہلنا میرے دل کو اور بھی گدگدا رہا تھا۔ آنٹی کا کسی قسم کا رسپانس نہ دینا میری حرکت کو تقویت دے رہا تھا۔ اب میرا دل چاہا کہ بغیر کسی پردے کے پیٹ کا لمس محسوس کروں۔ میں نے ہاتھ وہیں پر رکھے رکھا اور آنٹی کی قمیض انگوٹھے سے پیٹ کی طرف کھینچنے لگا۔ آنٹی نے گھٹنے فولڈ کر کے ٹانگیں کھڑی کی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے قمیض آسانی سے پیٹ تک آ گئی۔ میرے ہاتھ جیسے ہی آنٹی کے پیٹ کو ٹچ ہوا، وہ کتنا نرم اور گرم تھا، میں بتا نہیں سکتا تھا۔ آنٹی کی شلوار ناف سے اوپر تک آئی ہوئی تھی، میں نے جیسے ہی شلوار تھوڑی سی نیچے کھینچی اور آنٹی کی ناف کو ٹچ کیا، آنٹی کو تو ایک دم کرنٹ سا لگ گیا۔ انہوں نے میرا ہاتھ پھرتی سے ہٹایا اور دوسری طرف کروٹ لے لی۔ میرا ڈر کے مارے برا حال تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب تھپڑ آیا، لیکن خیرات گزری۔ لگتا تھا آنٹی نے میری اس حرکت کو معاف کر دیا تھا۔ میں نے سوچا کہ اب انسانیت اسی میں ہے کہ اب مزید کوئی پیش قدمی نہ کی جائے۔ پر جیسے ہی آنٹی کروٹ بدل کر سیدھی ہوئیں، میرے اندر کا شیطان پھر جاگ اٹھا۔ اب کی دفعہ وہ بالکل سیدھی لیٹی ہوئی تھیں اور ان کی ٹانگیں بھی بالکل سیدھی تھیں۔ میں پھر ڈرتے دل سے ہاتھ ان کے پیٹ پر رکھ دیا اور میں ری ایکشن کا ویٹ کرنے لگا۔ پر کوئی رسپانس نہیں آیا۔ میں نے پھر قمیض ان کے گھٹنوں سے اوپر کھینچنی شروع کر دی، جب قمیض پیٹ تک آئی تو مجھے جان کر مایوسی ہوئی کہ آنٹی نے شلوار پھر ناف سے اوپر کر لی تھی۔ میں نے آرام سے ایلاسٹک پھر نیچے کھینچا اور ہاتھ ڈائریکٹ آنٹی کی خوبصورت ناف والی جگہ پر ڈائریکٹ رکھ دیا۔ پھر وہی کرنٹ آنٹی کے جسم میں دوڑ گیا، پر اس دفعہ ردعمل اتنا شدید نہیں تھا۔ آنٹی نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا، میں نے بدستور سونے کی ایکٹنگ جاری رکھی۔ انہوں نے آرام سے میرا ہاتھ پیٹ سے اٹھایا، قمیض درست کر کے گھٹنوں تک لائیں، پھر میرا ہاتھ پیٹ پر رکھ دیا۔ میں اپنے جذبات کی فراوانی بیان نہیں کر سکتا جو اس وقت میرے پر طاری تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ چاہے قمیض کے اوپر سے سہی، پر آنٹی رانی نے اپنے پیٹ پر مجھے ہاتھ رکھنے کی اجازت دے کر مجھ پر بہت بڑا احسان کیا تھا جسے شاید میں ساری عمر نہ چکا پاؤں۔ اور ایک اور بات، اس دفعہ انہوں نے میری ناف سے نیچی کی ہوئی شلوار دوبارہ اوپر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی دوران آنٹی نے میری طرف سائیڈ لے لی، اب میرے دل میں شدید خواہش تھی کہ میں آنٹی کے پیٹ پر بوسہ کروں۔ میں نے قمیض کو پھر آہستہ آہستہ پیٹ کی طرف لانا شروع کیا اور جب قمیض پیٹ تک آ گئی تو میں رجائی میں نیچے ہونے لگا۔ آنٹی کے پیٹ کے برابر آ کر میں نے اپنا منہ پیٹ کی طرف بڑھانا شروع کیا۔ آنٹی کی اکٹھی ہوئی قمیض میرے منہ سے ٹچ کی اور جب میں نے مزید منہ آگے کیا تو میرے ہونٹ ان کے نرم اور گرم پیٹ سے ناف والی جگہ پر جا ٹکرائے۔ میرے ہونٹوں کے لمس نے رجائی میں طوفان برپا کر دیا۔ میں اپنی جگہ پر ڈر کر سمٹ گیا۔
تھوڑی دیر بعد رجائی کا ماحول پرسکون ہو گیا، جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ میں نے سوچا کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود آنٹی نے مجھے وہ سخت ری ایکشن نہیں دکھایا جس کی مجھے امید تھی۔ پیٹ پر بوسہ کرنے کا خیال پھر دل میں زور پکڑنے لگا۔ میں نے ہاتھ پھر سے پیٹ کی طرف بڑھایا تو یہ جان کر خوشی کی انتہا نہ رہی کہ آنٹی کا سارا پیٹ ننگا تھا، بلکہ انہوں نے شلوار سارے پیٹ سے نیچے کر لی تھی اور قمیض کمر کے نیچے سے نکل کر سینے تک اونچی کر لی تھی۔ میں آہستہ آہستہ آنٹی کے نرم اور بہت گرم پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا اور خود کو اندر ہی اندر داد دینے لگا کہ میری متعدد کوششوں نے آنٹی کے جذبات کی برف کو پگھلا دیا۔ میں اٹھا اور اپنا سر آنٹی کے پیٹ پر لے گیا اور زبان آنٹی کی ناف کے گرد پھیرنے لگا۔ زبان پھیرتے پھیرتے آنٹی کی ناف کے اندر ڈال دی اور اسے چاٹنے لگا۔ آنٹی کا منہ رجائی سے باہر تھا اور رجائی سینے سے اٹھی ہوئی تھی۔ میری آنکھیں اب اندھیرے میں اب پوری طرح دیکھنے کے قابل ہو چکی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ آنٹی نے اپنی دونوں بازو سر سے اوپر کیے ہوئے ہیں اور میری ناف چاٹنے کی وجہ سے گردن دائیں بائیں گھما رہی ہیں۔ میں ناف چاٹتے ہوئے کبھی آنٹی کی دونوں سائیڈ کی پسلیوں کو چومتا اور کبھی ہلکا سا کاٹ بھی لیتا، جس وجہ سے آنٹی کی ہلکی سی سسکی بلند ہوتی، سسسس۔ پھر میں نے آنٹی کی قمیض سینے سے تھوڑی اوپر کی اور آنٹی کی سفید برا میرے سامنے تھی جو انہوں نے نہانے کے بعد کالی کے بعد بدلی تھی۔ میں نے برا آرام سے اسے اوپر کیا اور گورا بایاں چھاتی باہر نکال لیا۔ میں نے اسے ہاتھ میں پکڑ کر کالے نپل کے گرد زبان پھری اور پھر دودھ پینے والے بچے کی طرح اسے چوسنے لگا۔ آنٹی نے قمیض سینے سے ساری اوپر کر کے دوسری طرف کا چھاتی بھی باہر نکال دیا۔ آنٹی نے اب میری طرف سائیڈ لے لی تھی۔ اب میں ان کے ساتھ لیٹا کسی نیند میں سوئے ہوئے بچے کی طرح فیڈ لے رہا تھا۔ میں نے اپنا ٹراؤزر گھٹنے فولڈ کر کے چھاتی چوسنے کے ساتھ ساتھ اتار دیا اور نیچے سے مکمل ننگا ہو گیا کیونکہ میں نے انڈرویئر نہیں پہنا تھا۔ آنٹی کبھی میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتیں اور کبھی مجھے اپنے سینے کے ساتھ پریس کرتیں۔ میں گردن اوپر کر کے ان کا دایاں چھاتی بھی چوس رہا تھا۔ پھر چھاتی چوستے ہوئے میں نے آنٹی کو سیدھا کیا اور ان کے پیٹ پر دوبارہ بوسہ کرنے لگا۔ میں نے ہمت کر کے ان کی پھدی پر ہاتھ رکھ دیا۔ ان کی شلوار گیلی ہو چکی تھی اور ان کی پھدی کے بالوں کا احساس شلوار کے اوپر سے بھی ہو رہا تھا۔ میں نے شلوار کا ایلاسٹک تھوڑا اوپر کیا اور ہاتھ اندر ڈال دیا۔ پھدی کو ٹچ کرتے ہی آنٹی نے میرا ہاتھ شلوار میں اپنا ہاتھ ڈال کر پکڑ لیا، پر باہر نہیں نکالا۔ میں نے ان کی پھدی کو آہستہ رب کرنا شروع کیا جس سے وہ اور گیلی ہو گئیں اور انہوں نے آہستہ سے اپنا ہاتھ شلوار سے باہر نکال لیا۔ پھر میں نے اپنی درمیانی انگلی آنٹی کی پھدی میں ڈالی تو آنٹی کو ایک زور کا جھٹکا لگا اور انہوں نے آہستہ سے کہا، "ہائے امی جی، میں مر گئی۔" اور میرا ہاتھ شلوار کے اوپر سے پکڑ لیا، پر پھر خود ہی چھوڑ دیا۔ میں انگلی آہستہ آہستہ اندر باہر کرنے لگا، آنٹی کی پھدی اندر سے بہت گیلی اور گرم تھی۔ میں نے سوچا کہ یہی وقت ہے آنٹی کو نیچے سے ننگا کرنے کا۔ میں نے آنٹی کی شلوار نیچے کو کھینچی، پر وہ نیچے نہ گئی، پر جیسے ہی آنٹی نے اپنے کولہے میری انگلی اپنی پھدی میں مزید داخل کرنے کے لیے اٹھائے، میں نے شلوار ان کے کولہوں کے نیچے سے کھینچ لی۔ اب شلوار ان کے گھٹنوں تک تھی اور پھر جب انہوں نے مزید اوپر حرکت کرنے کے لیے کولہے اٹھائے اور ٹانگیں پھیلائیں، شلوار پاؤں میں آ گئی۔ میں نے شلوار کو آرام سے دونوں پاؤں سے نکالا اور انہیں آزاد کر دیا۔ اب میں آنٹی کی پھیلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان آ گیا۔ اور ان کے سارے پیٹ پر زبان پھیرنے لگا، ان کا جسم مزے سے کانپ رہا تھا۔ پھر میں اوپر آ کر آنٹی رانی کا بایاں چھاتی اپنے منہ لے لیا اور چوسنے لگا۔ اس وقت میری قد تقریباً 5 فٹ 4 انچ تھی اور آنٹی کی 5 فٹ 7 انچ۔ میں منہ سے آنٹی کی چھاتی چوس رہا تھا اور میرا لن ان کی پھدی سے رگڑ کھا رہا تھا۔
آنٹی نے اچانک اپنے دائیں ہاتھ سے میرے لن کو پکڑا اور اس کی ٹوپی اپنی نرم گرم پھدی میں داخل کر دی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی گرم پر نرم بھٹی میں آ گیا ہوں۔ ابھی یہ احساسات ختم نہیں ہوئے تھے کہ آنٹی رانی نے میرے دونوں کولہے زور سے پکڑے اور ان میں اپنے ناخن گاڑ دیے اور انہیں اوپر کھینچا جس سے میرا لن ان کی پھدی اور گہرائی میں چلا گیا۔ پھر انہوں نے خود ہی ایک آواز لگائی، "اوئے امی جیییی، میں مررررررر گئی۔" پر آواز ایسی لگائی کہ میری بہنوں کے کانوں تک نہ پہنچے۔ پھر انہوں نے اپنی دونوں پھیلی ہوئی ٹانگیں میری ٹانگوں کے اوپر سے گھما کر میری پنڈلیوں میں سے گزار دیں جس کی وجہ سے ان کے کولہے اور اوپر اٹھ گئے اور میرا سارا لن جو اس وقت 5.5 انچ کا تھا، ان کی پھدی میں جڑ تک چلا گیا۔ مجھے اب پتا ہے، پر اس وقت نہیں تھا کہ اسے لاک لگانا کہتے ہیں۔ انہوں نے پھر آواز لگائی، "ہائے میں مر گئی" اور پھر میرے کولہوں کو اوپر نیچے ہلانے لگیں۔ میں بھی اب ہل کر ان کا ساتھ دینے لگا۔ جب میرا لن اندر باہر ہوتا تو ان کی پھدی سے پچ پچ کی آوازیں آتیں، پھدی گیلی ہونے کی وجہ سے، اور ساتھ میں ان کی ہائے ہائے کی آوازیں بھی۔ میرا لن کئی دفعہ پھسل کر باہر نکل جاتا تو وہ فوراً اندر ڈال لیتیں۔ پھر ان کے جوش کی انتہا ہو گئی۔ انہوں نے لاک کھول کر ٹانگیں گھٹنوں تک فولڈ کر لیں اور گھٹنوں پر بوجھ ڈال کر اوپر اٹھ گئیں۔ اپنے بائیں ہاتھ سے میرا چہرہ اپنی بائیں چھاتی پر پریس کیا اور دائیں ہاتھ سے میرا دایاں کولہا زور سے گرپ کر لیا۔ اب میں بے بس پنچھی کی طرح ان کی تجربہ کار گرفت میں تھا اور وہ اپنا کولہا نیچے سے زور زور سے ہلا رہی تھیں۔ ان کے منہ سے بے معنی آوازیں نکل رہی تھیں اور اب خاصی بلند تھیں، انہیں اب کسی کی موجودگی کا کوئی احساس نہیں تھا۔ آہ آہ آہ مر گئی۔ مجھے بھی کوئی ڈر نہیں تھا کیونکہ میری بہنیں خاصی گہری نیند سوتی ہیں۔ آخر انہوں نے اُف آہ آہ آہ کی آوازیں نکالنے کے بعد دو شدید جھٹکے مارے اور میں بھی ان کی پھدی کی گرمی سے چھوٹ گیا۔ اس وقت ابھی نیا نیا بالغ ہوا تھا، اس لیے ایک دو قطرے ہی آتے تھے جو میں نے آنٹی کے سپرم کے سیلاب میں شامل کر دیے۔ وہ بے دم ہو کر بستر پر لیٹ گئیں اور گہری گہری سانسیں لینے لگیں۔ ان کے برسوں کا سیلاب بند توڑ کر میرا لن اور نیچے بستر بھی گیلا کر رہا تھا۔ ہم دونوں اس سردی میں بھی پسینے میں شرابور تھے۔
اچانک جیسے آنٹی رانی کو ہوش آیا، انہوں نے مجھے اپنے اوپر سے سائیڈ پر بستر پر گرا دیا۔ اور اپنے اور میرے درمیان تکیہ کر دیا، اپنا سر کے نیچے سے نکال کر۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں کوئی فلم دیکھ رہا تھا جو اب ختم ہو گئی ہے۔ ان کا عجیب ردعمل میری سمجھ سے باہر تھا۔ پر میں نے کنارہ کشی میں ہی خیرات جانی اور جو کچھ ہو چکا تھا، اس سے زیادہ کیا ہونا تھا۔ صبح مجھے ٹمپریچر ہو گیا، بہنوں کو آنٹی خود رکشہ پر اسکول چھوڑ کر آئیں۔ میں گھر میں تھا۔ آنٹی نے آ کر مجھے ناشتہ دیا اور ناشتے کے ٹیبل پر مجھے خوب ڈرایا دھمکایا۔ میں جو کل رات ان کے ساتھ زبردستی کی تھی، وہ سب کو بتا دیں گی۔ میں بہت گھبرا گیا اور رونے لگا، معافیاں مانگنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس بات کو یہیں بھول جاؤں اور آئندہ اگر میں ان کے یا ان کی بہنوں کے آس پاس بھی بھٹکا تو وہ میرا بہت برا حال کریں گی۔ میں سر ہلا کر رہ گیا۔ آنٹی رانی سب کچھ کر کے بھی گنگا نہا چکی تھیں۔
میں نے ان کی آدھی بات مان لی اور دوبارہ ان کے پاس نہیں پھٹکا کیونکہ وہ بہت زیادہ ڈری ہوئی اور غیر محفوظ عورت تھیں، جنہیں پکڑے جانے کا بہت ڈر تھا۔ کچھ عرصہ بعد ان کی دوبارہ شادی ہوگئی ۔اور ہمارا آمنا سامنا ہی نہ ہونے کے برابر ہوگیا۔ان کی شادی کے بعد میں نے ان سے لیا ہوا سیکس کا تجربہ ان کی تین چھوٹی بہنوں پر آزمایا اور اس اچھے طریقے سے آزمایا کہ آج تک کسی کو دوسری کے واقعے کے بارے میں پتا نہیں۔ آنٹی رانی کی لگائی ہوئی آگ میں ان کی تین اور بہنوں نے خاموشی سے ہاتھ سیکے۔ اور یہ صرف آنٹی رانی کی فیملی کے لیے نہیں، آج تک کسی نے بھی مجھ سے ریلشن رکھا، کبھی کسی کو اس کے اور میرے علاوہ خبر نہیں ہوئی۔(ختم شد)
میری امی کی رانی سے بہت دوستی تھی جو کہ 35 سال کی تھیں۔ ان کا رنگ بالکل گورا تھا، جسم بھرا بھرا (نہ پتلی، نہ موٹی)، چھاتیاں لگ بھگ 36 سائز کی ہوں گی۔ ہم انہیں آنٹی رانی کہتے تھے۔ وہ تقریباً روزانہ ہمارے گھر آتی تھیں، ہم بچوں سے بہت اٹیچ تھیں، امی کے ہر کام میں مدد کرتی تھیں۔ جب تک ابو آفس سے واپس نہ آتے، وہ ہمارے گھر ہمارے ساتھ وقت گزارتی تھیں۔ ہمیں کبھی نہیں لگا کہ ان سے ہمارا کوئی خونی رشتہ نہیں ہے۔ اب میں آپ کو اس واقعے کی طرف لے جاتا ہوں جو آج بھی دماغ میں لمحہ بہ لمحہ اسی طرح تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو۔
ایک دن ہم اسکول سے آئے ہی تھے کہ گاؤں سے چچا کا فون آیا کہ دادا ابو کی طبیعت بہت خراب ہے اور ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے پھیپھڑوں میں پانی پڑ گیا ہے۔ انہوں نے امی سے کہا کہ آپ بھائی جان کے ساتھ آ کر دادا ابو کو علاج کے لیے شہر لے آئیں۔ یہ دسمبر کا مہینہ تھا اور سردی اپنی عروج پر تھی۔ امی بہت پریشان ہوئیں اور ابو کو دفتر فوراً فون کیا۔ آنٹی رانی اس وقت ہمارے گھر پر تھیں۔ امی نے آنٹی رانی سے درخواست کی کہ وہ رات کو میرے اور میری بہنوں کے پاس رہ جائیں تاکہ وہ ابو کے ساتھ گاؤں جا سکیں۔ آنٹی نے کہا کہ وہ اپنے ابو سے پوچھ کر بتا سکتی ہیں اور انہوں نے ہمارے گھر سے اپنے ابو کو فون کیا۔ میری امی نے بھی اپنی ایمرجنسی ان کے ابو کو بتائی اور درخواست کی تو وہ مان گئے۔ امی نے ضروری سامان پیک کیا اور اسی دوران ابو بھی آ گئے۔ آنٹی رانی بھی تھوڑی دیر میں اپنے گھر سے ہو کر آ گئیں۔ وہ امی سے کہنے لگیں کہ کیا میں رات کو بچوں کو اپنے گھر لے جاؤں؟ تو امی نے کہا کہ پتا نہیں انہیں دیر رات یا صبح سویرے دادا کو شہر لانا پڑے، تو ایسی حالت میں گھر بند کرنا ٹھیک نہیں۔ آنٹی رانی نے کہا کہ ٹھیک ہے، وہ رات ہمارے گھر ہی گزاریں گی۔ وہ پھر اپنے گھر گئیں اور 10 منٹ بعد واپس آ گئیں، ان کے ہاتھ میں ایک شاپر تھا۔ امی اور ابو چچا کے فون کے 2 گھنٹے بعد گھر سے اپنی کار میں گاؤں کے لیے روانہ ہو گئے۔
سردیوں کے دن تھے، جلد ہی مغرب کی اذانیں ہونے لگیں۔ مغرب کے تھوڑی دیر بعد آنٹی رانی نے میری سب سے چھوٹی بہن جو کہ 3.5 سال کی تھی، اسے فیڈر بنا کر دیا اور وہ فیڈر پینے کے بعد سو گئی۔ ہم نے بھی 7 بجے کے قریب کھانا کھایا اور بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگے۔ 8 بجے کے قریب میری چھوٹی سے بڑی بہن جو کہ 11.5 سال کی تھی، ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو گئی۔ 9 بجے کے قریب آنٹی نے مجھ سے کہا کہ رات بہت ہو گئی ہے، تم بھی ٹی وی بند کر کے سو جاؤ۔ انہوں نے شاپر سے اپنے کپڑے نکالتے ہوئے کہا کہ میں نہانے جا رہی ہوں۔ آنٹی رانی کی فیملی اتنی مالی طور پر مضبوط نہیں تھی، اس لیے ان کے گھر گیزر نہیں تھا اور وہ لوگ سٹو پر پانی گرم کر کے نہاتے تھے۔ ہمارے گھر آ کر انہیں گیزر کا پانی میسر آ رہا تھا اور وہ یہ موقع کھونا نہیں چاہتی تھیں، اس لیے اپنا ایک ڈریس ساتھ لائی تھیں۔ سہولیات کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جن کے پاس نہیں ہوتیں۔ ہمارے لیے گیزر کے پانی سے نہانا کوئی بات نہیں تھی، پر آنٹی کے لیے بڑا آرام دہ احساس تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اپنے ابو والے کمرے میں سو جاؤ گے جہاں روز سوتے ہو؟ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ڈر لگے گا، میں ہمیشہ ابو کے ساتھ سوتا ہوں، اکیلا نہیں۔ میں نے کہا کہ میں نیچے بستر کر لوں؟ تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ وہ یہ کہہ کر نہانے چلی گئیں۔ میں نے ڈبل تلائی لا کر پتلے روئی کے گدے بچھا کر اچھا کھلا بستر بچھایا اور ابو کے کمرے والی ڈبل رجائی لے آیا۔ اور بستر بچھا کر لیٹ گیا۔
مجھے لائٹ آف کر کے لیٹے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ مجھے خیال آیا کہ واش روم کے نچلے لاک میں سوراخ ہے جو کہ خراب لاک نکالنے کی وجہ سے ہو گیا تھا۔ ہم سب کو گھر میں پتا تھا کہ خراب لاک کی وجہ سے واش روم کے دروازے میں چھوٹا سا سوراخ ہے، پر ہمیں اس سوراخ سے کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ ہم فیملی میں کسی سے کسی کو خطرہ نہیں تھا اور نہ ہی اس سوراخ کو غلط استعمال کرنے کا کوئی سوچ سکتا تھا۔ واش روم کے دروازے میں لاک خراب ہونے کے بعد اوپر کنڈی لگوا لی تھی۔ مگر آج میرے دل میں خواہش اٹھی کہ آنٹی رانی کو نہاتے دیکھوں، پر مجھے خوف آیا کہ اگر آنٹی نے پکڑ لیا تو کیا ہوگا۔ میں اپنے بے جا خوف پر خود ہی مسکرا دیا کیونکہ آنٹی کو اس سوراخ کا پتا ہی نہیں تھا تو وہ مجھے کیسے پکڑتیں۔ میں چپ چاپ بستر سے اٹھا اور ابو کے کمرے میں داخل ہو گیا جہاں بالکل اندھیرا تھا۔ ابو کے کمرے کے ساتھ ہی واش روم اٹیچ تھا۔ میں نے پاؤں میں چپل اس لیے نہیں پہنی کہ کہیں میرے چلنے کی آواز نہ آئے۔ فرش اتنا ٹھنڈا تھا کہ میرے پاؤں جم رہے تھے، پر جذبات میں مغلوب میں چپ چاپ بے آواز باتھ روم کے دروازے کے سامنے پہنچ گیا۔ میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، میری ٹانگیں سردی کی شدت سے کانپ رہی تھیں اور دل جذبات کی شدت سے زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے سوراخ پر آنکھ لگائی، آنٹی نے شلوار اتاری ہوئی تھی اور واش بیسن کے سامنے انہوں نے قمیض پیٹ تک فولڈ کی ہوئی تھی۔ ان کے کولہے بہت سفید اور گول تھے۔ انہوں نے برش کر کے اپنا منہ واش روم کے دروازے کی طرف کیا تو ان کا پیٹ نظر آیا جو کہ نہایت خوبصورت تھا، سادہ اور گورا۔ ان کی ناف گول اور گہری تھی اور ان کا پیٹ ناف والی جگہ سے اندر کو گیا ہوا تھا، شاید شلوار کے ایلاسٹک کی وجہ سے۔ ان کی پھدی پر کالے گھنے بال تھے اور اس کے دونوں ہونٹ آپس میں جڑے ہوئے تھے درمیان سے۔ پھر انہوں نے اپنی شرٹ اتار دی، انہوں نے کالی برا پہنی ہوئی تھی۔ آنٹی اپنی چوٹی کھولنے لگیں اور اپنے کالے گیسو کھول دیے۔ ایسا لگا جیسے چاند کے آگے کالے بادل آ گئے ہوں۔ پھر انہوں نے اپنی برا کا ہک کھولا اور اسے اتار دیا۔ ایسا لگا جیسے 1000 واٹ کے بلب واش روم میں جل اٹھے ہوں۔ ان کی چھاتیاں بہت گوری تھیں، کالے نپل اور سفید چھاتیاں۔ نپل صرف کالے تھے، چھاتیوں پر کوئی کالا دائرہ نہیں تھا، وہ بالکل گوری تھیں۔ بہت حسین منظر تھا۔ انہوں نے شاور چلا لیا اور نہانے لگیں۔ میں بھی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر تھک گیا تھا اور میرے پاؤں سردی کی شدت سے اکڑ رہے تھے۔ میں نے اٹھ جانا ہی مناسب سمجھا کیونکہ مزید رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ جیسے چپ چاپ آیا تھا، ویسے ہی چپ چاپ اپنے بستر میں جا کر لیٹ گیا۔ سردی اور جذبات کی شدت کی وجہ سے رجائی میں بھی میرا جسم کانپ رہا تھا۔ میرے جسم کو نارمل ہونے میں تقریباً 10 منٹ لگے، پر میرے جذبات تو کسی بھی طرح نارمل نہیں ہو رہے تھے۔ وہ حسین مناظر میری آنکھوں کے آگے گھوم رہے تھے۔
کچھ دیر بعد آنٹی نہا کر کمرے میں آ گئیں۔ میں نے یہی دکھاوا کیا کہ میں بھی سو چکا ہوں، پر میرا انگ انگ جاگ اٹھا تھا۔ میں اپنے لن کو رجائی کے اندر ہاتھ سے مسل رہا تھا۔ آنٹی بیڈ پر جا کر بیٹھ گئیں اور پھر آہستہ آواز میں بولیں کہ یہ بچیاں کتنا بے ڈھنگ سوئی ہوئی ہیں، میرے لیے تو بیڈ پر جگہ ہی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ آنٹی میری چھوٹی بہن کو اٹھا کر ایڈجسٹ کریں گی اور بیڈ پر اپنی جگہ بنائیں گی۔ پر تھوڑی دیر بعد میرے سائیڈ پر ایک تکیہ گرا اور پھر آن کی آن میں آنٹی رانی میری رجائی میں گھس کر میرے ساتھ لیٹ گئیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ ہو گیا تھا جس کا کبھی میں نے سوچا بھی نہ تھا۔ جسے چپ کر دل میں ڈر لیے واش روم میں نہاتے دیکھا تھا، وہ اب میرے برابر لیٹی ہوئی تھیں۔ اسے اب میں کیا کہتا، مجھے پتا نہیں تھا۔
تھوڑی دیر بعد آنٹی پرسکون اور گہری نیند کی آغوش میں کھوئی ہوئی لگنے لگیں۔ میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کروں، ورنہ بہت جوتے کھانے پڑیں گے، ابو، امی، آنٹی اور پتا نہیں کس کس سے، پر میرا دل کہہ رہا تھا کہ اگر قدرت نے اتنا بڑا موقع دیا ہے تو اسے کھونا نہیں چاہیے۔ دل اور دماغ کی بازی میں اکثر دل ہی جیتتا ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے آنٹی رانی کا ننگا جسم، خاص طور پر ان کا خوبصورت پیٹ گھوم رہا تھا جو میرے دماغ کو مفلوج کر رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہی کچھ کرنے کا وقت ہے اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اپنا ہاتھ ان کے پیٹ کی طرف بڑھایا۔ میرے دل کی دھڑکنیں بہت تیز ہو گئیں اور کان دھڑکنوں کی آواز سے گونج رہے تھے۔ میں ڈرتے ہوئے اپنا ہاتھ ان کے پیٹ پر رکھ دیا، اتنا نرم اور گداز احساس مجھے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس پر آنٹی کی دھیمی چلتی سانسوں سے پیٹ کا ہلنا میرے دل کو اور بھی گدگدا رہا تھا۔ آنٹی کا کسی قسم کا رسپانس نہ دینا میری حرکت کو تقویت دے رہا تھا۔ اب میرا دل چاہا کہ بغیر کسی پردے کے پیٹ کا لمس محسوس کروں۔ میں نے ہاتھ وہیں پر رکھے رکھا اور آنٹی کی قمیض انگوٹھے سے پیٹ کی طرف کھینچنے لگا۔ آنٹی نے گھٹنے فولڈ کر کے ٹانگیں کھڑی کی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے قمیض آسانی سے پیٹ تک آ گئی۔ میرے ہاتھ جیسے ہی آنٹی کے پیٹ کو ٹچ ہوا، وہ کتنا نرم اور گرم تھا، میں بتا نہیں سکتا تھا۔ آنٹی کی شلوار ناف سے اوپر تک آئی ہوئی تھی، میں نے جیسے ہی شلوار تھوڑی سی نیچے کھینچی اور آنٹی کی ناف کو ٹچ کیا، آنٹی کو تو ایک دم کرنٹ سا لگ گیا۔ انہوں نے میرا ہاتھ پھرتی سے ہٹایا اور دوسری طرف کروٹ لے لی۔ میرا ڈر کے مارے برا حال تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب تھپڑ آیا، لیکن خیرات گزری۔ لگتا تھا آنٹی نے میری اس حرکت کو معاف کر دیا تھا۔ میں نے سوچا کہ اب انسانیت اسی میں ہے کہ اب مزید کوئی پیش قدمی نہ کی جائے۔ پر جیسے ہی آنٹی کروٹ بدل کر سیدھی ہوئیں، میرے اندر کا شیطان پھر جاگ اٹھا۔ اب کی دفعہ وہ بالکل سیدھی لیٹی ہوئی تھیں اور ان کی ٹانگیں بھی بالکل سیدھی تھیں۔ میں پھر ڈرتے دل سے ہاتھ ان کے پیٹ پر رکھ دیا اور میں ری ایکشن کا ویٹ کرنے لگا۔ پر کوئی رسپانس نہیں آیا۔ میں نے پھر قمیض ان کے گھٹنوں سے اوپر کھینچنی شروع کر دی، جب قمیض پیٹ تک آئی تو مجھے جان کر مایوسی ہوئی کہ آنٹی نے شلوار پھر ناف سے اوپر کر لی تھی۔ میں نے آرام سے ایلاسٹک پھر نیچے کھینچا اور ہاتھ ڈائریکٹ آنٹی کی خوبصورت ناف والی جگہ پر ڈائریکٹ رکھ دیا۔ پھر وہی کرنٹ آنٹی کے جسم میں دوڑ گیا، پر اس دفعہ ردعمل اتنا شدید نہیں تھا۔ آنٹی نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا، میں نے بدستور سونے کی ایکٹنگ جاری رکھی۔ انہوں نے آرام سے میرا ہاتھ پیٹ سے اٹھایا، قمیض درست کر کے گھٹنوں تک لائیں، پھر میرا ہاتھ پیٹ پر رکھ دیا۔ میں اپنے جذبات کی فراوانی بیان نہیں کر سکتا جو اس وقت میرے پر طاری تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ چاہے قمیض کے اوپر سے سہی، پر آنٹی رانی نے اپنے پیٹ پر مجھے ہاتھ رکھنے کی اجازت دے کر مجھ پر بہت بڑا احسان کیا تھا جسے شاید میں ساری عمر نہ چکا پاؤں۔ اور ایک اور بات، اس دفعہ انہوں نے میری ناف سے نیچی کی ہوئی شلوار دوبارہ اوپر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی دوران آنٹی نے میری طرف سائیڈ لے لی، اب میرے دل میں شدید خواہش تھی کہ میں آنٹی کے پیٹ پر بوسہ کروں۔ میں نے قمیض کو پھر آہستہ آہستہ پیٹ کی طرف لانا شروع کیا اور جب قمیض پیٹ تک آ گئی تو میں رجائی میں نیچے ہونے لگا۔ آنٹی کے پیٹ کے برابر آ کر میں نے اپنا منہ پیٹ کی طرف بڑھانا شروع کیا۔ آنٹی کی اکٹھی ہوئی قمیض میرے منہ سے ٹچ کی اور جب میں نے مزید منہ آگے کیا تو میرے ہونٹ ان کے نرم اور گرم پیٹ سے ناف والی جگہ پر جا ٹکرائے۔ میرے ہونٹوں کے لمس نے رجائی میں طوفان برپا کر دیا۔ میں اپنی جگہ پر ڈر کر سمٹ گیا۔
تھوڑی دیر بعد رجائی کا ماحول پرسکون ہو گیا، جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ میں نے سوچا کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود آنٹی نے مجھے وہ سخت ری ایکشن نہیں دکھایا جس کی مجھے امید تھی۔ پیٹ پر بوسہ کرنے کا خیال پھر دل میں زور پکڑنے لگا۔ میں نے ہاتھ پھر سے پیٹ کی طرف بڑھایا تو یہ جان کر خوشی کی انتہا نہ رہی کہ آنٹی کا سارا پیٹ ننگا تھا، بلکہ انہوں نے شلوار سارے پیٹ سے نیچے کر لی تھی اور قمیض کمر کے نیچے سے نکل کر سینے تک اونچی کر لی تھی۔ میں آہستہ آہستہ آنٹی کے نرم اور بہت گرم پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا اور خود کو اندر ہی اندر داد دینے لگا کہ میری متعدد کوششوں نے آنٹی کے جذبات کی برف کو پگھلا دیا۔ میں اٹھا اور اپنا سر آنٹی کے پیٹ پر لے گیا اور زبان آنٹی کی ناف کے گرد پھیرنے لگا۔ زبان پھیرتے پھیرتے آنٹی کی ناف کے اندر ڈال دی اور اسے چاٹنے لگا۔ آنٹی کا منہ رجائی سے باہر تھا اور رجائی سینے سے اٹھی ہوئی تھی۔ میری آنکھیں اب اندھیرے میں اب پوری طرح دیکھنے کے قابل ہو چکی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ آنٹی نے اپنی دونوں بازو سر سے اوپر کیے ہوئے ہیں اور میری ناف چاٹنے کی وجہ سے گردن دائیں بائیں گھما رہی ہیں۔ میں ناف چاٹتے ہوئے کبھی آنٹی کی دونوں سائیڈ کی پسلیوں کو چومتا اور کبھی ہلکا سا کاٹ بھی لیتا، جس وجہ سے آنٹی کی ہلکی سی سسکی بلند ہوتی، سسسس۔ پھر میں نے آنٹی کی قمیض سینے سے تھوڑی اوپر کی اور آنٹی کی سفید برا میرے سامنے تھی جو انہوں نے نہانے کے بعد کالی کے بعد بدلی تھی۔ میں نے برا آرام سے اسے اوپر کیا اور گورا بایاں چھاتی باہر نکال لیا۔ میں نے اسے ہاتھ میں پکڑ کر کالے نپل کے گرد زبان پھری اور پھر دودھ پینے والے بچے کی طرح اسے چوسنے لگا۔ آنٹی نے قمیض سینے سے ساری اوپر کر کے دوسری طرف کا چھاتی بھی باہر نکال دیا۔ آنٹی نے اب میری طرف سائیڈ لے لی تھی۔ اب میں ان کے ساتھ لیٹا کسی نیند میں سوئے ہوئے بچے کی طرح فیڈ لے رہا تھا۔ میں نے اپنا ٹراؤزر گھٹنے فولڈ کر کے چھاتی چوسنے کے ساتھ ساتھ اتار دیا اور نیچے سے مکمل ننگا ہو گیا کیونکہ میں نے انڈرویئر نہیں پہنا تھا۔ آنٹی کبھی میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتیں اور کبھی مجھے اپنے سینے کے ساتھ پریس کرتیں۔ میں گردن اوپر کر کے ان کا دایاں چھاتی بھی چوس رہا تھا۔ پھر چھاتی چوستے ہوئے میں نے آنٹی کو سیدھا کیا اور ان کے پیٹ پر دوبارہ بوسہ کرنے لگا۔ میں نے ہمت کر کے ان کی پھدی پر ہاتھ رکھ دیا۔ ان کی شلوار گیلی ہو چکی تھی اور ان کی پھدی کے بالوں کا احساس شلوار کے اوپر سے بھی ہو رہا تھا۔ میں نے شلوار کا ایلاسٹک تھوڑا اوپر کیا اور ہاتھ اندر ڈال دیا۔ پھدی کو ٹچ کرتے ہی آنٹی نے میرا ہاتھ شلوار میں اپنا ہاتھ ڈال کر پکڑ لیا، پر باہر نہیں نکالا۔ میں نے ان کی پھدی کو آہستہ رب کرنا شروع کیا جس سے وہ اور گیلی ہو گئیں اور انہوں نے آہستہ سے اپنا ہاتھ شلوار سے باہر نکال لیا۔ پھر میں نے اپنی درمیانی انگلی آنٹی کی پھدی میں ڈالی تو آنٹی کو ایک زور کا جھٹکا لگا اور انہوں نے آہستہ سے کہا، "ہائے امی جی، میں مر گئی۔" اور میرا ہاتھ شلوار کے اوپر سے پکڑ لیا، پر پھر خود ہی چھوڑ دیا۔ میں انگلی آہستہ آہستہ اندر باہر کرنے لگا، آنٹی کی پھدی اندر سے بہت گیلی اور گرم تھی۔ میں نے سوچا کہ یہی وقت ہے آنٹی کو نیچے سے ننگا کرنے کا۔ میں نے آنٹی کی شلوار نیچے کو کھینچی، پر وہ نیچے نہ گئی، پر جیسے ہی آنٹی نے اپنے کولہے میری انگلی اپنی پھدی میں مزید داخل کرنے کے لیے اٹھائے، میں نے شلوار ان کے کولہوں کے نیچے سے کھینچ لی۔ اب شلوار ان کے گھٹنوں تک تھی اور پھر جب انہوں نے مزید اوپر حرکت کرنے کے لیے کولہے اٹھائے اور ٹانگیں پھیلائیں، شلوار پاؤں میں آ گئی۔ میں نے شلوار کو آرام سے دونوں پاؤں سے نکالا اور انہیں آزاد کر دیا۔ اب میں آنٹی کی پھیلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان آ گیا۔ اور ان کے سارے پیٹ پر زبان پھیرنے لگا، ان کا جسم مزے سے کانپ رہا تھا۔ پھر میں اوپر آ کر آنٹی رانی کا بایاں چھاتی اپنے منہ لے لیا اور چوسنے لگا۔ اس وقت میری قد تقریباً 5 فٹ 4 انچ تھی اور آنٹی کی 5 فٹ 7 انچ۔ میں منہ سے آنٹی کی چھاتی چوس رہا تھا اور میرا لن ان کی پھدی سے رگڑ کھا رہا تھا۔
آنٹی نے اچانک اپنے دائیں ہاتھ سے میرے لن کو پکڑا اور اس کی ٹوپی اپنی نرم گرم پھدی میں داخل کر دی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی گرم پر نرم بھٹی میں آ گیا ہوں۔ ابھی یہ احساسات ختم نہیں ہوئے تھے کہ آنٹی رانی نے میرے دونوں کولہے زور سے پکڑے اور ان میں اپنے ناخن گاڑ دیے اور انہیں اوپر کھینچا جس سے میرا لن ان کی پھدی اور گہرائی میں چلا گیا۔ پھر انہوں نے خود ہی ایک آواز لگائی، "اوئے امی جیییی، میں مررررررر گئی۔" پر آواز ایسی لگائی کہ میری بہنوں کے کانوں تک نہ پہنچے۔ پھر انہوں نے اپنی دونوں پھیلی ہوئی ٹانگیں میری ٹانگوں کے اوپر سے گھما کر میری پنڈلیوں میں سے گزار دیں جس کی وجہ سے ان کے کولہے اور اوپر اٹھ گئے اور میرا سارا لن جو اس وقت 5.5 انچ کا تھا، ان کی پھدی میں جڑ تک چلا گیا۔ مجھے اب پتا ہے، پر اس وقت نہیں تھا کہ اسے لاک لگانا کہتے ہیں۔ انہوں نے پھر آواز لگائی، "ہائے میں مر گئی" اور پھر میرے کولہوں کو اوپر نیچے ہلانے لگیں۔ میں بھی اب ہل کر ان کا ساتھ دینے لگا۔ جب میرا لن اندر باہر ہوتا تو ان کی پھدی سے پچ پچ کی آوازیں آتیں، پھدی گیلی ہونے کی وجہ سے، اور ساتھ میں ان کی ہائے ہائے کی آوازیں بھی۔ میرا لن کئی دفعہ پھسل کر باہر نکل جاتا تو وہ فوراً اندر ڈال لیتیں۔ پھر ان کے جوش کی انتہا ہو گئی۔ انہوں نے لاک کھول کر ٹانگیں گھٹنوں تک فولڈ کر لیں اور گھٹنوں پر بوجھ ڈال کر اوپر اٹھ گئیں۔ اپنے بائیں ہاتھ سے میرا چہرہ اپنی بائیں چھاتی پر پریس کیا اور دائیں ہاتھ سے میرا دایاں کولہا زور سے گرپ کر لیا۔ اب میں بے بس پنچھی کی طرح ان کی تجربہ کار گرفت میں تھا اور وہ اپنا کولہا نیچے سے زور زور سے ہلا رہی تھیں۔ ان کے منہ سے بے معنی آوازیں نکل رہی تھیں اور اب خاصی بلند تھیں، انہیں اب کسی کی موجودگی کا کوئی احساس نہیں تھا۔ آہ آہ آہ مر گئی۔ مجھے بھی کوئی ڈر نہیں تھا کیونکہ میری بہنیں خاصی گہری نیند سوتی ہیں۔ آخر انہوں نے اُف آہ آہ آہ کی آوازیں نکالنے کے بعد دو شدید جھٹکے مارے اور میں بھی ان کی پھدی کی گرمی سے چھوٹ گیا۔ اس وقت ابھی نیا نیا بالغ ہوا تھا، اس لیے ایک دو قطرے ہی آتے تھے جو میں نے آنٹی کے سپرم کے سیلاب میں شامل کر دیے۔ وہ بے دم ہو کر بستر پر لیٹ گئیں اور گہری گہری سانسیں لینے لگیں۔ ان کے برسوں کا سیلاب بند توڑ کر میرا لن اور نیچے بستر بھی گیلا کر رہا تھا۔ ہم دونوں اس سردی میں بھی پسینے میں شرابور تھے۔
اچانک جیسے آنٹی رانی کو ہوش آیا، انہوں نے مجھے اپنے اوپر سے سائیڈ پر بستر پر گرا دیا۔ اور اپنے اور میرے درمیان تکیہ کر دیا، اپنا سر کے نیچے سے نکال کر۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں کوئی فلم دیکھ رہا تھا جو اب ختم ہو گئی ہے۔ ان کا عجیب ردعمل میری سمجھ سے باہر تھا۔ پر میں نے کنارہ کشی میں ہی خیرات جانی اور جو کچھ ہو چکا تھا، اس سے زیادہ کیا ہونا تھا۔ صبح مجھے ٹمپریچر ہو گیا، بہنوں کو آنٹی خود رکشہ پر اسکول چھوڑ کر آئیں۔ میں گھر میں تھا۔ آنٹی نے آ کر مجھے ناشتہ دیا اور ناشتے کے ٹیبل پر مجھے خوب ڈرایا دھمکایا۔ میں جو کل رات ان کے ساتھ زبردستی کی تھی، وہ سب کو بتا دیں گی۔ میں بہت گھبرا گیا اور رونے لگا، معافیاں مانگنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس بات کو یہیں بھول جاؤں اور آئندہ اگر میں ان کے یا ان کی بہنوں کے آس پاس بھی بھٹکا تو وہ میرا بہت برا حال کریں گی۔ میں سر ہلا کر رہ گیا۔ آنٹی رانی سب کچھ کر کے بھی گنگا نہا چکی تھیں۔
میں نے ان کی آدھی بات مان لی اور دوبارہ ان کے پاس نہیں پھٹکا کیونکہ وہ بہت زیادہ ڈری ہوئی اور غیر محفوظ عورت تھیں، جنہیں پکڑے جانے کا بہت ڈر تھا۔ کچھ عرصہ بعد ان کی دوبارہ شادی ہوگئی ۔اور ہمارا آمنا سامنا ہی نہ ہونے کے برابر ہوگیا۔ان کی شادی کے بعد میں نے ان سے لیا ہوا سیکس کا تجربہ ان کی تین چھوٹی بہنوں پر آزمایا اور اس اچھے طریقے سے آزمایا کہ آج تک کسی کو دوسری کے واقعے کے بارے میں پتا نہیں۔ آنٹی رانی کی لگائی ہوئی آگ میں ان کی تین اور بہنوں نے خاموشی سے ہاتھ سیکے۔ اور یہ صرف آنٹی رانی کی فیملی کے لیے نہیں، آج تک کسی نے بھی مجھ سے ریلشن رکھا، کبھی کسی کو اس کے اور میرے علاوہ خبر نہیں ہوئی۔(ختم شد)