تم میری پہلی اور آخری محبت ہو اس کے جواب میں صدف سے میں نے بھی یہی کہا تھا اور جھوٹ کہا تھا لیکن یہ مجھے نہیں معلوم وہ کتنی سچی تھی۔
ہمارے درمیان عموما بے سری باتیں ہوتی تھیں اور بحث بھی ایسی کے لگتا یہی تھا کل سے ہم شاید دوبارہ نہ مل سکیں
لیکن اس سے اگلے دن وہ ایسے ملتی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا جب بھی پریشان ہوتی میرے ساتھ خوب لڑتی تھی اور اتنا میں اسے سمجھ سکتا تھا کہ یہ لڑائی اگر جاری نہیں رکھوں گا تو شاید وہ اداس رہے۔
یہی وجہ تھی کہ اگر کسی دن اس کی لڑائی میں ساتھ نہ دیتا تو اگلے دوچار دن مایوس مایوس رہتی۔ میری بھی یہی کوشش رہتی تھی کہ وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال لے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔
دل تو بہت چاہتا کہ نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ ڈالوں اس کا چہرہ اپنے قریب کروں اس کے ماتھے پہ ایک بوسہ دوں اور پھر اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لوں لیکن ایسی کسی بھی کوشش کو اس نھ ہمیشہ سے رد کر دیا تھا اور بہت سخت موقف اپنایا تھا۔ اسے راضی کرنے کا یا بحث و لڑائی ختم کرنے کا ایک ہی حربہ تھا یا تو سگریٹ سلگا لیتا اور بازوؤں پہ سلگتا سگریٹ لگانے کا بہانہ کرتا میں جیسے ہی سگریٹ سلگاتا تھا اس کی نظر سگریٹ پر رہتی اپنے بازو کے قریب لے ک جاتا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر جھٹک دیتی۔ تھوڑا غصے کا اظہار کرتی پھر خود ہی موضوع تبدیل کر کے مجھے ہنسانے کی کوشش کرتی یا پھر اس کی دوسری کمزوری تھی جب اس کے سامنے روہانسی شکل بنا کے ماضی میں چلا جاتا۔
میرے ماضی کے کچھ بہت گہرے زخم تھے جن کی وہ چشم دید گواہ تھی اور ہمیشہ یہی کہتی فادی کوئی اور ہوتا تو مر گیا ہوتا پھر مجھے دلاسے دیتی اور یوں ہماری صلح ہوجاتی۔
میں محبت کو جسامت کی خوبصرتی سے تولنے والا بندہ کہاں اس کے عشق صوفیانہ میں پھنسا بھیٹا تھا۔ اور اس بات کا اسے ادراک تھا جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتی
یار فادی کہاں مجھ سے پھنس گئے ہو
میں تو کچھ خاص تمہارے کام کی نہیں ۔
جس پر اکثر میں ہنس دیتا اور کہہ دیتا شاید مجھے صبر کرنا چاہئے یہ میری طرف سے واضح اشارہ تھا اگر وہ حامی بھرے تو میں شادی کے لیے تیار ہوں۔
لیکن وہ وقت آئے گا تو دیکھی جائے گی کہہ کر ٹال دیتی۔
یونہی وقت پر لگا کر گزرتا رہا
ایک دن اچانک اس نے کہیں گھومنے جانے کی فرمائش کر دی میں نے کہا صحیح ہے صبح ہاسٹل سے نکل کر رابطہ کر لینا شام تک واپس آ جاہیں گے تو اس نے جواب دیا نہیں میں گھر بتا دیا ہے کہ ہمارا چار دن کا ٹور جا رہا اپنی میم کو بھی اعتماد میں لیا ہے کہ دوستوں کے ساتھ جا رہی اب اگلے چار دن ہاسٹل اور کالج کی طرف سے کوئی فکر نہیں ہم کہیں دور نکل سکتے ہیں۔
اگلے کالج سے نکلتے ہی ہم اسلام آباد سے نکلے اور شام کو ایبٹ آباد پہنچ گئے ہوٹل بک کیا سامان رکھا فریش ہو کر کھانے کے لیے نکل گئے واپسی بازار گھوم پھر کے ہوٹل آ گئے
ہمارے درمیان کبھی ایسا رشتہ تو تھا نہیں کہ میرا دل مچل رہا ہوتا لہذا میں کمرے میں آتے ہی بستر پر دراز ہو گیا
لیکن وہ اپنے بیڈ پر بیھٹنے کی بجائے میرے بیڈ پر بیٹھ گئی
میں نے ازراہ مذاق کہا لگتا ہے آج صدو میرا سر دبائے گی۔
فادی پیپرز کے فورا بعد میری شادی ہے اس نے بہت ہی سپاٹ لہجے میں عامیانہ سے انداز میں بہت بڑا دھماکہ کردیا تھا۔
یہ کیا بیہودہ مذاق ہے؟
نہیں یہی سچ ہے۔
میں پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھے جا رہا تھا لیکن دوسری طرف گہری خاموشی اور سرد مہری تھی۔
میں اپنا رشتہ لیکر جاوں؟
نہیں خدا کے لیے یہ ممکن نہیں اور نہ میری زندگی میں ایک اور عذاب داخل کرنا۔
میں پریشان تھا۔
ایک تم سے بچھڑنے کا عزاب دوسرا ساری زندگی کے طعنوں کا عزاب کہ پتہ نہیں کسے پیچھے گھر تک بھیج دیا تھا۔
اور اس کے بعد ہم بہت دیر تک بلکل خاموش بیٹھے رہے۔ رات کے دو بج گئے تب اس نے لب ہلائے
لیٹ جاو
میں کچھ نہیں بولا تو اس نے مجھے پکڑ کر لٹا دیا خود میرے اور قریب ہو کے بیٹھ گئی
ہم دونوں سمجھ نہیں پارہے تھے کہ اب کیا کرنا چاہیے
آخر اسی نے پھر سے سکوت توڑا۔
میں کچھ وقت تمہارے ساتھ بتانا چاہتی ہوں اور یہی میری زندگی کا حاصل ہو گا۔
وہ میرے ساتھ ہی لیٹ گئی
یہ زندگی کا پہلا موقع تھا وہ میرے اتنا قریب تھی لیکن میں شاک میں تھا
اس نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنا شروع کردیں اس کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو رہی تھیں لیکن میں اس دھچکے سے باہر نہیں آ پا رہا تھا۔
یار فادی کیا ہو گیا ہے
تم تو جسم کے رسیا تھے
تم میرے بدن کی خوشبو محسوس کر سکتے ہو۔
میں نے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دیے اس نے منع نہیں کیا بلکہ مجھے شرٹ اتارنے کا موقع دیا شرٹ دوسرے بیڈ پر پھینکی تو اس نے بنیان اتارنے کی بھی فرمائش کردی
میرے بازو پہ سر رکھ کے وہ میرے سینے پہ ہاتھ پھیر رہی تھی میں نے اس کے لمبے بال پکڑ کر اپنے مہنہ پر ڈال لیے اور رو دیا۔
میں واقعی گہرے دکھ میں مبتلا تھا اسے تب پتہ چلا جب میں سسک دیا۔ پھر بہت زور سے میرے سینے پہ پیار دینا شروع کر دیے
اس کی شدت بڑھتی جا رہی تھی حتی کے بہت زور سے چکی کاٹ دی۔
میرے سینے پر اس کے دانتوں کے نشانات محسوس کیے جا سکتے تھے۔ پھر خود ہی اس نشان پر زبان پھیرنا شروع کر دی۔
میں نے اس کی کمر پر ہلکے سے ہاتھ رکھا لیکن سکون نہ آیا اور ہاتھ شرٹ کے اندر سے اس کی کمر پر پھیرنے لگا
صدف۔ میں نے اسے پکارا تو اس نے میرے مہنہ پر ہاتھ رکھ دیا
نہیں فادی
یہ سزا نہ دو
میں تمہاری صدو ہوں
صدو! میں نے پھر پکارا۔
جی صدو کی جان
ان چار دنوں میں اپنی صدو کی زندگی میں اتنے رنگ بھر دو کہ جن کی یادیں میں قبر تک بھی لے کے جا سکوں۔
تمہاری شرٹ مجھے چبھ رہی ہے۔
وہ ایک دم کھلکھلا کے ہنس دی اور اپنی شرٹ اتار کے بہت زور سے دیوار پہ دے ماری۔
وہ دوبارہ میرے ساتھ لگی تو میں نے اس کی برا کی ہک کھول دی۔
برا ہٹا کر اپنا مہنہ صدو کے سینے میں چھپا لیا اور پھر آہستہ آہستہ پستان پر زبان پھیرنا شروع کر دی اب ہم دونوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا میں سینے سے ہوا زبان پھیرتے پھیرتے اس کی گردن کی طرف بڑھ رہا تھا اور صدو کا ہاتھ میرا بیلٹ کھول رہا تھا اس نے زپ کھولی تو میں نے ٹانگوں کی مدد سے اپنی پینٹ اتار دی
گردن سے اوپر جب کان پہ زبان پھیری تو وہ تڑپ گئی
اب وہ مچل رہی تھی اور میں اس کے کان پہ زبان پھیر رہا تھا۔
اس کا رنگ سرخ لال ہو رہا تھا ناخن میری کمر میں کھبوئے ہوئے تھے اور ٹانگیں میری ٹانگوں سے رگڑ رہی تھی۔
یہ شاید اس کی کمزوری تھی جیسے جیسے کان پہ زبان پھیرتا گیا وہ مزید مدہوش ہوتی گئی
وہ اپنی ٹانگیں چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ناخن کی سختی مزید میری کمر میں بڑھا دی تھی۔ اور بال بکھر بکھر کر الجھ چکے تھے۔
نسوانی خشبو بہت بڑھ چکی تھی۔
پیٹ پیٹ سے ملائے اور سینہ سینے سے ملائے ہمارے جسموں سے انتہا کی گرماہش خارج ہو رہی تھی۔
سانسیں پھول رہی تھیں
صدو نے ایک جھٹکے سے خود مو چھڑوایا اور پیٹ کے بل لیٹ گئی اس کی کمر پہ ہپس کے بلکل اوپر دو کھڈے قیامت ڈھانے کے لیے کافی تھے میں نے وہیں سے چاٹنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اس کی کمر پر دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا
وہ کراہ رہی تھی اور اس کی آوازیں کسی مسحور کن راگ کی طرح میری روح میں پیوست ہو رہی تھیں۔
میں نے اسے گھٹنوں کے بل کیا اور ہپس کے درمیان زبان پھیرتا پھیرتا نیچے تک چلا گیا
جیسے ہی میری زبان اس کی گیلی ہو رہی گرم اور نرم و ملائم **** کے اندر گھس گئی اس نے بہت لمبا اففففف کیا
اف میری گلابو۔۔۔۔
واہ کیا نام دیا تھا اس نے
گلابو۔!
اس کی گلابو کے اندر میری زبان پھر رہی تھی اور گلابو پانی چھوڑے چلی جا رہی تھی
فادی۔۔ صدو تھک گئی اس نے بہت مدہوش کن آواز میں کیا تھا۔
میں سیدھا لیٹ گیا اور کھسک کر گلابو کے پاس اپنا منہ لے گیا
اور ہپس سے پکڑ کر اسے اپنے منہ پر ٹکا لیا تاکہ اسے مزید تھکاوٹ محسوس نہ ہو۔ کچھ دیر ایسے ہی رہنے کے بعد اس نے اپنا رخ تبدیل کر لیا
میں گلابو پر بنے دانے کو اپنی زبان سے مسل رہا تھا اور وہ میرے پیٹ پر زبان پھیرتے پھیرتے میرے تنے ہوئے راڈ پر زبان پھیرنے لگی۔
ہم مدہوش تھے اور کیا کیا کیے جارہے تھے شاید خود ہمیں بھی معلوم نہیں تھا
میرا راڈ بھی لیس دار مادہ چھوڑ رہا تھا جسے وہ اپنی زبان سے راڈ کے اوپر ہی پھیلائے جا رہی تھی۔ میری زبان بھی تیزی سے چل رہی تھی اور میں گلابو کو مسل رہا تھا
وہ اچانک اٹھی اور میرے منہ میں اپنا منہ ڈال دیا۔
اب ہماری زبانیں بھڑ رہی تھیں۔
ہم ہمممم. اغمم بس ایسی آوازیں
وہ دوبارہ سے کہنیوں اور گھنٹے کے بل ہو گئی اور چلانے لگی۔
فادی گلابو
فادییییییی گلابو گئی
میں نے انگلی گلابو میں ڈالی اور تیزی سے چلانے لگا
نہیں ۔۔ نہیں انگلی سے ٹھنڈی نہیں ہونے والی
آہ اف
اففف جلدی پلیزززز
میں نے اپنا راڈ گلابو پہ فٹ کیا اور ایک جھٹکے سے اندر تک چلا گیا اب کی بار اس نے بہت زور سے چیخ ماری تھی
میں نے زور زور سے جھٹکے مارنا شروع کر دیئے
اور صدو کی کمر سے پکڑ کر اسے آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا
آہ آہ آہ اف
اوی مرگئی۔
وہ چلا رہی تھی
کچھ ہی دیر میں ہم نچڑنا شروع ہو گئے
جب محسوس کیا کہ اب انتہا پہ ہوں تو اپنا راڈ باہر نکال کر ہپس کی پھاڑیوں میں رگڑنا شروع کردیا اور وہیں ڈسچارج ہو گیا۔
صدو اس سے پہلے ڈسچارج ہو چکی تھی
میں نے جلدی سے اپنی بنیان اٹھائی اپنا راڈ صاف کیا صدو کی گلابو اور ہپس صاف کیے اور ڈسٹ بن میں پھینک دی
اب ہم دونوں تمام پردوں سے آزاد دو ننگے جسم ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے جیسے دونوں ہی ایک دوسرے کو گھول گھول کر پی رہے ہوں۔
ہماری آنکھوں میں انتہا کی محبت چھلک رہی تھی۔
ہمارے درمیان عموما بے سری باتیں ہوتی تھیں اور بحث بھی ایسی کے لگتا یہی تھا کل سے ہم شاید دوبارہ نہ مل سکیں
لیکن اس سے اگلے دن وہ ایسے ملتی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا جب بھی پریشان ہوتی میرے ساتھ خوب لڑتی تھی اور اتنا میں اسے سمجھ سکتا تھا کہ یہ لڑائی اگر جاری نہیں رکھوں گا تو شاید وہ اداس رہے۔
یہی وجہ تھی کہ اگر کسی دن اس کی لڑائی میں ساتھ نہ دیتا تو اگلے دوچار دن مایوس مایوس رہتی۔ میری بھی یہی کوشش رہتی تھی کہ وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال لے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔
دل تو بہت چاہتا کہ نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ ڈالوں اس کا چہرہ اپنے قریب کروں اس کے ماتھے پہ ایک بوسہ دوں اور پھر اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لوں لیکن ایسی کسی بھی کوشش کو اس نھ ہمیشہ سے رد کر دیا تھا اور بہت سخت موقف اپنایا تھا۔ اسے راضی کرنے کا یا بحث و لڑائی ختم کرنے کا ایک ہی حربہ تھا یا تو سگریٹ سلگا لیتا اور بازوؤں پہ سلگتا سگریٹ لگانے کا بہانہ کرتا میں جیسے ہی سگریٹ سلگاتا تھا اس کی نظر سگریٹ پر رہتی اپنے بازو کے قریب لے ک جاتا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر جھٹک دیتی۔ تھوڑا غصے کا اظہار کرتی پھر خود ہی موضوع تبدیل کر کے مجھے ہنسانے کی کوشش کرتی یا پھر اس کی دوسری کمزوری تھی جب اس کے سامنے روہانسی شکل بنا کے ماضی میں چلا جاتا۔
میرے ماضی کے کچھ بہت گہرے زخم تھے جن کی وہ چشم دید گواہ تھی اور ہمیشہ یہی کہتی فادی کوئی اور ہوتا تو مر گیا ہوتا پھر مجھے دلاسے دیتی اور یوں ہماری صلح ہوجاتی۔
میں محبت کو جسامت کی خوبصرتی سے تولنے والا بندہ کہاں اس کے عشق صوفیانہ میں پھنسا بھیٹا تھا۔ اور اس بات کا اسے ادراک تھا جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتی
یار فادی کہاں مجھ سے پھنس گئے ہو
میں تو کچھ خاص تمہارے کام کی نہیں ۔
جس پر اکثر میں ہنس دیتا اور کہہ دیتا شاید مجھے صبر کرنا چاہئے یہ میری طرف سے واضح اشارہ تھا اگر وہ حامی بھرے تو میں شادی کے لیے تیار ہوں۔
لیکن وہ وقت آئے گا تو دیکھی جائے گی کہہ کر ٹال دیتی۔
یونہی وقت پر لگا کر گزرتا رہا
ایک دن اچانک اس نے کہیں گھومنے جانے کی فرمائش کر دی میں نے کہا صحیح ہے صبح ہاسٹل سے نکل کر رابطہ کر لینا شام تک واپس آ جاہیں گے تو اس نے جواب دیا نہیں میں گھر بتا دیا ہے کہ ہمارا چار دن کا ٹور جا رہا اپنی میم کو بھی اعتماد میں لیا ہے کہ دوستوں کے ساتھ جا رہی اب اگلے چار دن ہاسٹل اور کالج کی طرف سے کوئی فکر نہیں ہم کہیں دور نکل سکتے ہیں۔
اگلے کالج سے نکلتے ہی ہم اسلام آباد سے نکلے اور شام کو ایبٹ آباد پہنچ گئے ہوٹل بک کیا سامان رکھا فریش ہو کر کھانے کے لیے نکل گئے واپسی بازار گھوم پھر کے ہوٹل آ گئے
ہمارے درمیان کبھی ایسا رشتہ تو تھا نہیں کہ میرا دل مچل رہا ہوتا لہذا میں کمرے میں آتے ہی بستر پر دراز ہو گیا
لیکن وہ اپنے بیڈ پر بیھٹنے کی بجائے میرے بیڈ پر بیٹھ گئی
میں نے ازراہ مذاق کہا لگتا ہے آج صدو میرا سر دبائے گی۔
فادی پیپرز کے فورا بعد میری شادی ہے اس نے بہت ہی سپاٹ لہجے میں عامیانہ سے انداز میں بہت بڑا دھماکہ کردیا تھا۔
یہ کیا بیہودہ مذاق ہے؟
نہیں یہی سچ ہے۔
میں پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھے جا رہا تھا لیکن دوسری طرف گہری خاموشی اور سرد مہری تھی۔
میں اپنا رشتہ لیکر جاوں؟
نہیں خدا کے لیے یہ ممکن نہیں اور نہ میری زندگی میں ایک اور عذاب داخل کرنا۔
میں پریشان تھا۔
ایک تم سے بچھڑنے کا عزاب دوسرا ساری زندگی کے طعنوں کا عزاب کہ پتہ نہیں کسے پیچھے گھر تک بھیج دیا تھا۔
اور اس کے بعد ہم بہت دیر تک بلکل خاموش بیٹھے رہے۔ رات کے دو بج گئے تب اس نے لب ہلائے
لیٹ جاو
میں کچھ نہیں بولا تو اس نے مجھے پکڑ کر لٹا دیا خود میرے اور قریب ہو کے بیٹھ گئی
ہم دونوں سمجھ نہیں پارہے تھے کہ اب کیا کرنا چاہیے
آخر اسی نے پھر سے سکوت توڑا۔
میں کچھ وقت تمہارے ساتھ بتانا چاہتی ہوں اور یہی میری زندگی کا حاصل ہو گا۔
وہ میرے ساتھ ہی لیٹ گئی
یہ زندگی کا پہلا موقع تھا وہ میرے اتنا قریب تھی لیکن میں شاک میں تھا
اس نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنا شروع کردیں اس کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو رہی تھیں لیکن میں اس دھچکے سے باہر نہیں آ پا رہا تھا۔
یار فادی کیا ہو گیا ہے
تم تو جسم کے رسیا تھے
تم میرے بدن کی خوشبو محسوس کر سکتے ہو۔
میں نے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دیے اس نے منع نہیں کیا بلکہ مجھے شرٹ اتارنے کا موقع دیا شرٹ دوسرے بیڈ پر پھینکی تو اس نے بنیان اتارنے کی بھی فرمائش کردی
میرے بازو پہ سر رکھ کے وہ میرے سینے پہ ہاتھ پھیر رہی تھی میں نے اس کے لمبے بال پکڑ کر اپنے مہنہ پر ڈال لیے اور رو دیا۔
میں واقعی گہرے دکھ میں مبتلا تھا اسے تب پتہ چلا جب میں سسک دیا۔ پھر بہت زور سے میرے سینے پہ پیار دینا شروع کر دیے
اس کی شدت بڑھتی جا رہی تھی حتی کے بہت زور سے چکی کاٹ دی۔
میرے سینے پر اس کے دانتوں کے نشانات محسوس کیے جا سکتے تھے۔ پھر خود ہی اس نشان پر زبان پھیرنا شروع کر دی۔
میں نے اس کی کمر پر ہلکے سے ہاتھ رکھا لیکن سکون نہ آیا اور ہاتھ شرٹ کے اندر سے اس کی کمر پر پھیرنے لگا
صدف۔ میں نے اسے پکارا تو اس نے میرے مہنہ پر ہاتھ رکھ دیا
نہیں فادی
یہ سزا نہ دو
میں تمہاری صدو ہوں
صدو! میں نے پھر پکارا۔
جی صدو کی جان
ان چار دنوں میں اپنی صدو کی زندگی میں اتنے رنگ بھر دو کہ جن کی یادیں میں قبر تک بھی لے کے جا سکوں۔
تمہاری شرٹ مجھے چبھ رہی ہے۔
وہ ایک دم کھلکھلا کے ہنس دی اور اپنی شرٹ اتار کے بہت زور سے دیوار پہ دے ماری۔
وہ دوبارہ میرے ساتھ لگی تو میں نے اس کی برا کی ہک کھول دی۔
برا ہٹا کر اپنا مہنہ صدو کے سینے میں چھپا لیا اور پھر آہستہ آہستہ پستان پر زبان پھیرنا شروع کر دی اب ہم دونوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا میں سینے سے ہوا زبان پھیرتے پھیرتے اس کی گردن کی طرف بڑھ رہا تھا اور صدو کا ہاتھ میرا بیلٹ کھول رہا تھا اس نے زپ کھولی تو میں نے ٹانگوں کی مدد سے اپنی پینٹ اتار دی
گردن سے اوپر جب کان پہ زبان پھیری تو وہ تڑپ گئی
اب وہ مچل رہی تھی اور میں اس کے کان پہ زبان پھیر رہا تھا۔
اس کا رنگ سرخ لال ہو رہا تھا ناخن میری کمر میں کھبوئے ہوئے تھے اور ٹانگیں میری ٹانگوں سے رگڑ رہی تھی۔
یہ شاید اس کی کمزوری تھی جیسے جیسے کان پہ زبان پھیرتا گیا وہ مزید مدہوش ہوتی گئی
وہ اپنی ٹانگیں چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ناخن کی سختی مزید میری کمر میں بڑھا دی تھی۔ اور بال بکھر بکھر کر الجھ چکے تھے۔
نسوانی خشبو بہت بڑھ چکی تھی۔
پیٹ پیٹ سے ملائے اور سینہ سینے سے ملائے ہمارے جسموں سے انتہا کی گرماہش خارج ہو رہی تھی۔
سانسیں پھول رہی تھیں
صدو نے ایک جھٹکے سے خود مو چھڑوایا اور پیٹ کے بل لیٹ گئی اس کی کمر پہ ہپس کے بلکل اوپر دو کھڈے قیامت ڈھانے کے لیے کافی تھے میں نے وہیں سے چاٹنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اس کی کمر پر دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا
وہ کراہ رہی تھی اور اس کی آوازیں کسی مسحور کن راگ کی طرح میری روح میں پیوست ہو رہی تھیں۔
میں نے اسے گھٹنوں کے بل کیا اور ہپس کے درمیان زبان پھیرتا پھیرتا نیچے تک چلا گیا
جیسے ہی میری زبان اس کی گیلی ہو رہی گرم اور نرم و ملائم **** کے اندر گھس گئی اس نے بہت لمبا اففففف کیا
اف میری گلابو۔۔۔۔
واہ کیا نام دیا تھا اس نے
گلابو۔!
اس کی گلابو کے اندر میری زبان پھر رہی تھی اور گلابو پانی چھوڑے چلی جا رہی تھی
فادی۔۔ صدو تھک گئی اس نے بہت مدہوش کن آواز میں کیا تھا۔
میں سیدھا لیٹ گیا اور کھسک کر گلابو کے پاس اپنا منہ لے گیا
اور ہپس سے پکڑ کر اسے اپنے منہ پر ٹکا لیا تاکہ اسے مزید تھکاوٹ محسوس نہ ہو۔ کچھ دیر ایسے ہی رہنے کے بعد اس نے اپنا رخ تبدیل کر لیا
میں گلابو پر بنے دانے کو اپنی زبان سے مسل رہا تھا اور وہ میرے پیٹ پر زبان پھیرتے پھیرتے میرے تنے ہوئے راڈ پر زبان پھیرنے لگی۔
ہم مدہوش تھے اور کیا کیا کیے جارہے تھے شاید خود ہمیں بھی معلوم نہیں تھا
میرا راڈ بھی لیس دار مادہ چھوڑ رہا تھا جسے وہ اپنی زبان سے راڈ کے اوپر ہی پھیلائے جا رہی تھی۔ میری زبان بھی تیزی سے چل رہی تھی اور میں گلابو کو مسل رہا تھا
وہ اچانک اٹھی اور میرے منہ میں اپنا منہ ڈال دیا۔
اب ہماری زبانیں بھڑ رہی تھیں۔
ہم ہمممم. اغمم بس ایسی آوازیں
وہ دوبارہ سے کہنیوں اور گھنٹے کے بل ہو گئی اور چلانے لگی۔
فادی گلابو
فادییییییی گلابو گئی
میں نے انگلی گلابو میں ڈالی اور تیزی سے چلانے لگا
نہیں ۔۔ نہیں انگلی سے ٹھنڈی نہیں ہونے والی
آہ اف
اففف جلدی پلیزززز
میں نے اپنا راڈ گلابو پہ فٹ کیا اور ایک جھٹکے سے اندر تک چلا گیا اب کی بار اس نے بہت زور سے چیخ ماری تھی
میں نے زور زور سے جھٹکے مارنا شروع کر دیئے
اور صدو کی کمر سے پکڑ کر اسے آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا
آہ آہ آہ اف
اوی مرگئی۔
وہ چلا رہی تھی
کچھ ہی دیر میں ہم نچڑنا شروع ہو گئے
جب محسوس کیا کہ اب انتہا پہ ہوں تو اپنا راڈ باہر نکال کر ہپس کی پھاڑیوں میں رگڑنا شروع کردیا اور وہیں ڈسچارج ہو گیا۔
صدو اس سے پہلے ڈسچارج ہو چکی تھی
میں نے جلدی سے اپنی بنیان اٹھائی اپنا راڈ صاف کیا صدو کی گلابو اور ہپس صاف کیے اور ڈسٹ بن میں پھینک دی
اب ہم دونوں تمام پردوں سے آزاد دو ننگے جسم ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے جیسے دونوں ہی ایک دوسرے کو گھول گھول کر پی رہے ہوں۔
ہماری آنکھوں میں انتہا کی محبت چھلک رہی تھی۔