What's new
  • اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    ماہانہ ممبرشپ صرف 1000 روپے میں!

    یہ شاندار آفر 31 دسمبر 2025 تک فعال ہے۔

    ابھی شامل ہوں اور لامحدود کہانیوں، کتابوں اور خصوصی مواد تک رسائی حاصل کریں!

    واٹس ایپ پر رابطہ کریں
    +1 979 997 1312

سیکس کہانی سلگتی جوانی

Story LoverStory Lover is verified member.

Super Moderator
Staff member
Moderator
Points 93
Solutions 0
Joined
Apr 15, 2025
Messages
151
Reaction score
767
Story LoverStory Lover is verified member.
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور میں لاہور، پاکستان میں رہتا تھا اور وہیں ایک اسکول میں پڑھتا تھا۔ جیسے کہ ٹیوشن پڑھنا ایک فیشن ہے، تو میرے گھر والوں نے بھی مجھے ٹیوشن پڑھانے کا فیصلہ کیا۔ پھر کچھ تلاش کرنے کے بعد میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر ایک باجی کا گھر پتا چلا جو ٹیوشن پڑھاتی تھیں۔ میرے گھر والے مجھے وہاں لے گئے۔ جب ہم وہاں پہنچے اور ہم نے ڈور بیل بجائی تو کچھ دیر بعد ایک بچے نے دروازہ کھولا اور پوچھا کہ آپ کو کس سے ملنا ہے۔ ہم نے اپنے وہاں آنے کا مقصد بتایا تو اس نے ہمیں اندر آنے کو کہا۔



جب ہم اندر پہنچے تو اندر دو لڑکیاں چند بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہی تھیں۔ میرے گھر والوں نے ان سے بات کی اور سارے معاملات طے کرنے کے بعد میں وہاں ایڈمٹ ہو گیا۔



دوسرے دن جب میں ٹیوشن پڑھنے گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ دو بہنیں ہیں اور ایک بھائی بھی ہے۔ ان کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور بھائی صبح کام پر جاتا ہے اور رات گئے واپس آتا ہے۔ پھر میں نے اپنے ٹیچرز کو دیکھا۔ وہ دونوں بلا کی خوبصورت تھیں۔ بڑی والی کا نام شازیہ تھا جو اس وقت 22 سال کی تھی اور چھوٹی والی کا نام فوزیہ تھا جو 17 یا 18 سال کی تھی۔ شازیہ ایم اے کی اور فوزیہ ایف اے کی طالبہ تھیں۔ دونوں ہی گوری چٹی، رنگین آنکھیں، بھرے بھرے سڈول چھاتیوں والی اور اتنی خوبصورت کہ زمین پر چلتی جنت کی حوریں لگتی تھیں۔



لیکن مجھے اس وقت ان باتوں کا کچھ خاص پتا نہیں تھا، یعنی کہ میں کچھ زیادہ ہی معصوم یعنی اچھا بچہ تھا۔ اس وقت میں بھی بہت خوبصورت تھا، اسی لیے میرے گھر والے ہر وقت مجھے کالا ٹیکہ لگا کر رکھتے تھے کیونکہ مجھے نظر بہت جلدی لگتی تھی۔



تو میں نے معمول کے مطابق پڑھنا شروع کر دیا۔ میں روز وہاں جاتا اور دل لگا کر پڑھائی کرتا، لیکن میں اکثر نوٹ کرتا کہ جب شازیہ وہاں نہ ہوتی تو فوزیہ مجھے عجیب عجیب نظروں سے گھورتی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد میرا فائنل ایگزام ہوا اور شازیہ اپنی نانی کے گھر رہنے چلی گئی۔ اب گھر پر صرف مس فوزیہ ہی اکیلی ہوتی تھیں۔



میں اسکول سے فارغ ہوتے ہی گھر جانے کے بجائے سیدھا ٹیوشن چلا جاتا تھا اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں اور فوزیہ ایک ساتھ گھر میں داخل ہوتے تھے۔ اس دن بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔



میں اسکول سے ٹیوشن پہنچا تو سامنے سے مس فوزیہ بھی اپنا کالج بیگ لے کر گھر میں داخل ہو رہی تھیں۔ اس نے مجھے دیکھا اور اندر آنے کو کہا اور میں اس کے ساتھ اندر چلا گیا۔ آج فوزیہ مجھے کچھ عجیب لگ رہی تھی اور وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھے جا رہی تھی۔



اس نے اندر جاتے ہی اپنا کالج بیگ صوفے پر پھینکا اور خود بیڈ پر لیٹ گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ میں نے پوچھا کہ مس فوزیہ، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ تو اس نے کہا کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں اور میری کمر اور پاؤں (فٹ) میں بہت درد ہے۔ پھر اس نے کہا کہ عمران، پلیز آج میں بہت تھک گئی ہوں، تم تھوڑی میری مدد کرو پلیز۔



میں نے جی مس کہا اور مس فوزیہ کے پاؤں کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ فوزیہ نے کہا کہ عمران، پلیز میرے جوتے اتار دو۔ یہ کہتے ہی اس نے اپنے جوتے میرے آگے کر دیے۔ میں بھی فرمانبردار طالب علم کی طرح اپنی ٹیچر کے جوتوں کے تسمے کھولنے لگا اور پھر میں نے ان کے سیاہ رنگ کے جوتے اتار دیے۔



انہوں نے سفید رنگ کے موزے پہن رکھے تھے جو پسینے سے بھیگے ہوئے تھے۔ ان کے موزوں سے ان کے پسینے کی میٹھی سی خوشبو آ رہی تھی۔ پھر انہوں نے کہا کہ عمران، پلیز یہ میرے موزے بھی اتار دو۔ میں پھر اچھے بچوں کی طرح اپنی مس فوزیہ کا حکم مانتے ہوئے ان کے موزے اتارنے لگا۔



میں نے آہستہ آہستہ ان کے موزے اتار دیے۔ جب میں ان کے موزے اتار رہا تھا تو ان کے پاؤں کی میٹھی خوشبو سیدھی میری ناک میں آ رہی تھی۔ میں نہیں جانتا کیوں، لیکن مجھے وہ خوشبو بہت اچھی لگی اور اس خوشبو کی وجہ سے میرا لن سخت ہونے لگا۔



مجھے خود یہ تبدیلی عجیب سی محسوس ہو رہی تھی، جسے مس فوزیہ نے بھی محسوس کر لیا اور اب اس کی نظریں میری تنگ ہوتی ہوئی اسکول پینٹ کی زپ پر تھیں۔ اور وہ میری اچانک سے پھولتی ہوئی پینٹ کو گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔



اس نے میری اس کی پاؤں کی طرف توجہ محسوس کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ عمران، پلیز تھوڑا میرے پاؤں پر بوسہ دو۔ مجھے مس فوزیہ کی بات عجیب تو لگی، لیکن میں روبوٹ کی طرح ان کی ہر بات مانے جا رہا تھا۔



مس فوزیہ نے اپنا پاؤں میرے چہرے کے سامنے کر دیا۔ جب میں نے قریب سے دیکھا تو ان کے پاؤں انتہائی خوبصورت تھے۔ دودھ سے گورے اور ترتیب سے انگلیاں جن پر فائل کیے ہوئے ناخن اور ان کے پاؤں کی خوشبو مجھے دیوانہ کیے جا رہی تھی۔



میں نے ان کے پاؤں پر بوسہ دیا تو انہیں مزا آیا اور میں نے ساتھ ہی اپنی زبان ان کے پاؤں کو چھوئی اور مجھے ان کے پسینے کا ذائقہ محسوس ہوا جو مجھے بہت اچھا لگا۔ اور میں نے ان کے پاؤں کو بوسہ دینا اور چاٹنا شروع کر دیا۔



مجھے یہ کرنے سے بہت مزا آ رہا تھا اور مجھے ان کے پاؤں کی خوشبو بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اب تو میں بغیر کہے ان کے پاؤں کو چوسے اور چاٹے جا رہا تھا۔ میں نے ان کے پاؤں کی ایک ایک انگلی اور انچ انچ چوسا اور چاٹ ڈالا۔



یہ سب کرنے سے میرا لن اسٹیل کی چھڑ کی طرح سخت ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اچانک مس فوزیہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اس نے مجھے اشارے سے اپنے قریب آنے کو کہا۔ جب میں اس کے قریب آیا تو اس نے کہا کہ عمران، تمہیں شرم نہیں آتی چھپائی کرتے ہوئے۔ میں یہ سن کر ڈر گیا اور میں نے کہا کہ مس، میں نے کیا چُرایا ہے؟



تو اس نے میری پینٹ کی طرف اشارہ کیا جس میں میرا لن ٹینٹ کی طرح تنا ہوا تھا اور کہا کہ یہ تم نے اپنی پینٹ میں کیا چھپایا ہے؟ میں ڈر گیا اور میں ابھی کچھ کہتا اس سے پہلے ہی مس نے میری پینٹ کی زپ کھول دی۔ زپ کھلنے کی دیر تھی کہ میرا لن اسپرنگ کی طرح باہر نکل آیا۔



میرا جوان اور خوبصورت لن دیکھتے ہی مس فوزیہ کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی اور اس نے اپنے ٹھنڈے ہاتھوں سے میرا اسٹیل سے سخت اور گرم لن پکڑ لیا۔ جیسے ہی اس نے میرے لن کو پکڑا، مجھے بہت مزا آیا۔ اس نے کہا کہ عمران، چپ کر کے سیدھے کھڑے رہو اور مجھے چیک کرنے دو کہ یہ کیا ہے۔ اس نے مجھے انگریزی کی کتاب تھمائی اور کہا کہ اس پیراگراف کو یاد کرو اور تمہاری نظر کتاب سے نہ ہٹے۔



پھر وہ میرے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور میرے لن کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر سہلانے لگی۔ اس نے کتاب میرے چہرے کے سامنے کر دی تاکہ مجھے نیچے کچھ نظر نہ آ سکے۔ اب اس نے اپنا چہرہ میرے لن کے قریب کیا اور اپنے چہرے پر میرا لن پھیرنے لگی۔



مجھے بہت مزا آ رہا تھا، لیکن میں چپ کر کے کھڑا تھا۔ اب اس نے اپنی زبان میرے لن پر پھیرنی شروع کی۔ اوف! میں تو بتا نہیں سکتا کہ اپنی ٹیچر کی زبان اپنے لن پر محسوس کر کے کتنا مزا آتا ہے۔ پھر اس نے اپنا منہ کھولا اور میرا پورا لن اس کے منہ میں سما گیا اور وہ آہستہ آہستہ اپنا منہ آگے پیچھے کرنے لگی اور میرے لن کو چوسنے لگی۔ وہ اس طرح میرے لن کے گرد اپنی زبان گھما رہی تھی کہ بس!



میں نے کتاب کے نیچے سے ٹیچر کو دیکھا تو ان کی آنکھیں بند تھیں اور ان کا ہاتھ ان کی اپنی شلوار میں تھا اور وہ میرے لن کو کسی لولی پاپ کی طرح چوس رہی تھیں۔ پھر مجھے ایسا لگا کہ میں مزے کی اونچائیوں کو چھو رہا ہوں اور میرے لن سے کچھ نکل رہا ہے، لیکن میں اپنی مس فوزیہ کے حکم سے چپ کھڑا رہا۔



اور میرے لن سے منی کا ایک سیلاب میری ٹیچر کے منہ میں چلا گیا اور انہوں نے مجھے محسوس نہیں ہونے دیا اور میری ساری منی پی لی۔ مس فوزیہ میرے لن کو اس وقت تک چوستی رہی جب تک کہ میری منی کی آخری بوند تک میرے لن سے نہ نکل گئی اور میرے لن کی سختی کم ہونے لگی۔



پھر انہوں نے آہستہ سے میرا لن میری پینٹ کے اندر کیا اور میری پینٹ کی زپ آہستہ سے بند کر دی۔ پھر وہ بیڈ پر جا کر لیٹ گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔



میں نے دیکھا کہ مس کی شلوار اوپر سے گیلی ہو رہی تھی۔ پھر کچھ دیر کے بعد مس بیڈ سے اٹھیں اور کہنے لگیں کہ تم کسی کو کچھ نہیں بتاؤ گے تو میں تمہیں اور بھی کچھ سکھاؤں گی۔ میں نے مس فوزیہ سے یہ سب راز رکھنے کا وعدہ کیا۔



پھر مس فوزیہ نے اگلے دو دن سب کچھ ویسے ہی کیا۔ پہلے وہ مجھے اپنے جوتے، موزے اور پاؤں کی خوشبو سونگھواتی اور پھر میرے لن کے سخت ہونے پر اس کی کریم پی جاتی۔ اب مجھے بھی ان کے جوتوں اور پاؤں کی خوشبو سے پیار ہو گیا تھا اور میں یہ سب بغیر کہے کرنے لگا۔ لیکن آج اس نے آخر میں کہا کہ کل اپنے گھر کہہ کر آنا کہ تمہیں امتحان کی تیاری کروانی ہے اور تم کل دیر سے گھر جاؤ گے۔ پھر اس نے اپنے باقی طالب علموں کو کل کی چھٹی دے دی۔



اگلے دن جب میں مس فوزیہ کے گھر پہنچا تو وہ پہلے سے ہی گھر پر موجود تھیں۔ اس نے نیا سوٹ پہن رکھا تھا اور میک اپ بھی کیا ہوا تھا۔ وہ کیا بلا کی خوبصورت لگ رہی تھی، بالکل کانچ کی گڑیا، اتنی خوبصورت کہ میں آپ کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔



اس نے آج میرا بہت ہی پیار سے استقبال کیا اور میرے ہاتھ سے میرا اسکول بیگ لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور کہا کہ عمران، تم جلدی سے ہاتھ منہ دھو کر فریش ہو جاؤ، میں نے تمہارے لیے بہت مزے کا کھانا بنایا ہے۔ میں تو پہلے ہی حیران تھا، اب مس فوزیہ کی باتیں سن کر اور حیران ہو گیا۔ خیر، میں نے ویسا ہی کیا جیسا مس فوزیہ نے کہا۔



کھانا واقعی بہت مزے کا تھا اور فوزیہ نے بڑے پیار سے اور اپنے ہاتھوں سے مجھے کھلایا۔ کھانے کے بعد وہ میرے لیے مینگو ملک شیک لے آئی اور اس نے اپنے ہاتھوں سے وہ مجھے پلایا۔



پھر ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں مس فوزیہ نے کہا کہ عمران، میں نے کہا تھا نہ کہ میں تمہیں کچھ اور بھی سکھاؤں گی، تو آج اس کا وقت آ گیا ہے۔ پھر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بیڈ روم میں لے گئی اور اندر جا کر اس نے مجھے بیڈ پر بٹھایا اور خود جا کر سی ڈی پلئیر میں کوئی سی ڈی ڈالی اور ٹی وی آن کر کے میرے پاس بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی۔



ٹی وی پر اب ایک انگریزی مووی آن ہو گئی۔ اب مس فوزیہ نے کہا کہ عمران، اس مووی کو غور سے دیکھو اور اس میں جو جو ہوتا جائے، تم بھی ویسے ویسے کرتے جانا۔



میں نے ہاں مس کہا اور مووی دیکھنے لگا۔ مووی میں ایک شخص ایک لڑکی کے گھر جاتا ہے۔ جب وہ اندر بیڈ روم میں جاتا ہے تو لڑکی بیڈ پر بے ہوش پڑی ہوتی ہے۔ وہ پہلے اسے غور سے دیکھتا ہے، پھر وہ اس کے پاؤں کے پاس بیٹھتا ہے اور اس کے جوتے اتارتا ہے اور اس کے جوتوں کو اچھے طریقے سے سونگھتا ہے۔ جب میں یہ دیکھ رہا تھا تو مس فوزیہ نے اپنے جوتے میرے آگے کر دیے، جو میرے خیال میں انہوں نے صبح سے ہی پہنے ہوئے تھے۔



میں نے بھی ان کے جوتے اتارے اور انہیں اپنے چہرے پر رکھ کر سونگھنے لگا۔ پھر اس شخص نے اپنے دانتوں سے اس لڑکی کے موزے اتارے اور اس کے پاؤں پر اپنی زبان پھیرنے لگا اور اس کی ایک ایک انگلی کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ اب مس فوزیہ کے ساتھ بھی میں نے ایسا ہی کیا۔ اب وہ شخص اٹھا اور اس نے اس بے ہوش لڑکی کے کپڑے اتارنے شروع کر دیے۔ جب میں نے یہ سین دیکھا تو میری حالت عجیب ہو گئی کیونکہ اس سے پہلے میں نے ایسی فلم کبھی نہیں دیکھی تھی۔



اور پھر مجھے شرم بھی آ رہی تھی کہ میں اپنی ٹیچر کے کپڑے کیسے اتاروں۔ اسے نوٹ کرتے ہوئے مس فوزیہ نے کہا کہ ڈرو نہیں، ویسا ہی کرو جیسا وہ کر رہا ہے، میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گی۔



میری کچھ ہمت بندھی اور میں اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے مس فوزیہ کی شرٹ کی طرف بڑھا اور ڈرتے ڈرتے آہستہ آہستہ میں نے ان کی شرٹ اتار دی۔ اوف! کیا خوبصورت جسم تھا ان کا، دودھ سا گورا بدن جس پر سڈول اور ابھرے ہوئے چھاتیوں کو سیاہ برا نے قید کیا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر میرا لن مکمل طور پر سخت ہو گیا۔



اب اس شخص نے مووی میں اس لڑکی کا برا اتارا اور اس کے چھاتیوں کو چوسنے لگا۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو مس فوزیہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ پھر کچھ محنت کے بعد میں نے ان کا برا اتار دیا۔ محنت اس لیے کہ ایک تو یہ میرا پہلا تجربہ تھا اور دوسرا برا کا ہک مجھ سے نہیں کھل رہا تھا۔



جیسے ہی برا اتارا، اوف! دنیا کے سب سے خوبصورت چھاتی میرے سامنے تھے۔ میرے خیال میں ان کا سائز 36 ہوگا، لیکن کیا سڈول، ہیڈلائٹ کی طرح کھڑے اور اس پر ان کے گلابی نپل۔ اوف! میں تو یہ دیکھ کر ہی پاگل ہوا جا رہا تھا۔



اب میں نے بھی اس شخص کی طرح دونوں ہاتھوں میں فوزیہ کے چھاتی پکڑ کر انہیں چوسنا شروع کیا۔ اوف! کیا زبردست ذائقہ تھا ان کا، میں تو اس مزے کا 10 فیصد بھی یہاں ٹھیک طرح بیان نہیں کر پا رہا۔



میرے اس طرح کرنے سے مس فوزیہ تڑپ اٹھیں اور ان کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگیں اور وہ میرے سر کو اپنی چھاتیوں پر دبانے لگیں۔ میں نے ایسا تقریباً 15 منٹ کیا۔



پھر اس مووی والے شخص نے اس لڑکی کی بیلٹ کھول کر اس کی جینز نیچے کر دی اور اپنا منہ اس کی پھدی پر رکھ کر چوسنے لگا۔ اب مس فوزیہ نے میری حالت دیکھتے ہوئے خود اپنی شلوار کا نالا کھول دیا اور اسے ہلکا سا نیچے کر دیا۔ یہ دیکھ کر میری ہمت بڑھی اور میں نے ان کی شلوار کھینچ کر نیچے کر دی۔ اوف! کیا خوبصورت نظارہ تھا، دودھ سے گوری اور گلابی ہونٹوں والی پھدی۔ آج مجھے لگ رہا تھا کہ میں دنیا کا خوبصورت ترین انسان ہوں۔ پھر میں اپنا منہ ان کی پھدی کے پاس لے گیا۔ اوف! ان کی پھدی سے کیا خوبصورت خوشبو آ رہی تھی۔



میں نے اپنی زبان ان کی پھدی کی باہر والی جلد پر پھیرنی شروع کی تو وہ ایک دم اچھل پڑیں اور ساتھ ہی بیڈ پر سیدھی لیٹ کر اپنے گھٹنوں کو موڑ کر اپنی ٹانگیں کھول دیں۔ اب ان کی گلابی پھدی مجھے صاف نظر آ رہی تھی۔ میں نے اپنے ہونٹ ان کی پھدی کے ہونٹوں سے ملا دیے۔ ان کی پھدی پہلے ہی بہت گیلی ہو رہی تھی۔ مجھے ان کی پھدی کا جوس بہت لذیذ لگا اور میں ان کی پھدی چوسنے اور چاٹنے لگا۔



اب انہوں نے بھی میرا سر اپنے ہاتھوں سے اپنی پھدی میں دبانا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ اپنی کمر کو بھی اوپر نیچے ہلانا شروع کر دیا۔ اور کچھ ہی دیر بعد ان کی پھدی سے زور دار فوارہ نکلا اور میرا منہ ان کے لذیذ کم سے بھر گیا، جس کا ایک قطرہ بھی ضائع کیے بغیر میں سارا پی گیا۔



وہ کچھ دیر مچھلی کی طرح بیڈ پر تڑپتی رہیں۔ پھر وہ میرے پاس آئیں اور مجھے اپنی بانہوں میں کس کر پکڑ لیا اور میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگیں اور میرے گالوں اور گردن پر دیوانوں کی طرح بوسہ کرنے لگیں اور کہنے لگیں، عمران، میں پیاسی ہوں، میری پیاس بجھا دو پلیز۔



پھر فوزیہ نے میرے کپڑے اتارنے شروع کیے اور اگلے ہی لمحے اس نے میرے سارے کپڑے اتار دیے۔ اب ہم دونوں بالکل ننگے تھے۔ اس نے میری چھاتی پر اپنی زبان پھیرنی شروع کی تو مجھے لگا کہ میرا لن آج سخت ہوتے ہوتے پھٹ جائے گا۔



پھر اس نے میرا لن تھوڑی دیر چوسا اور فوراً بیڈ پر سیدھی لیٹ گئی اور کہنے لگی کہ عمران، تم اپنا لن میری پھدی کے سوراخ پر رکھ کر دور کا دھکا مارنا اور ہاں، اگر میں چیخوں یا تمہیں روکوں تو نہ رکنا۔



میں نے ویسا ہی کیا جیسا فوزیہ نے مجھے کرنے کو کہا تھا۔ میں پہلے تو اس کی ٹانگوں کے بیچ میں آ کر اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ پھر میں نے اس کی پھدی کے سوراخ پر اپنا لن رکھا اور فوزیہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اس کے سر کے پاس لے آیا۔ اب میں نے اپنے لن کو آہستہ آہستہ اس کی پھدی کے باہر رگڑنا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے میرا لن اس کی پھدی سے رگڑ کھاتا جاتا، وہ نشے میں ڈوبتے جاتی۔



پھر میں رکا اور میں نے اپنا لن مس فوزیہ کی پھدی پر رکھ کر اپنی پوری طاقت سے جو دھکا مارا تو کمرے میں مس فوزیہ کی ایک زور دار چیخ گونج گئی اور میرا لن ان کی پھدی کو پھاڑتا ہوا پھدی کی گہرائیوں میں اتر گیا۔



ان کی چیخ سن کر میں چند سیکنڈ کے لیے رکا تو دیکھا کہ فوزیہ کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں۔ ساتھ ہی جب میرا دھیان مس فوزیہ کی پھدی پر گیا تو دیکھا کہ مس فوزیہ کی پھدی سے خون نکل رہا ہے جو کہ میرے لن پر بھی لگا ہوا ہے۔



میں کچھ ڈر سا گیا، لیکن مس فوزیہ نے کہا کہ ڈرنے کی بات نہیں، تم بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے ٹشو نکالو۔ میں نے سائیڈ ٹیبل سے ٹشو نکال کر ان کی پھدی سے خون صاف کیا اور مس فوزیہ کے ہونٹوں پر بوسہ دیا۔ انہوں نے بڑھ کر مجھے جپھی ڈال لی اور کہا کہ آئی لو یو عمران، آئی لو یو سو مچ، تم وہ پہلا مرد ہو جس نے میری سیل کھولی ہے۔



میں نے پھر اپنا لن ان کی پھدی میں ڈالا۔ پہلے تو چند منٹ انہیں درد ہوتا رہا، پھر مزا درد پر غالب آ گیا اور وہ مجھے اور میں انہیں مزا دینے لگا۔ تقریباً 45 منٹ مسلسل جھٹکے مارنے کے بعد مجھے پھر سے اپنے لن میں سے کچھ نکلتا ہوا محسوس ہوا اور میں نے اپنی رفتار اور تیز کر دی۔ کچھ ہی دیر کے بعد میں اور فوزیہ تیسری بار میرے ساتھ ہی ڈسچارج ہوئے۔



ہم ایک دوسرے کی بانہوں میں لیٹے ایک دوسرے کو بوسہ کرتے رہے۔ اس دن ہم نے دوپہر 2 سے رات 8 بجے تک کوئی 4 بار سیکس کیا۔ فوزیہ مجھ سے چدوانے کے بعد اتنی خوش تھی کہ میں بتا نہیں سکتا۔



پھر ہم نے ساتھ میں رات کا کھانا کھایا، اپنے اپنے کپڑے پہنے اور کسی کو کچھ نہ بتانے اور آئندہ بھی سیکس انجوائے کرتے رہنے کے وعدے کے ساتھ جدا ہو گئے۔
 
Back
Top