میں راشد ہوں، جہلم کے قریب کے علاقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس وقت میری عمر تیس سال ہے۔ میں ایک متوسط زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ایک مضبوط اور سڈول جسم کا مالک ہوں اور میرا قد تقریباً چھ فٹ ہے۔ رنگت بھی صاف اور نکھری ہوئی ہے۔ یعنی ایک وجیہہ اور خوبصورت انسان میں جو خوبیاں ہوتی ہیں وہ سب مجھ میں موجود ہیں۔
میں نہ تو کوئی قلم کار ہوں اور نہ ہی کوئی قصہ گو، بس اسی صفحے کو دیکھ کر اپنی زندگی کا سچا واقعہ آپ قارئین سے شیئر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اگر آپ لوگوں کو اچھا لگے تو اس قصے پر اپنا تبصرہ ضرور کریں اور پیج انتظامیہ سے گزارش ہے کہ وہ اسے اپنے پیج کی وال پر پوسٹ کریں۔ تو اب لمبی تمہید کے بجائے بہتر ہے کہ اپنی زندگی کا یہ سچا واقعہ تحریر کروں۔
یہ آج سے کوئی چھ برس پہلے کی بات ہے۔ میری ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ کہ میری بیوی کے خالو کا انتقال ہو گیا۔ تو مجھے اور میری بیوی کو تعزیت کے لیے دوسرے گاؤں جانا پڑا۔ دسمبر کی سخت سردی کے دن تھے۔ اور ان دنوں دھند بھی بہت پڑ رہی تھی۔ شام کا وقت تھا جب ہم وہاں پہنچے۔ تو کفن دفن ہوچکاتھا۔ گھر کے بڑے برآمدے میں لوگ تعزیت کے لیے جمع تھے میں بھی بیٹھ گیا۔ میں بھی ایک طرف چٹائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک چھوٹا سا بچہ آیا اور میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اگر کھانا کھانا ہے تو میرے ساتھ چلیں۔ بھوک زوروں کی لگی ہوئی تھی، میں اٹھ کر اس کے ساتھ ہو لیا۔ پڑوس کے ہی گھر میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد میں واپس آیا تو دیکھا میری بیوی مجھے تلاش کر رہی تھی۔ میں نے جا کر اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ سردی بہت زیادہ ہے اور رات بھی بہت لمبی ہے، آپ میرے ساتھ آئیں میں کہیں آپ کو چارپائی لگا دیتی ہوں، آپ تھوڑا آرام کر لیں۔ میں نے پہلے تو اسے منع کر دیا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں، پھر یہ سوچ کر کہ آخر کب تک جاگ سکوں گا، میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ ہم جس کمرے میں بھی جا رہے تھے سب کے سب سونے والوں سے بھرے ہوئے تھے۔ آخر ہم سب سے آخر والے ایک کمرے میں پہنچے تو دیکھا وہاں بھی ایک چھوٹی سی چارپائی پر تین چار بچے پڑے سو رہے تھے۔ وہاں کسی اور چارپائی کے رکھنے کی گنجائش ہی نہ تھی۔ کیونکہ وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جسے دیہاتوں میں اکثر لوگ سٹور روم یا پھر صندوق وغیرہ رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں بھی صندوق وغیرہ ہی پڑے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں ان بچوں کے ساتھ ہی سمٹ کر سو جاتا ہوں۔ میری بیوی نے کہا آپ ادھر ہی ٹھہریں اگر کہیں اور جگہ نہ ملی تو پھر ادھر ہی سو لینا۔ یہ کہہ کر وہ دوسری جگہ ڈھونڈنے چلی گئی۔ جبکہ میں جوتے وغیرہ اتار کے بچوں کے ساتھ ہی لحاف کے اندر ہو لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں میری بیوی بتانے آئی کہ اور کوئی جگہ نہیں ہے ادھر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور کہا سب کو سلاتی رہے گی، خود کا سونے کا ارادہ نہیں ہے کیا؟ ہاں ہاں، میں بھی دیکھتی ہوں کہاں جگہ ملتی ہے، اس نے بازو چھڑاتے ہوئے کہا۔ تو میں نے اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے ہونٹوں پر بوسہ دے کر کہا جانِ من ادھر ہی سو جانا، دل کشادہ ہونا چاہیے، جگہ بہت ہے۔ اس نے بھی میرے بوسے کا بھرپور انداز سے جواب دیتے ہوئے کہا ہاں آپ فکر نہ کریں ادھر ہی آ جاؤں گی لیکن تھوڑے کام نبٹا لوں۔ ساتھ ہی کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ ہوش کریں، دروازے کے قریب ہی صائمہ بھی کھڑی ہے۔ میں نے دروازے کی طرف دیکھا تو صائمہ دروازے میں ہی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ میں تھوڑا سا شرمندہ ہوا اور لحاف کو فوراً منہ پر ڈال لیا۔ ابھی آپ کو بتاتا چلوں کہ صائمہ کون ہے۔ صائمہ میری بیوی کی دوسری خالہ کی بیٹی ہے، پندرہ سال عمر ہے لیکن جسم کی بناوٹ اور قد کاٹھ سے بیس سال کی لگتی ہے۔ صاف شفاف رنگت، بڑی بڑی آنکھیں، پنکھڑیوں جیسے ہونٹ، بڑی بڑی گول مٹول چھاتیاں، بھرے بھرے کولہے، سچ میں قدرت کا شاہکار، اس کی تمام کزنز میں سب سے زیادہ میری بیوی سے بنتی تھی۔ اور میری بیوی اس کی موسٹ فیورٹ پرسنالٹی ہے۔ اسی لیے اسے جب بھی کہیں بھی موقع ملتا میری بیوی سے ہی چپٹی رہتی تھی۔ اور آج بھی وہ میری بیوی کے ساتھ ساتھ تھی۔
میں نے لحاف اوڑھا تو گرم گرم لحاف نے بہت آرام دیا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے نیند آ گئی۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میری بیوی مجھے دھکا دے کر بستر میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی۔ دھکے کیوں دے رہی ہو؟ آرام سے گھس آؤ۔ میں نے تھوڑا غصہ دکھانے کے انداز میں اسے کہا۔ "تھوڑا سمٹ لیں، میں اکیلی نہیں ہوں، صائمہ بھی میرے ساتھ ہے"، میری بیوی نے گردن سے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "کیا کیا، صائمہ تمہارے ساتھ ہے؟" ابے نہیں بھگاؤ اس چڑیل کو، یہ یہاں نہیں سو سکتی، ویسے بھی یہاں اتنی جگہ کہاں ہے پہلے سے ہی چار بچے پڑے ہوئے ہیں اور اوپر سے ہم دونوں، یہاں کوئی جگہ نہیں ہے اس کے لیے، اس کو کہو کہیں اور جا کر جگہ ڈھونڈے، میں نے سچ میں ناراض ہوتے ہوئے کہا، میری بیوی نے فوراً کہا، "اچھا آپ ناراض نہ ہوں میں اس کا کچھ اور انتظام کرتی ہوں" لیکن وہ چڑیل تو چھلانگ لگا کر چارپائی کے اوپر آ گئی اور بولی "دل کشادہ ہونا چاہیے، جگہ بہت ہے، کچھ دیر پہلے یہی کہا تھا نا آپ نے بھائی جان؟" اور ساتھ ہی اس نے لحاف مجھ سے کھینچ کر اندر گھس آئی۔ میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن میری بیوی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا پلیز کچھ مت کہیے، بس گزارا کرنا ہے، ایک ہی رات کی بات ہے، ویسے بھی ہم کوئی ولیمہ اٹینڈ کرنے نہیں آئے ہوئے، تعزیت کے لیے آئے ہیں۔ کچھ مشکل تو برداشت کرنی ہی ہو گی۔ اب اس وقت تک صائمہ میرے لیے بالکل چھوٹی بہن کی ہی طرح تھی۔ میرے وہم و گمان میں بھی کبھی اس کے بارے میں کوئی برا خیال نہیں آیا تھا، وہ میرے لیے ایک چھوٹی بچی ہی کی طرح سے تھی۔ اسی لیے میں بھی خاموش ہو گیا، پر بیوی سے اتنا کہا کہ ان چھوٹے بچوں کو تو یہاں سے اٹھا کر ان کی ماؤں کے پاس پھینک آؤ۔ بچوں کو ان کی ماؤں کے ساتھ سلانے کے بعد میری بیوی بھی آ کے ادھر ہمارے ساتھ ہی لیٹ گئی۔
رات کافی بیت چکی تھی اور سردی بھی بہت تھی، اسی لیے لحاف میں گھستے ہی سب کو نیند نے لے لیا۔ ہماری پوزیشن کچھ یوں تھی کہ میں دہنی کروٹ پر اپنی بیوی کی طرف منہ کر کے لیٹا ہوا تھا اور میری بیوی کا منہ میری طرف تھا جبکہ صائمہ میری بیوی کے اس طرف پیٹھ کے بل سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب صائمہ میرے اتنے قریب لیٹی ہو بلکہ کئی دفعہ پہلے بھی ایسا ہو چکا تھا کہ وہ اور دوسرے بچوں کے ساتھ میرے پاس لیٹی ہو یا بیٹھی ہو لیکن وہ سب تو زیادہ دیر کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ اور ویسے بھی میرا اس کے بارے میں دماغ کبھی گندا ہوا ہی نہ تھا۔ آج بھی وہ ہمارے ساتھ سونے کے لیے لیٹ گئی تھی۔
ابھی سوئے ہوئے کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہوا ہو گا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے میرا لنڈ پوری طرح اکڑا ہوا لگا، میرا بایاں ہاتھ میری بیوی کی گانڈ پر تھا جبکہ دایاں ہاتھ اس کے سر کے نیچے سے ہوتا ہوا اس کی کمر پر تھا، اس کے ہونٹ میرے ہونٹوں سے تقریباً جڑے ہوئے تھے۔ اسی قرب کی وجہ سے ہی شاید میری سانسیں بھی بہت بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ اگرچہ سونے سے پہلے سیکس کے بارے میں نہ سوچا نہ کچھ خیال کیا تھا۔ لیکن ایسی حالت میں جب آنکھ کھلی تو خود پر قابو بہت مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے تو جیسے بیوی کو اپنی بانہوں میں دبوچ ہی لیا۔ سر کو تھوڑا سا جھکا کر اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے لگا دیے۔ بائیں ہاتھ سے اس کی گانڈ کو بھی سہلانے لگا۔ میرا لنڈ تو جیسے لوہے کا گرم راڈ ہو۔ اکڑ کے پوری طرح کھڑا ہو گیا۔ میں سب کچھ بھول بھال کر بس اس کو ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا۔ جب میرے ہاتھوں کی حرکت بڑھی اور کسنگ بھی پہلے سے زیادہ زور سے کی تو میری بیوی کی بھی آنکھ کھل گئی۔ اس نے میرے ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے مجھ کو خود سے دور ہٹانے کی کوشش کی لیکن کیا کرتی، جگہ ہی زیادہ نہ تھی کہ میں پیچھے ہٹتا۔ اس نے انتہائی سرگوشی میں مجھ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میں جو کچھ کرنا چاہ رہا ہوں اس سے باز رہوں۔ لیکن میں تو جیسے آگ میں جھلس رہا تھا اور اس آگ کو ہر حال میں ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا۔ بیوی کے بار بار منع کرنے کے باوجود میرے ہاتھ رک نہیں رہے تھے۔ میں نے میرا بایاں ہاتھ اپنی بیوی کی شلوار کے اندر ڈال دیا اور اس کی چوڑ اور رانوں پر ہاتھ پھیرنے لگا، ساتھ ہی اپنی زبان سے اس کے ہونٹوں اور گالوں کو دھیرے دھیرے چاٹنے لگا۔ یہی وجہ تھی کہ میری بیوی کا جسم بھی کچھ ڈھیلا پڑنے لگا۔ اگرچہ وہ مجھ کو کوئی رسپانس نہیں کر رہی تھی۔ میں نے ہاتھ اس کی ٹانگوں کے درمیان اوپر تک اٹھایا تو اس کی پھدی سے ہاتھ ٹچ ہوتے ہی مجھ کو لگا کہ پھدی گیلی ہوئی پڑی ہے۔ میں سمجھ گیا کہ آگ اس طرف بھی لگی ہوئی ہے۔ لیکن ضبط اور صبر اتنا کہ وہ اپنے کسی ایکٹ سے یہ نہیں لگنے دے رہی تھی کہ اس کی حالت بھی خراب ہوئی ہے۔ میں نے جب دیکھا کہ اس کی حالت بھی اپنے جیسی کر لی ہے تو میں نے اس کی شلوار کو نیچے کرنے کی کوشش کی تو اس نے فوراً میرے ہاتھ کو پکڑ لیا اور انتہائی منت کرتے ہوئے سرگوشی سے کہا، خدا کے لیے باز آ جائیں، یہ نہ تو جگہ مناسب ہے اور نہ ہی موقع مناسب ہے، کل گھر چل کے جتنا جی میں آئے کر لیجیے گا۔ میں نے نہ پہلے کبھی منع کیا ہے اور نہ کبھی آئندہ منع کروں گی، پر خدا کے لیے آج اس وقت خود کو کنٹرول کر لیں۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو مجھ کو اس کی آنکھوں سے نکلتے آنسو صاف نظر آ رہے تھے۔ مجھ کو ماحول کی نزاکت کا ادراک ہوا یا پھر اس کی معصوم التجاؤں کا اثر یا پھر اس کے خاموشی سے بہتے آنسوؤں کا اثر۔ میں لحاف سے نکل کر جمپ کر کے چارپائی سے اترا اور دروازہ کھول کے کمرے سے باہر نکل گیا۔ میرا خیال تھا کہ میں تھوڑی دیر باہر ٹھنڈی ہوا میں رہوں گا تو شاید اندر لگی آگ کو قابو کر سکوں۔ میں نے سیکس سے خیال ہٹانے کے لیے کچھ آگے پیچھے کی چیزوں کو سوچنا شروع کر دیا۔ میں کافی دیر باہر بس ایک قمیض میں ہی یوں ہی بیٹھا رہا لیکن مجھ کو سردی کا ذرا بھی احساس نہیں ہو رہا تھا۔ آگ تھی کہ بجھنے کو نہیں آ رہی تھی۔
میں یوں ہی سر جھکائے بیٹھا تھا کہ اچانک میرے کندھے پر مجھ کو کسی ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔ میں ویسے ہی سر جھکائے بیٹھا رہا۔ لیکن اچانک جو آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی، اس آواز نے مجھ کو چونکا دیا۔ کیونکہ یہ صائمہ کی آواز تھی جو مجھ سے کہہ رہی تھی میں ایسے سردی میں یہاں کیوں بیٹھا ہوا ہوں۔ میں نے سر گھما کر حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور منہ سے کچھ نہیں بولا وہ میرے سامنے آ کر پھر بولی، "کیا بات ہے بھائی جان آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں؟" نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں، میں نے تھوڑے روکھے انداز سے اس کو جواب دیا۔ کچھ تو ہے بھائی جان جو آپ اس طرح سردی میں یوں بیٹھے ہوئے ہیں، وہ اپنا بازو میری گردن کے گرد ڈال کر میرے قریب بیٹھتے ہوئے بولی۔ اس کا قرب مجھ کو جھلسائے دے رہا تھا۔ کہا نا کچھ بھی نہیں، جاؤ اندر جا کر آرام سے سو جاؤ، یہاں سردی بہت ہے اور تم بیمار پڑ جاؤ گی، میں نے اسی روکھے انداز سے اس کو تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا۔ نہیں لگتی مجھ کو سردی اور نہ میں جاؤں گی جب تک کہ آپ بتاتے نہیں کہ بستر چھوڑ کر آپ یہاں سردی میں کیوں بیٹھے ہیں؟ وہ میرے ساتھ مزید چپکتے ہوئے کسی ڈھٹ بچے کی طرح ضد کرنے کے انداز میں بولی، میں نے بھی اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے مزید غصے سے کہا "کہہ جو دیا کچھ بھی نہیں ہوا مجھ کو، اب جاؤ میرا دماغ خراب نہیں کرو۔" اس کا اتنا قریب ہونا میرے جسم کو مزید جھلسائے دے رہا تھا۔ میرا لنڈ سٹیل راڈ کی طرح سخت تھا۔ اس کا منہ میرے منہ کے انتہائی قریب تھا، اس کی سانسیں میری سانسوں سے ٹکرا رہی تھیں، اس کے پستانوں کا دباؤ مجھ کو اپنی کمر پر محسوس ہو رہا تھا۔ میرا جسم جو پہلے سے دہک رہا تھا اس نے الاؤ کی شکل اختیار کر لی۔ لیکن میں پھر بھی خود کو کنٹرول کیے ہوئے تھا۔ جبکہ صائمہ کسی شیطان کی طرح میرے اعصاب پر حاوی ہو رہی تھی۔ میں صبر کے اس امتحان میں سرخرو رہنا چاہتا تھا لیکن صبر کی اس دیوار کو اس وقت زور کا دھکا لگا جب صائمہ نے میرے غصے کے جواب میں میرے گال کو چومتے ہوئے کہا "بھائی آپ میرے ساتھ غصہ نہ کریں بلکہ آپ اپنی پرابلم بتائیں ہو سکتا ہے میں آپ کی کچھ مدد کر سکوں" اس کے یہ الفاظ اتنے پیار سے کہے گئے تھے کہ میری آنکھ سے آنسو بہہ نکلے، میں منہ سے کچھ بھی نہیں بولا بس گردن جھکائے زمین کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ بتائیں نا بھائی جان آپ اتنے پریشان کیوں ہیں، ایک بار پھر اس نے اسی پیار کے ساتھ میرے چہرے کو اپنے ہاتھ سے اوپر اٹھاتے ہوئے پوچھا اور اسی وقت اسے میرے بہتے ہوئے آنسوؤں کا بھی احساس ہوا "ہمممم تو آپ روتے بھی ہو؟ اتنے بڑے ہو گئے آپ اور حرکتیں بچوں جیسی، لگتا ہے کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہے جو یہ حالت ہو رہی ہے۔" اب یہ ڈرامہ بازی بند کریں اور اچھے بچوں کی طرح سب کچھ صاف صاف بتا دیں ورنہ قسم سے میں بھی آپ سے پھر کبھی کوئی بات نہیں کروں گی اگر آج آپ نے اپنے دل کی بات نہیں بتائی تو۔ وہ مسلسل بولے جا رہی تھی اور میں عجیب کشمکش میں ڈوبا صرف اسے ہی سنے جا رہا تھا۔ یہ سوچ مجھ کو پاگل کیے جا رہی تھی کہ اس بیوقوف لڑکی سے کیسے پیچھا چھڑاؤں۔ اس کو کیسے بتاؤں کہ میری اس حالت کی وجہ کیا ہے اور اس کا علاج کیسے ممکن ہے۔ میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ اس کی آواز ایک بار پھر میری سماعتوں سے ٹکرائی، "اچھا تو پھر آپ نہیں بتائیں گے، آپ کا فیصلہ اٹل ہے نا؟ اچھا ہے، لیکن یہ یاد رکھیے گا کہ میں بھی پھر آپ سے کبھی بھی بات نہیں کروں گی۔" صائمہ یہ کہتے ہوئے اٹھی تو میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کو کلائی سے پکڑ کر پھر اپنے قریب بٹھا لیا۔ وہ بڑے تجسس سے میرے چہرے کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔ "دیکھو یہ بات ایسی ہے کہ میں تم سے نہیں کہہ سکتا۔" آخر میری زبان سے کچھ الفاظ ادا ہو ہی گئے۔ آخر کیوں؟ صائمہ نے میری بات ختم ہونے ہی نہ دی اور کیوں کا سوال پھر بیچ میں لے آئی، "بھائی آپ مجھ کو اپنی دوست سمجھیں یا پھر کسی بھی رشتے کی حیثیت میں اپنے دل کی بات کہہ دیں۔" میں اس کے چہرے پر نظریں جمائے اسے ہی ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہا تھا۔ دماغ میں کھچڑی پک رہی تھی کہ اسے بول دوں یا خاموش رہوں۔
اچانک میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھ دیا۔ میرے اس غیر فطری اور غیر ارادی عمل پر اس کو ایک شدید جھٹکا لگا۔ ایک زور دار جھٹکے سے اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور اس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا "... بھائی جان "...... میں نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے اس کو کہا، "تم بضد تھیں نا کہ میں اپنی پرابلم تم سے شیئر کروں، یہی ہے میری پرابلم" صائمہ بت بنی کھڑی تھی، شاید اس کو میری اس حرکت کی مجھ سے بالکل بھی توقع نہیں تھی، میں خود حیران تھا کہ میں نے ایسا کیسے کر دیا۔ "صائمہ میں اسی لیے تم کو نہیں بتا رہا تھا۔" جانتا تھا کہ یہ بات تم سے کہنے والی نہیں لیکن کیا کرتا، تمہارا اصرار اور ضد اتنی بڑھ گئی تھی۔" میں نے اپنا بازو اس کی کمر کے گرد ڈال کر اپنے قریب کرتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی تک ساکت تھی، میرا دایاں ہاتھ اب اس کی کمر پر تھا جبکہ بائیں ہاتھ سے میں اس کا ایک ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ صائمہ اب کچھ نہیں بول رہی تھی جبکہ میری زبان اب چل پڑی تھی۔ میں اسے اپنی اس حالت کی وجہ بتا رہا تھا اور ساتھ ہی ایک ہاتھ اس کی کمر پر پھیرے جا رہا تھا، جبکہ دوسرے ہاتھ سے میں بدستور اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ ایسے میں میں نے دوبارہ اس کا ہاتھ اپنے لنڈ پر رکھتے ہوئے کہا، "صائمہ میں تو اپنی ہی آگ میں جل رہا ہوں، اور یہ آگ مجھ کو جھلسائے جا رہی ہے، اور ممکن ہے کہ میں اسی آگ سے جل کر مر جاؤں" صائمہ سکتے کی سی حالت میں تھی جبکہ میں اب اپنے من کی پیاس بجھانے کا ارادہ کر چکا تھا۔ صائمہ نے دوبارہ ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی لیکن اس بار میں اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا۔ اس نے مٹھی بند کر لی لیکن میں اس کی بند مٹھی کو ہی اپنے لنڈ پر رگڑنے لگا۔ اس سے میں اسے اپنے لنڈ کی سختی اور گرمی کا احساس دلا رہا تھا۔ ساتھ ہی میں نے دوسرے ہاتھ سے اسے کمر سے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ وہ تھوڑا کسمسائی لیکن میں نے اسے دونوں بازؤں میں بھینچ لیا۔ صائمہ اب مکمل میرے بازؤں کے حصار میں تھی، میں نے خود کھڑے ہوتے ہوئے اسے بھی اوپر اٹھایا۔ میں اسے اس پوزیشن میں لے آیا کہ اس کا سینہ میرے سینے سے چپک گیا جبکہ میں دونوں ہاتھوں سے اس کی کمر اور گانڈ کو سہلا رہا تھا اور اب میرا لنڈ اس کی رانوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا۔ "بھائی جان پلیز مت کریں ایسا، مجھ کو جانے دیں" آخر خوفزدہ صائمہ کی ڈری ہوئی آواز نکل ہی گئی۔ دیکھو صائمہ تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ کسی بھی رشتے کی حیثیت سے اپنے دل کی بات کہہ دوں، تم ہی تو مجھ کو مجبور کر رہی تھی۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنے ہونٹ صائمہ کے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔ میری حالت اب شاید کسی بھوکے درندے کی سی تھی۔ میں بے تحاشہ صائمہ کو چومنے اور چاٹنے لگا، ساتھ ہی میرے ہاتھ بھی اس کے جسم پر ہر جگہ گھوم رہے تھے۔ صائمہ کی منمناہٹ مجھ کو سنائی دے رہی تھی لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔ اس کے بہتے آنسو میں دیکھ رہا تھا لیکن اس وقت ان بہتے آنسوؤں کی میری نظر میں کچھ اوقات نہیں تھی۔ وہ شاید اپنے ہاتھوں سے مجھ کو روکنے کی بھی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ اتنی زورآور نہیں تھی کہ مجھ کو روک پاتی۔ پھر تھوڑی دیر میں اس کی مزاحمت دم توڑ گئی۔ مجھ کو لگا کہ اس کے ہونٹ اب میرے ہونٹوں کے تعاقب میں ہیں۔ اس کی ٹانگیں جو اس نے قینچی کی طرح بند کی ہوئی تھیں وہ بھی کھل گئیں جیسے وہ اب چاہ رہی ہو کہ میرا لنڈ جو اب تک اس کی رانوں سے ہی ٹکرا رہا تھا اندر اس کی پھدی تک پہنچے۔ اس کے ہاتھ جو مجھ کو پیچھے ہٹانا چاہ رہے تھے اب میری کمر کا مساج کر رہے تھے۔ صائمہ لاشعوری طور پر اس عمل کا حصہ بن چکی تھی اور وہ اب اس سے مزہ لے رہی تھی۔ وہ میرے ہر عمل کا بھرپور جواب دینے لگی۔ صائمہ پوری طرح سے گرم ہو چکی تھی جس سے میرا لطف اور جنون بھی دوگنا ہو گیا۔ ہم کوئی بات نہیں کر رہے تھے، بس زبانیں لڑائے جا رہے تھے اور اپنے ہاتھوں سے ایک دوسرے کے جسموں کی پیمائش کر رہے تھے۔ صائمہ کا جسم اتنا نرم اور ملائم تھا کہ میرا جی چاہ رہا تھا کہ اس کے جسم پر اپنے دانت گاڑ دوں۔ میرے ہاتھ جب بھی اس کی گانڈ پر پہنچتے مجھ کو میری سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی۔ میں نے چومنے کا عمل صائمہ کے ہونٹوں سے ہوتے ہوئے اس کے کان، گردن اور پستانوں تک بڑھا دیا۔ ساتھ ہی اپنے ہاتھوں سے اس کی شلوار کو نیچے کر دیا۔ میرا ایک ہاتھ صائمہ کی گانڈ پر جبکہ دوسرا ہاتھ اس کی پھدی کو سہلا رہا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی پھدی کو سہلانا اتنا اچھا لگا کہ میں خود کو ہوا میں اڑتا محسوس کرنے لگا۔ جس طرح سے صائمہ مستی میں بے خود ہو چکی تھی اور جس طرح سے وہ میرا ساتھ دے رہی تھی اس سے میں بخوبی اندازہ کر سکتا تھا کہ وہ بھی اتنا ہی مزہ لے رہی ہے جتنا کہ میں۔ اب میں زیادہ وقت گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے ادھر کھڑے کھڑے ہی اس کی ٹانگوں کو ایک خاص حد تک کھولا اور اپنی شلوار اتار کے لنڈ کا سر صائمہ کی پھدی کے اوپر رگڑنے لگا، پھدی پہلے سے ہی پانی چھوڑے ہوئے تھی، جس سے لنڈ کا پورا سر چکنا ہو کے دائیں بائیں پھسلنے لگا، میں نے کوشش کی کہ لنڈ پھدی کے اندر چلا جائے لیکن کامیابی نہیں ہوئی اور مجھ کو لگا کہ اس پوزیشن میں صائمہ بھی آسانی محسوس نہیں کر رہی تو میں نے اس کو گھٹنوں کے بل ہونے کا کہا، اس نے کسی لونڈی کی طرح میرے حکم کی تعمیل کی، میں نے اس کی گانڈ کو دونوں ہاتھوں سے اس حد تک اوپر اٹھایا کہ اس کی پھدی بالکل میرے سامنے تھی۔ میں لنڈ کو ایک مرتبہ پھر پھدی پر رکھ کر دباؤ ڈالنے لگا، لنڈ کا سر جیسے ہی صائمہ کے پھدی کے اندر ہوا صائمہ کی چیخ نکل گئی، شکر ہے کہ چیخ زیادہ زور سے نہیں تھی۔ میں نے خود کو چند لمحوں کے لیے روک لیا، پھر جیسے ہی میں نے صائمہ کو ایزی ہوتے دیکھا، میں نے لنڈ کو پھدی پر رکھ کے پہلے سے ذرا زیادہ زور کا جھٹکا دیا جس سے لنڈ کا پورا سر پھدی کے اندر چلا گیا، اگرچہ صائمہ نے دانتوں کو سختی سے بھینچ رکھا تھا لیکن پھر بھی اس کی ایک اور چیخ نکل گئی، بھائی بہت درد ہو رہی ہے، پلیز مجھ کو معاف کر دو! مجھ سے نہیں ہو گا یہ، پلیز مجھ کو جانے دو! آآآآآآہووومممم میں مر گئی، صائمہ روتے ہوئے منتیں کرنے لگی لیکن میں نے اپنا کام جاری رکھا، میں اس کی ہر منت سماجت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے لنڈ کو چھوٹے چھوٹے دھکے دیتے ہوئے اس کی پھدی کے اندر مسلسل گھسیڑے جا رہا تھا۔ اس کی تکلیف کا بہر حال مجھ کو بھی اندازہ تھا، اسی لیے میں رک رک کر دھکے دے رہا تھا۔ صائمہ سسک رہی تھی اور اس کی التجائیں بھی مسلسل جاری تھیں۔ اس کی گانڈ پوری طرح اوپر کو اٹھی ہوئی تھی جبکہ اس کا سر نیچے زمین کی جانب جھکا ہوا تھا، میں نے اس کے بازوؤں کو پیچھے کمر کی جانب موڑ کے پکڑا ہوا تھا، جبکہ کہ میں خود اس کی گانڈ کے متوازی کھڑا اس کو پیچھے سے دھکے دیے جا رہا تھا۔ صائمہ نیچے کراہ رہی تھی، میرے ہر دھکے پر اس کی سسکی نکل جاتی۔ میں بھی عجیب جنونی حالت میں تھا، مجھ کو اس کا اس طرح سسکنا اچھا لگ رہا تھا۔ میں ہر دھکا پہلے دھکے سے ذرا زیادہ زور سے لگانے لگا۔ جس سے صائمہ باقاعدہ رونے لگی لیکن میں بنا کوئی پرواہ کیے دھکے پہ دھکے لگائے جا رہا تھا۔ مجھ کو بہت مزہ آ رہا تھا، میرا لنڈ پوری طرح صائمہ کی ٹائٹ پھدی میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کی پھدی جیسے کوئی آگ کا الاؤ تھی۔ اور میں اپنے لنڈ کو اس الاؤ میں جلا دینا چاہتا تھا۔ میں نے دھکوں کی رفتار تیز کی تو صائمہ کی سسکیاں بھی تیز اور بلند ہو گئیں۔ میرا جوش دیدنی تھا۔ میں جیسے لنڈ کے ساتھ خود بھی اس کی پھدی کی تنگ گلی میں گھس جانا چاہتا تھا۔ وہ بھی اب کراہنے اور سسکنے کی بجائے آآآآآآہ ہمممم ہآآآآآآآآ کی آوازیں نکال رہی تھی، ہم دونوں اب ان لمحات سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے تھے۔ مجھ کو لگا کہ میں چھوٹنے والا ہوں تو میں تھوڑی دیر کے لیے رک گیا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کو پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا اور تھوڑی دیر کے لیے اس کے رسیلے ہونٹوں کا رس چوسنے لگا۔ میرے ہاتھ صائمہ کے پستانوں کی گولائیاں ماپ رہے تھے۔ صائمہ بھی اس سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہی تھی۔ میں نے صائمہ کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا "اب زیادہ درد تو نہیں ہو رہی نا؟" وہ میرے ساتھ چپک کر بولی "ہو تو رہی ہے لیکن مزہ بہت آ رہا ہے" اس نے اب میری گردن کو دونوں بازؤں میں دبوچ لیا تھا۔ میں نے بھی وہیں سے اس کی دونوں ٹانگیں اٹھا کر اپنے کولہوں پر رکھیں اور دونوں بازو اس کی کمر کے پیچھے لے جا کر اس کی کمر کو گھیرے میں لیا، پھر لنڈ کو اس کی پھدی سے رگڑتے ہوئے اندر کی طرف دھکا لگا دیا۔ ہمارے ہونٹ ملے ہوئے تھے جبکہ میں اپنے بازؤں کے حصار میں اسے اٹھائے کھڑا تھا اور اس کی دونوں ٹانگیں میری کمر کے گرد قینچی بنائے ہوئے تھیں۔ ایسی پوزیشن میں اس کی پھدی پوری طرح سے کھلی ہوئی تھی اور میرا لنڈ اس کے آخری کونے تک جا رہا تھا۔ صائمہ کے منہ سے نکلنے والی منفرد عجیب سی آوازیں میرے کان سے ٹکرا رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد صائمہ کے جسم میں مجھ کو اک تناؤ سا لگا اور چند ہی لمحوں میں مجھ کو اس کا جسم ڈھیلا پڑتا محسوس ہوا۔ مجھ کو اس کیفیت کی خبر تھی۔ صائمہ چھوٹ گئی تھی۔ اس کی پھدی سے نکلنے والا پانی میری ٹانگوں پر نیچے تک بہہ گیا۔ میں بھی اب تن سا گیا تھا۔ میں نے زوردار جھٹکوں کی رفتار تیز کر دی اور پھر جیسے ہی میں چھوٹنے کے قریب پہنچا میں نے لنڈ کو پھدی سے باہر نکال کر صائمہ کے پیٹ کے اوپر رکھ کر زور سے پچھکاری ماری تو میرے لنڈ سے نکلنے والا لاوا صائمہ کے پورے پیٹ پر پھیل گیا۔ کچھ دیر کے لیے ہم یوں ہی ایک دوسرے سے چپکے ساکت کھڑے رہے۔ جب سانسیں بحال ہوئیں تو میں نے صائمہ کی پھدی اور پیٹ کو اسی کی چادر سے صاف کیا، لنڈ کو صاف کرنے کے بعد میں نے صائمہ کے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ایک بھرپور کس اس کے ہونٹوں پر کی، اور پھر ہم دونوں اٹھ کر اندر سونے چلے گئے۔(ختم شد)
میں نہ تو کوئی قلم کار ہوں اور نہ ہی کوئی قصہ گو، بس اسی صفحے کو دیکھ کر اپنی زندگی کا سچا واقعہ آپ قارئین سے شیئر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اگر آپ لوگوں کو اچھا لگے تو اس قصے پر اپنا تبصرہ ضرور کریں اور پیج انتظامیہ سے گزارش ہے کہ وہ اسے اپنے پیج کی وال پر پوسٹ کریں۔ تو اب لمبی تمہید کے بجائے بہتر ہے کہ اپنی زندگی کا یہ سچا واقعہ تحریر کروں۔
یہ آج سے کوئی چھ برس پہلے کی بات ہے۔ میری ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ کہ میری بیوی کے خالو کا انتقال ہو گیا۔ تو مجھے اور میری بیوی کو تعزیت کے لیے دوسرے گاؤں جانا پڑا۔ دسمبر کی سخت سردی کے دن تھے۔ اور ان دنوں دھند بھی بہت پڑ رہی تھی۔ شام کا وقت تھا جب ہم وہاں پہنچے۔ تو کفن دفن ہوچکاتھا۔ گھر کے بڑے برآمدے میں لوگ تعزیت کے لیے جمع تھے میں بھی بیٹھ گیا۔ میں بھی ایک طرف چٹائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک چھوٹا سا بچہ آیا اور میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اگر کھانا کھانا ہے تو میرے ساتھ چلیں۔ بھوک زوروں کی لگی ہوئی تھی، میں اٹھ کر اس کے ساتھ ہو لیا۔ پڑوس کے ہی گھر میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد میں واپس آیا تو دیکھا میری بیوی مجھے تلاش کر رہی تھی۔ میں نے جا کر اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ سردی بہت زیادہ ہے اور رات بھی بہت لمبی ہے، آپ میرے ساتھ آئیں میں کہیں آپ کو چارپائی لگا دیتی ہوں، آپ تھوڑا آرام کر لیں۔ میں نے پہلے تو اسے منع کر دیا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں، پھر یہ سوچ کر کہ آخر کب تک جاگ سکوں گا، میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ ہم جس کمرے میں بھی جا رہے تھے سب کے سب سونے والوں سے بھرے ہوئے تھے۔ آخر ہم سب سے آخر والے ایک کمرے میں پہنچے تو دیکھا وہاں بھی ایک چھوٹی سی چارپائی پر تین چار بچے پڑے سو رہے تھے۔ وہاں کسی اور چارپائی کے رکھنے کی گنجائش ہی نہ تھی۔ کیونکہ وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جسے دیہاتوں میں اکثر لوگ سٹور روم یا پھر صندوق وغیرہ رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں بھی صندوق وغیرہ ہی پڑے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں ان بچوں کے ساتھ ہی سمٹ کر سو جاتا ہوں۔ میری بیوی نے کہا آپ ادھر ہی ٹھہریں اگر کہیں اور جگہ نہ ملی تو پھر ادھر ہی سو لینا۔ یہ کہہ کر وہ دوسری جگہ ڈھونڈنے چلی گئی۔ جبکہ میں جوتے وغیرہ اتار کے بچوں کے ساتھ ہی لحاف کے اندر ہو لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں میری بیوی بتانے آئی کہ اور کوئی جگہ نہیں ہے ادھر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور کہا سب کو سلاتی رہے گی، خود کا سونے کا ارادہ نہیں ہے کیا؟ ہاں ہاں، میں بھی دیکھتی ہوں کہاں جگہ ملتی ہے، اس نے بازو چھڑاتے ہوئے کہا۔ تو میں نے اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے ہونٹوں پر بوسہ دے کر کہا جانِ من ادھر ہی سو جانا، دل کشادہ ہونا چاہیے، جگہ بہت ہے۔ اس نے بھی میرے بوسے کا بھرپور انداز سے جواب دیتے ہوئے کہا ہاں آپ فکر نہ کریں ادھر ہی آ جاؤں گی لیکن تھوڑے کام نبٹا لوں۔ ساتھ ہی کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ ہوش کریں، دروازے کے قریب ہی صائمہ بھی کھڑی ہے۔ میں نے دروازے کی طرف دیکھا تو صائمہ دروازے میں ہی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ میں تھوڑا سا شرمندہ ہوا اور لحاف کو فوراً منہ پر ڈال لیا۔ ابھی آپ کو بتاتا چلوں کہ صائمہ کون ہے۔ صائمہ میری بیوی کی دوسری خالہ کی بیٹی ہے، پندرہ سال عمر ہے لیکن جسم کی بناوٹ اور قد کاٹھ سے بیس سال کی لگتی ہے۔ صاف شفاف رنگت، بڑی بڑی آنکھیں، پنکھڑیوں جیسے ہونٹ، بڑی بڑی گول مٹول چھاتیاں، بھرے بھرے کولہے، سچ میں قدرت کا شاہکار، اس کی تمام کزنز میں سب سے زیادہ میری بیوی سے بنتی تھی۔ اور میری بیوی اس کی موسٹ فیورٹ پرسنالٹی ہے۔ اسی لیے اسے جب بھی کہیں بھی موقع ملتا میری بیوی سے ہی چپٹی رہتی تھی۔ اور آج بھی وہ میری بیوی کے ساتھ ساتھ تھی۔
میں نے لحاف اوڑھا تو گرم گرم لحاف نے بہت آرام دیا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے نیند آ گئی۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میری بیوی مجھے دھکا دے کر بستر میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی۔ دھکے کیوں دے رہی ہو؟ آرام سے گھس آؤ۔ میں نے تھوڑا غصہ دکھانے کے انداز میں اسے کہا۔ "تھوڑا سمٹ لیں، میں اکیلی نہیں ہوں، صائمہ بھی میرے ساتھ ہے"، میری بیوی نے گردن سے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "کیا کیا، صائمہ تمہارے ساتھ ہے؟" ابے نہیں بھگاؤ اس چڑیل کو، یہ یہاں نہیں سو سکتی، ویسے بھی یہاں اتنی جگہ کہاں ہے پہلے سے ہی چار بچے پڑے ہوئے ہیں اور اوپر سے ہم دونوں، یہاں کوئی جگہ نہیں ہے اس کے لیے، اس کو کہو کہیں اور جا کر جگہ ڈھونڈے، میں نے سچ میں ناراض ہوتے ہوئے کہا، میری بیوی نے فوراً کہا، "اچھا آپ ناراض نہ ہوں میں اس کا کچھ اور انتظام کرتی ہوں" لیکن وہ چڑیل تو چھلانگ لگا کر چارپائی کے اوپر آ گئی اور بولی "دل کشادہ ہونا چاہیے، جگہ بہت ہے، کچھ دیر پہلے یہی کہا تھا نا آپ نے بھائی جان؟" اور ساتھ ہی اس نے لحاف مجھ سے کھینچ کر اندر گھس آئی۔ میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن میری بیوی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا پلیز کچھ مت کہیے، بس گزارا کرنا ہے، ایک ہی رات کی بات ہے، ویسے بھی ہم کوئی ولیمہ اٹینڈ کرنے نہیں آئے ہوئے، تعزیت کے لیے آئے ہیں۔ کچھ مشکل تو برداشت کرنی ہی ہو گی۔ اب اس وقت تک صائمہ میرے لیے بالکل چھوٹی بہن کی ہی طرح تھی۔ میرے وہم و گمان میں بھی کبھی اس کے بارے میں کوئی برا خیال نہیں آیا تھا، وہ میرے لیے ایک چھوٹی بچی ہی کی طرح سے تھی۔ اسی لیے میں بھی خاموش ہو گیا، پر بیوی سے اتنا کہا کہ ان چھوٹے بچوں کو تو یہاں سے اٹھا کر ان کی ماؤں کے پاس پھینک آؤ۔ بچوں کو ان کی ماؤں کے ساتھ سلانے کے بعد میری بیوی بھی آ کے ادھر ہمارے ساتھ ہی لیٹ گئی۔
رات کافی بیت چکی تھی اور سردی بھی بہت تھی، اسی لیے لحاف میں گھستے ہی سب کو نیند نے لے لیا۔ ہماری پوزیشن کچھ یوں تھی کہ میں دہنی کروٹ پر اپنی بیوی کی طرف منہ کر کے لیٹا ہوا تھا اور میری بیوی کا منہ میری طرف تھا جبکہ صائمہ میری بیوی کے اس طرف پیٹھ کے بل سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب صائمہ میرے اتنے قریب لیٹی ہو بلکہ کئی دفعہ پہلے بھی ایسا ہو چکا تھا کہ وہ اور دوسرے بچوں کے ساتھ میرے پاس لیٹی ہو یا بیٹھی ہو لیکن وہ سب تو زیادہ دیر کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ اور ویسے بھی میرا اس کے بارے میں دماغ کبھی گندا ہوا ہی نہ تھا۔ آج بھی وہ ہمارے ساتھ سونے کے لیے لیٹ گئی تھی۔
ابھی سوئے ہوئے کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہوا ہو گا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے میرا لنڈ پوری طرح اکڑا ہوا لگا، میرا بایاں ہاتھ میری بیوی کی گانڈ پر تھا جبکہ دایاں ہاتھ اس کے سر کے نیچے سے ہوتا ہوا اس کی کمر پر تھا، اس کے ہونٹ میرے ہونٹوں سے تقریباً جڑے ہوئے تھے۔ اسی قرب کی وجہ سے ہی شاید میری سانسیں بھی بہت بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ اگرچہ سونے سے پہلے سیکس کے بارے میں نہ سوچا نہ کچھ خیال کیا تھا۔ لیکن ایسی حالت میں جب آنکھ کھلی تو خود پر قابو بہت مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے تو جیسے بیوی کو اپنی بانہوں میں دبوچ ہی لیا۔ سر کو تھوڑا سا جھکا کر اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے لگا دیے۔ بائیں ہاتھ سے اس کی گانڈ کو بھی سہلانے لگا۔ میرا لنڈ تو جیسے لوہے کا گرم راڈ ہو۔ اکڑ کے پوری طرح کھڑا ہو گیا۔ میں سب کچھ بھول بھال کر بس اس کو ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا۔ جب میرے ہاتھوں کی حرکت بڑھی اور کسنگ بھی پہلے سے زیادہ زور سے کی تو میری بیوی کی بھی آنکھ کھل گئی۔ اس نے میرے ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے مجھ کو خود سے دور ہٹانے کی کوشش کی لیکن کیا کرتی، جگہ ہی زیادہ نہ تھی کہ میں پیچھے ہٹتا۔ اس نے انتہائی سرگوشی میں مجھ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میں جو کچھ کرنا چاہ رہا ہوں اس سے باز رہوں۔ لیکن میں تو جیسے آگ میں جھلس رہا تھا اور اس آگ کو ہر حال میں ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا۔ بیوی کے بار بار منع کرنے کے باوجود میرے ہاتھ رک نہیں رہے تھے۔ میں نے میرا بایاں ہاتھ اپنی بیوی کی شلوار کے اندر ڈال دیا اور اس کی چوڑ اور رانوں پر ہاتھ پھیرنے لگا، ساتھ ہی اپنی زبان سے اس کے ہونٹوں اور گالوں کو دھیرے دھیرے چاٹنے لگا۔ یہی وجہ تھی کہ میری بیوی کا جسم بھی کچھ ڈھیلا پڑنے لگا۔ اگرچہ وہ مجھ کو کوئی رسپانس نہیں کر رہی تھی۔ میں نے ہاتھ اس کی ٹانگوں کے درمیان اوپر تک اٹھایا تو اس کی پھدی سے ہاتھ ٹچ ہوتے ہی مجھ کو لگا کہ پھدی گیلی ہوئی پڑی ہے۔ میں سمجھ گیا کہ آگ اس طرف بھی لگی ہوئی ہے۔ لیکن ضبط اور صبر اتنا کہ وہ اپنے کسی ایکٹ سے یہ نہیں لگنے دے رہی تھی کہ اس کی حالت بھی خراب ہوئی ہے۔ میں نے جب دیکھا کہ اس کی حالت بھی اپنے جیسی کر لی ہے تو میں نے اس کی شلوار کو نیچے کرنے کی کوشش کی تو اس نے فوراً میرے ہاتھ کو پکڑ لیا اور انتہائی منت کرتے ہوئے سرگوشی سے کہا، خدا کے لیے باز آ جائیں، یہ نہ تو جگہ مناسب ہے اور نہ ہی موقع مناسب ہے، کل گھر چل کے جتنا جی میں آئے کر لیجیے گا۔ میں نے نہ پہلے کبھی منع کیا ہے اور نہ کبھی آئندہ منع کروں گی، پر خدا کے لیے آج اس وقت خود کو کنٹرول کر لیں۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو مجھ کو اس کی آنکھوں سے نکلتے آنسو صاف نظر آ رہے تھے۔ مجھ کو ماحول کی نزاکت کا ادراک ہوا یا پھر اس کی معصوم التجاؤں کا اثر یا پھر اس کے خاموشی سے بہتے آنسوؤں کا اثر۔ میں لحاف سے نکل کر جمپ کر کے چارپائی سے اترا اور دروازہ کھول کے کمرے سے باہر نکل گیا۔ میرا خیال تھا کہ میں تھوڑی دیر باہر ٹھنڈی ہوا میں رہوں گا تو شاید اندر لگی آگ کو قابو کر سکوں۔ میں نے سیکس سے خیال ہٹانے کے لیے کچھ آگے پیچھے کی چیزوں کو سوچنا شروع کر دیا۔ میں کافی دیر باہر بس ایک قمیض میں ہی یوں ہی بیٹھا رہا لیکن مجھ کو سردی کا ذرا بھی احساس نہیں ہو رہا تھا۔ آگ تھی کہ بجھنے کو نہیں آ رہی تھی۔
میں یوں ہی سر جھکائے بیٹھا تھا کہ اچانک میرے کندھے پر مجھ کو کسی ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔ میں ویسے ہی سر جھکائے بیٹھا رہا۔ لیکن اچانک جو آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی، اس آواز نے مجھ کو چونکا دیا۔ کیونکہ یہ صائمہ کی آواز تھی جو مجھ سے کہہ رہی تھی میں ایسے سردی میں یہاں کیوں بیٹھا ہوا ہوں۔ میں نے سر گھما کر حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور منہ سے کچھ نہیں بولا وہ میرے سامنے آ کر پھر بولی، "کیا بات ہے بھائی جان آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں؟" نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں، میں نے تھوڑے روکھے انداز سے اس کو جواب دیا۔ کچھ تو ہے بھائی جان جو آپ اس طرح سردی میں یوں بیٹھے ہوئے ہیں، وہ اپنا بازو میری گردن کے گرد ڈال کر میرے قریب بیٹھتے ہوئے بولی۔ اس کا قرب مجھ کو جھلسائے دے رہا تھا۔ کہا نا کچھ بھی نہیں، جاؤ اندر جا کر آرام سے سو جاؤ، یہاں سردی بہت ہے اور تم بیمار پڑ جاؤ گی، میں نے اسی روکھے انداز سے اس کو تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا۔ نہیں لگتی مجھ کو سردی اور نہ میں جاؤں گی جب تک کہ آپ بتاتے نہیں کہ بستر چھوڑ کر آپ یہاں سردی میں کیوں بیٹھے ہیں؟ وہ میرے ساتھ مزید چپکتے ہوئے کسی ڈھٹ بچے کی طرح ضد کرنے کے انداز میں بولی، میں نے بھی اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے مزید غصے سے کہا "کہہ جو دیا کچھ بھی نہیں ہوا مجھ کو، اب جاؤ میرا دماغ خراب نہیں کرو۔" اس کا اتنا قریب ہونا میرے جسم کو مزید جھلسائے دے رہا تھا۔ میرا لنڈ سٹیل راڈ کی طرح سخت تھا۔ اس کا منہ میرے منہ کے انتہائی قریب تھا، اس کی سانسیں میری سانسوں سے ٹکرا رہی تھیں، اس کے پستانوں کا دباؤ مجھ کو اپنی کمر پر محسوس ہو رہا تھا۔ میرا جسم جو پہلے سے دہک رہا تھا اس نے الاؤ کی شکل اختیار کر لی۔ لیکن میں پھر بھی خود کو کنٹرول کیے ہوئے تھا۔ جبکہ صائمہ کسی شیطان کی طرح میرے اعصاب پر حاوی ہو رہی تھی۔ میں صبر کے اس امتحان میں سرخرو رہنا چاہتا تھا لیکن صبر کی اس دیوار کو اس وقت زور کا دھکا لگا جب صائمہ نے میرے غصے کے جواب میں میرے گال کو چومتے ہوئے کہا "بھائی آپ میرے ساتھ غصہ نہ کریں بلکہ آپ اپنی پرابلم بتائیں ہو سکتا ہے میں آپ کی کچھ مدد کر سکوں" اس کے یہ الفاظ اتنے پیار سے کہے گئے تھے کہ میری آنکھ سے آنسو بہہ نکلے، میں منہ سے کچھ بھی نہیں بولا بس گردن جھکائے زمین کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ بتائیں نا بھائی جان آپ اتنے پریشان کیوں ہیں، ایک بار پھر اس نے اسی پیار کے ساتھ میرے چہرے کو اپنے ہاتھ سے اوپر اٹھاتے ہوئے پوچھا اور اسی وقت اسے میرے بہتے ہوئے آنسوؤں کا بھی احساس ہوا "ہمممم تو آپ روتے بھی ہو؟ اتنے بڑے ہو گئے آپ اور حرکتیں بچوں جیسی، لگتا ہے کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہے جو یہ حالت ہو رہی ہے۔" اب یہ ڈرامہ بازی بند کریں اور اچھے بچوں کی طرح سب کچھ صاف صاف بتا دیں ورنہ قسم سے میں بھی آپ سے پھر کبھی کوئی بات نہیں کروں گی اگر آج آپ نے اپنے دل کی بات نہیں بتائی تو۔ وہ مسلسل بولے جا رہی تھی اور میں عجیب کشمکش میں ڈوبا صرف اسے ہی سنے جا رہا تھا۔ یہ سوچ مجھ کو پاگل کیے جا رہی تھی کہ اس بیوقوف لڑکی سے کیسے پیچھا چھڑاؤں۔ اس کو کیسے بتاؤں کہ میری اس حالت کی وجہ کیا ہے اور اس کا علاج کیسے ممکن ہے۔ میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ اس کی آواز ایک بار پھر میری سماعتوں سے ٹکرائی، "اچھا تو پھر آپ نہیں بتائیں گے، آپ کا فیصلہ اٹل ہے نا؟ اچھا ہے، لیکن یہ یاد رکھیے گا کہ میں بھی پھر آپ سے کبھی بھی بات نہیں کروں گی۔" صائمہ یہ کہتے ہوئے اٹھی تو میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کو کلائی سے پکڑ کر پھر اپنے قریب بٹھا لیا۔ وہ بڑے تجسس سے میرے چہرے کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔ "دیکھو یہ بات ایسی ہے کہ میں تم سے نہیں کہہ سکتا۔" آخر میری زبان سے کچھ الفاظ ادا ہو ہی گئے۔ آخر کیوں؟ صائمہ نے میری بات ختم ہونے ہی نہ دی اور کیوں کا سوال پھر بیچ میں لے آئی، "بھائی آپ مجھ کو اپنی دوست سمجھیں یا پھر کسی بھی رشتے کی حیثیت میں اپنے دل کی بات کہہ دیں۔" میں اس کے چہرے پر نظریں جمائے اسے ہی ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہا تھا۔ دماغ میں کھچڑی پک رہی تھی کہ اسے بول دوں یا خاموش رہوں۔
اچانک میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھ دیا۔ میرے اس غیر فطری اور غیر ارادی عمل پر اس کو ایک شدید جھٹکا لگا۔ ایک زور دار جھٹکے سے اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور اس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا "... بھائی جان "...... میں نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے اس کو کہا، "تم بضد تھیں نا کہ میں اپنی پرابلم تم سے شیئر کروں، یہی ہے میری پرابلم" صائمہ بت بنی کھڑی تھی، شاید اس کو میری اس حرکت کی مجھ سے بالکل بھی توقع نہیں تھی، میں خود حیران تھا کہ میں نے ایسا کیسے کر دیا۔ "صائمہ میں اسی لیے تم کو نہیں بتا رہا تھا۔" جانتا تھا کہ یہ بات تم سے کہنے والی نہیں لیکن کیا کرتا، تمہارا اصرار اور ضد اتنی بڑھ گئی تھی۔" میں نے اپنا بازو اس کی کمر کے گرد ڈال کر اپنے قریب کرتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی تک ساکت تھی، میرا دایاں ہاتھ اب اس کی کمر پر تھا جبکہ بائیں ہاتھ سے میں اس کا ایک ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ صائمہ اب کچھ نہیں بول رہی تھی جبکہ میری زبان اب چل پڑی تھی۔ میں اسے اپنی اس حالت کی وجہ بتا رہا تھا اور ساتھ ہی ایک ہاتھ اس کی کمر پر پھیرے جا رہا تھا، جبکہ دوسرے ہاتھ سے میں بدستور اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ ایسے میں میں نے دوبارہ اس کا ہاتھ اپنے لنڈ پر رکھتے ہوئے کہا، "صائمہ میں تو اپنی ہی آگ میں جل رہا ہوں، اور یہ آگ مجھ کو جھلسائے جا رہی ہے، اور ممکن ہے کہ میں اسی آگ سے جل کر مر جاؤں" صائمہ سکتے کی سی حالت میں تھی جبکہ میں اب اپنے من کی پیاس بجھانے کا ارادہ کر چکا تھا۔ صائمہ نے دوبارہ ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی لیکن اس بار میں اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا۔ اس نے مٹھی بند کر لی لیکن میں اس کی بند مٹھی کو ہی اپنے لنڈ پر رگڑنے لگا۔ اس سے میں اسے اپنے لنڈ کی سختی اور گرمی کا احساس دلا رہا تھا۔ ساتھ ہی میں نے دوسرے ہاتھ سے اسے کمر سے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ وہ تھوڑا کسمسائی لیکن میں نے اسے دونوں بازؤں میں بھینچ لیا۔ صائمہ اب مکمل میرے بازؤں کے حصار میں تھی، میں نے خود کھڑے ہوتے ہوئے اسے بھی اوپر اٹھایا۔ میں اسے اس پوزیشن میں لے آیا کہ اس کا سینہ میرے سینے سے چپک گیا جبکہ میں دونوں ہاتھوں سے اس کی کمر اور گانڈ کو سہلا رہا تھا اور اب میرا لنڈ اس کی رانوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا۔ "بھائی جان پلیز مت کریں ایسا، مجھ کو جانے دیں" آخر خوفزدہ صائمہ کی ڈری ہوئی آواز نکل ہی گئی۔ دیکھو صائمہ تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ کسی بھی رشتے کی حیثیت سے اپنے دل کی بات کہہ دوں، تم ہی تو مجھ کو مجبور کر رہی تھی۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنے ہونٹ صائمہ کے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔ میری حالت اب شاید کسی بھوکے درندے کی سی تھی۔ میں بے تحاشہ صائمہ کو چومنے اور چاٹنے لگا، ساتھ ہی میرے ہاتھ بھی اس کے جسم پر ہر جگہ گھوم رہے تھے۔ صائمہ کی منمناہٹ مجھ کو سنائی دے رہی تھی لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔ اس کے بہتے آنسو میں دیکھ رہا تھا لیکن اس وقت ان بہتے آنسوؤں کی میری نظر میں کچھ اوقات نہیں تھی۔ وہ شاید اپنے ہاتھوں سے مجھ کو روکنے کی بھی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ اتنی زورآور نہیں تھی کہ مجھ کو روک پاتی۔ پھر تھوڑی دیر میں اس کی مزاحمت دم توڑ گئی۔ مجھ کو لگا کہ اس کے ہونٹ اب میرے ہونٹوں کے تعاقب میں ہیں۔ اس کی ٹانگیں جو اس نے قینچی کی طرح بند کی ہوئی تھیں وہ بھی کھل گئیں جیسے وہ اب چاہ رہی ہو کہ میرا لنڈ جو اب تک اس کی رانوں سے ہی ٹکرا رہا تھا اندر اس کی پھدی تک پہنچے۔ اس کے ہاتھ جو مجھ کو پیچھے ہٹانا چاہ رہے تھے اب میری کمر کا مساج کر رہے تھے۔ صائمہ لاشعوری طور پر اس عمل کا حصہ بن چکی تھی اور وہ اب اس سے مزہ لے رہی تھی۔ وہ میرے ہر عمل کا بھرپور جواب دینے لگی۔ صائمہ پوری طرح سے گرم ہو چکی تھی جس سے میرا لطف اور جنون بھی دوگنا ہو گیا۔ ہم کوئی بات نہیں کر رہے تھے، بس زبانیں لڑائے جا رہے تھے اور اپنے ہاتھوں سے ایک دوسرے کے جسموں کی پیمائش کر رہے تھے۔ صائمہ کا جسم اتنا نرم اور ملائم تھا کہ میرا جی چاہ رہا تھا کہ اس کے جسم پر اپنے دانت گاڑ دوں۔ میرے ہاتھ جب بھی اس کی گانڈ پر پہنچتے مجھ کو میری سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی۔ میں نے چومنے کا عمل صائمہ کے ہونٹوں سے ہوتے ہوئے اس کے کان، گردن اور پستانوں تک بڑھا دیا۔ ساتھ ہی اپنے ہاتھوں سے اس کی شلوار کو نیچے کر دیا۔ میرا ایک ہاتھ صائمہ کی گانڈ پر جبکہ دوسرا ہاتھ اس کی پھدی کو سہلا رہا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی پھدی کو سہلانا اتنا اچھا لگا کہ میں خود کو ہوا میں اڑتا محسوس کرنے لگا۔ جس طرح سے صائمہ مستی میں بے خود ہو چکی تھی اور جس طرح سے وہ میرا ساتھ دے رہی تھی اس سے میں بخوبی اندازہ کر سکتا تھا کہ وہ بھی اتنا ہی مزہ لے رہی ہے جتنا کہ میں۔ اب میں زیادہ وقت گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے ادھر کھڑے کھڑے ہی اس کی ٹانگوں کو ایک خاص حد تک کھولا اور اپنی شلوار اتار کے لنڈ کا سر صائمہ کی پھدی کے اوپر رگڑنے لگا، پھدی پہلے سے ہی پانی چھوڑے ہوئے تھی، جس سے لنڈ کا پورا سر چکنا ہو کے دائیں بائیں پھسلنے لگا، میں نے کوشش کی کہ لنڈ پھدی کے اندر چلا جائے لیکن کامیابی نہیں ہوئی اور مجھ کو لگا کہ اس پوزیشن میں صائمہ بھی آسانی محسوس نہیں کر رہی تو میں نے اس کو گھٹنوں کے بل ہونے کا کہا، اس نے کسی لونڈی کی طرح میرے حکم کی تعمیل کی، میں نے اس کی گانڈ کو دونوں ہاتھوں سے اس حد تک اوپر اٹھایا کہ اس کی پھدی بالکل میرے سامنے تھی۔ میں لنڈ کو ایک مرتبہ پھر پھدی پر رکھ کر دباؤ ڈالنے لگا، لنڈ کا سر جیسے ہی صائمہ کے پھدی کے اندر ہوا صائمہ کی چیخ نکل گئی، شکر ہے کہ چیخ زیادہ زور سے نہیں تھی۔ میں نے خود کو چند لمحوں کے لیے روک لیا، پھر جیسے ہی میں نے صائمہ کو ایزی ہوتے دیکھا، میں نے لنڈ کو پھدی پر رکھ کے پہلے سے ذرا زیادہ زور کا جھٹکا دیا جس سے لنڈ کا پورا سر پھدی کے اندر چلا گیا، اگرچہ صائمہ نے دانتوں کو سختی سے بھینچ رکھا تھا لیکن پھر بھی اس کی ایک اور چیخ نکل گئی، بھائی بہت درد ہو رہی ہے، پلیز مجھ کو معاف کر دو! مجھ سے نہیں ہو گا یہ، پلیز مجھ کو جانے دو! آآآآآآہووومممم میں مر گئی، صائمہ روتے ہوئے منتیں کرنے لگی لیکن میں نے اپنا کام جاری رکھا، میں اس کی ہر منت سماجت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے لنڈ کو چھوٹے چھوٹے دھکے دیتے ہوئے اس کی پھدی کے اندر مسلسل گھسیڑے جا رہا تھا۔ اس کی تکلیف کا بہر حال مجھ کو بھی اندازہ تھا، اسی لیے میں رک رک کر دھکے دے رہا تھا۔ صائمہ سسک رہی تھی اور اس کی التجائیں بھی مسلسل جاری تھیں۔ اس کی گانڈ پوری طرح اوپر کو اٹھی ہوئی تھی جبکہ اس کا سر نیچے زمین کی جانب جھکا ہوا تھا، میں نے اس کے بازوؤں کو پیچھے کمر کی جانب موڑ کے پکڑا ہوا تھا، جبکہ کہ میں خود اس کی گانڈ کے متوازی کھڑا اس کو پیچھے سے دھکے دیے جا رہا تھا۔ صائمہ نیچے کراہ رہی تھی، میرے ہر دھکے پر اس کی سسکی نکل جاتی۔ میں بھی عجیب جنونی حالت میں تھا، مجھ کو اس کا اس طرح سسکنا اچھا لگ رہا تھا۔ میں ہر دھکا پہلے دھکے سے ذرا زیادہ زور سے لگانے لگا۔ جس سے صائمہ باقاعدہ رونے لگی لیکن میں بنا کوئی پرواہ کیے دھکے پہ دھکے لگائے جا رہا تھا۔ مجھ کو بہت مزہ آ رہا تھا، میرا لنڈ پوری طرح صائمہ کی ٹائٹ پھدی میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کی پھدی جیسے کوئی آگ کا الاؤ تھی۔ اور میں اپنے لنڈ کو اس الاؤ میں جلا دینا چاہتا تھا۔ میں نے دھکوں کی رفتار تیز کی تو صائمہ کی سسکیاں بھی تیز اور بلند ہو گئیں۔ میرا جوش دیدنی تھا۔ میں جیسے لنڈ کے ساتھ خود بھی اس کی پھدی کی تنگ گلی میں گھس جانا چاہتا تھا۔ وہ بھی اب کراہنے اور سسکنے کی بجائے آآآآآآہ ہمممم ہآآآآآآآآ کی آوازیں نکال رہی تھی، ہم دونوں اب ان لمحات سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے تھے۔ مجھ کو لگا کہ میں چھوٹنے والا ہوں تو میں تھوڑی دیر کے لیے رک گیا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کو پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا اور تھوڑی دیر کے لیے اس کے رسیلے ہونٹوں کا رس چوسنے لگا۔ میرے ہاتھ صائمہ کے پستانوں کی گولائیاں ماپ رہے تھے۔ صائمہ بھی اس سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہی تھی۔ میں نے صائمہ کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا "اب زیادہ درد تو نہیں ہو رہی نا؟" وہ میرے ساتھ چپک کر بولی "ہو تو رہی ہے لیکن مزہ بہت آ رہا ہے" اس نے اب میری گردن کو دونوں بازؤں میں دبوچ لیا تھا۔ میں نے بھی وہیں سے اس کی دونوں ٹانگیں اٹھا کر اپنے کولہوں پر رکھیں اور دونوں بازو اس کی کمر کے پیچھے لے جا کر اس کی کمر کو گھیرے میں لیا، پھر لنڈ کو اس کی پھدی سے رگڑتے ہوئے اندر کی طرف دھکا لگا دیا۔ ہمارے ہونٹ ملے ہوئے تھے جبکہ میں اپنے بازؤں کے حصار میں اسے اٹھائے کھڑا تھا اور اس کی دونوں ٹانگیں میری کمر کے گرد قینچی بنائے ہوئے تھیں۔ ایسی پوزیشن میں اس کی پھدی پوری طرح سے کھلی ہوئی تھی اور میرا لنڈ اس کے آخری کونے تک جا رہا تھا۔ صائمہ کے منہ سے نکلنے والی منفرد عجیب سی آوازیں میرے کان سے ٹکرا رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد صائمہ کے جسم میں مجھ کو اک تناؤ سا لگا اور چند ہی لمحوں میں مجھ کو اس کا جسم ڈھیلا پڑتا محسوس ہوا۔ مجھ کو اس کیفیت کی خبر تھی۔ صائمہ چھوٹ گئی تھی۔ اس کی پھدی سے نکلنے والا پانی میری ٹانگوں پر نیچے تک بہہ گیا۔ میں بھی اب تن سا گیا تھا۔ میں نے زوردار جھٹکوں کی رفتار تیز کر دی اور پھر جیسے ہی میں چھوٹنے کے قریب پہنچا میں نے لنڈ کو پھدی سے باہر نکال کر صائمہ کے پیٹ کے اوپر رکھ کر زور سے پچھکاری ماری تو میرے لنڈ سے نکلنے والا لاوا صائمہ کے پورے پیٹ پر پھیل گیا۔ کچھ دیر کے لیے ہم یوں ہی ایک دوسرے سے چپکے ساکت کھڑے رہے۔ جب سانسیں بحال ہوئیں تو میں نے صائمہ کی پھدی اور پیٹ کو اسی کی چادر سے صاف کیا، لنڈ کو صاف کرنے کے بعد میں نے صائمہ کے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ایک بھرپور کس اس کے ہونٹوں پر کی، اور پھر ہم دونوں اٹھ کر اندر سونے چلے گئے۔(ختم شد)