کافی دن گزر گئے لیکن دور بین پر مجھے کوئی قابل ذکر معاملہ نظر نہ آیا۔ حالات میں کچھ تبدیلی آگئی لوگ تنگ آکر گھروں سے باہر آنے لگے تھے اشیائے خود رونوش کی ضرورت نے لوگوں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ کرونا کا خوف بھلا کر پیٹ بھرنے کا سامان کریں۔ عجیب کی افراتفری اور چل چلاؤ کی فضا بن گئی تھی ایسے میں مجھے بھی تنہائی کا احساس زیادہ ہی ستانے لگا۔ اپنے فلیٹ میں زیادہ وقت گزارنے اور دور بین پر دوسروں کا سیکس دیکھنے سے مجھے سیکس کی شدید طلب ہونے لگی تھی۔ ابتداء میں خودلزتی سے وقت گزرتا رہا لیکن آہستہ آہستہ کسی دوسرے وجود کی شدت سے ضرورت محسوس ہونے لگی۔ عام حالات میں میرا معیار بہت الگ تھا اور میں صرف اپنی پسند کی صنف نازک سے ہی جذبات کو مطمن کرنے کا کھیل کھیلتا تھا لیکن آجکل جس قسم کے حالات چل رہے تھے ان میں بس مجھے ایک وجود چاہیے تھا جو جذبات نکالنے میں میری مدد کر دیتا۔
اُس دن میں صبح سے ہی فلیٹ سے باہر دسویں منزل کی گیلری میں کھڑا ادور نیچے تک آتے جاتے لوگوں کا نظارہ کر رہا تھا۔ سو سے زیادہ فلیٹ اس بلڈنگ میں تھے اور اتنے ہی گھرانے بھی آباد تھے۔ لیکن ماحول ایسا تھا کہ سب اپنے کام سے کام رکھتے ۔ مجھے بہت سے لوگ جانتے تھے اور میری کافی عزت بھی کرتے تھے اس لئے میں بھی شرافت کا پتلا بن کر اس سوسائٹی میں زندگی گزار رہا تھا جب بھی مجھے طلب ہوتی تھی میں اپنے گھر سے دور کسی کردار کا انتخاب کر کے وقت گزاری کرتا تھا جو ان حالات میں مجھے مشکل لگ رہا تھا۔ سیکس کی طلب اتنی شدید ہورہی تھی کہ میرا جسم اکڑ چکا تھا اور کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ گیلری میں کھڑے جب بھی کوئی لڑکی نظر آتی میں محروم نگاہوں سے اُس کو دور تک دیکھتا رہتا۔ کچھ جانے پہچانے چہرے بھی نظر آئے لیکن اپنی عزت اور ساکھ برقرار رکھنے کیلئے میں سوسائٹی میں کوئی بھی رسک لینے کو تیار نہیں تھا۔
میں سامنے کے فلیٹس کی گیلریز میں کھڑے اکا دکا لوگوں کو دیکھ رہا تھا جب اچانک میرے ساتھ کے فلیٹ کا دروازہ کھلا۔ میں نے چونک کر ادھر دیکھا تو گھر سے آنٹی شمیم برآمد ہوئیں۔ ایک بھاری بھر کم فیملی کی بھاری بھر کم عورت ۔ بھاری بھر کم فیملی اس لئے کہ آنٹی شمیم کے شوہر بھی کافی موٹے تھے اور وہ خود بھی لیکن جو موٹا پا خدا نے انکی بیٹی سلمی کو بخشا تھا پناہ ہی مانگی جا سکتی تھی۔ سلمی اُن کی اکلوتی بیٹی تھی لیکن پندرہ سال کی عمر میں ہی وزن دو سو کلو گرام سے بھی۔
تجاوز کر گیا تھا۔ پہلی بار جب میں نے سلمی کو دیکھا تھا تو اُس کا پیچھے کو نکلا ہوا پچھواڑا دیکھ کر بے اختیار میرے منہ سے نکلا تھا اتنا بڑا ۔ اور جب وہ چلتی تھی تو زمین تو دھل ہی جاتی تھی پیچھے کو نکلی ہوئی گوشت کی دکان بھی جھولنے لگتی تھی۔ بالکل چکی والے دینے کی طرح جیسے اسکی چکی پیچھے براتی تھی ویسے ہی سلمی کی گانڈ کا منظر ہوتا تھا۔ سلمی کی نسبت آئی شمیم کا پچھواڑا کم تھا لیکن موٹاپے نے انہیں گول مٹول بنا دیا ہوا تھا کوئی نسوانی حسن نام کی کوئی چیز ان میں نہیں تھی اور اکثر آنی شمیم اور اُن کے شوہر کو اکٹھے دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ یہ دونوں سیکس کیسے کرتے ہوں گے۔ دونوں کے باہر نکلنے پیٹ اور پھولا ہوا جسم ۔ سیکس کے دوران نا جانے کون کی پوزیشن میں ان کا کام مکمل ہوتا ہوگا۔ اور سلمی کو جب پچھلی بار میں نے دیکھا تھا تو سوچ میں پڑ گیا تھا کہ اگر کسی نے اس سے شادی کر لی تو اُس کے پاس کم از کم ایک فٹ بڑا ان ضرور ہونا چاہیے۔ کیونکہ جتنی بڑی وہ گوشت کی دکان تھی منزل تک پہنچنے کے لئے انتالم بالن ضروری تھاور نہ راستے میں ہی پھنس کر رہ جاتا۔ اور اگر کسی نے اسکی گانڈ مارنے کی کوشش کی تو ایک فٹ کا لن تو اسکی گانڈ کے سوراخ تک بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ آسان لفظوں میں عام نارمل انسان کے بس کی بات نہیں تھی کہ وہ سلمی کو کسی بھی سوراخ سے چود سکتا سوائے مند کے ۔۔ یا اُس کے بھاری بھر کم دس دس کلو کے مموں کے درمیان لن کی سلائیڈنگ سے منی خارج کی جاسکتی تھی۔
آئی ٹیم جیسے ہی ہاتھ میں سودا سلف لانے والا تھیلا لے کر باہر نہیں مجھ پر انکی نظر پڑی۔ میری بلا ئیہ ائیں لیتی بیٹا بیٹا کہتی سیدھی میری پاس آگئیں۔ مجھے لگا مجھے سو دا لانے کو کہیں گی لیکن میری اچھی بھلی خود آ مد نما تعریف کے بعد انہوں نے التجا کے انداز میں پوچھا۔
بیٹا ! تمہارا اے سی تو چل رہا ہے نا۔
جی خالہ ( میں اُن کو ادب سے خالہ ہی کہتا تھا )
ہمارا اے سی خراب ہو گیا ہے۔ سلمی کے پاپا مکینک کو لینے گئے ہیں پتہ نہیں مکینک ملتا ہے یا نہیں اور مجھے بازار سے سودے لینے بھی جانا ہے تو تم تھوڑی زحمت اٹھاو گے؟ ( وہ ایک ہی سانس میں سب بول گئیں )
جی خالہ ! آپ حکم کریں (میں نے پوری تابعداری سے جواب دیا )
تمہیں تو پتہ ہے سلمی کو بہت گرمی لگتی ہے اگر تم اجازت دو تو اسے تمہارے فلیٹ میں چھوڑ جاؤں ۔ واپس آتے ہی اُسے لے جاؤنگی۔ ویسے بھی اُسے اکیلے گھر میں ڈر لگتا ہے تمہارے ساتھ اس کا وقت اچھا گزر جائے گا۔( وہ اپنی بات مکمل کر کے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگیں)
آنٹی کی بات نے میرے پاؤں تلے سے زمین نکال دی۔ کہاں میں کسی معقول لڑکی کی تلاش میں تھا اور کہاں یہ کھانے والی بلا میرا دن خراب کرنے لگی تھی ۔ جی ہاں ! اس سے پہلے تین دفعہ میں یہ عذاب جھیل چکا تھا آنٹی اُس کو میرے فلیٹ میں چھوڑ کر گئی تھیں اور اُس نے وہ سارا وقت میری فرج خالی کرنے میں ہی صرف کیا جتنی دیر وہ میرے گھر رہی۔ ویسے بھی میں اُسے دیکھ کر ہی گھبرا جاتا تھا اگر وہ زمین پر گر جائے تو خود سے اٹھ نہیں سکتی تھی اور مجھ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ دو سو کلو کی لاش کو اٹھا سکتا لیکن مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق مجھے چارونا چار آنٹی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی پڑا۔
آنٹی نے ایک لمبی سانس بھری جیسے اُن کا کوئی بہت بڑا بوجھ اُتر گیا ہو میری شرافت کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے آنٹی نے فور اسلامی کو لا کر میرے فلیٹ میں ڈال دیا۔ وہ صوفے کی سنگل سیٹ میں فٹ نہیں آتی تھی اس لئے تین سیٹوں والے صوفے پر بیٹھایا گیا ۔ آنٹی نے اُسے چند ہدایات کیں کہ اچھے سے رہنا مجھے زیادہ تنگ نہ کرتا و غیر دوغیرہ اور خود خدا حافظ بول کر فرش ہلاتی میرے فلیٹ سے نکل گئیں۔
اُن کے جانے کے بعد جیسے ہی میں دروازہ لاک کر کے واپس مڑا اور میری نظر سلمی پر پڑی وہ میری طرف ہی دیکھ رہی تھی مجھ سے نظریں ملتے ہی وہ بے اختیار مسکرادی ۔ اپس کے چہرے کے نقوش برے نہیں تھے گوری رنگت تھی چہرہ گول اور پرکشش تھا گردن بھی معقول تھی لیکن اُس نے نیچے تو جیسے پالچل مچی ہوئی تھی۔ ایک دم سے شانوں سے وہ چوڑی ہو نا شروع ہوتی تھی اور کمر تک آتے پھیلتی ہی جاتی تھی میں نے اندازہ لگایا تھا کہ اسکی ایک ٹانگ کی موٹائی میرے پورے جسم کی سمارٹ نس کے برابر تھی۔ میں نے بے اختیار مسکرا کر اسکی مسکراہٹ کا جواب دیا۔ اور اسکی طرف آتے ہوئے پوچھا
چائے ۔۔ کافی ۔۔ کیا لوگی سلمی
کچھ بھی نہیں ۔ ( خلاف معمول آج اُس نے انکار کر دیا ) مین ڈائیٹنگ پر ہوں اس لئے بہت کم کھاتی ہوں آب۔ آپ دیکھ نہیں رہے میں پہلے سے کتنی کمزور ہوگئی ہوں ۔
میں سلمی کی بات سن کر اپنی ہنسی دباتے ہوئے اُس کے وجود کا وہ حصہ تلاش کرنے لگا جہاں سے وہ کمزور ہو چکی تھی۔ لیکن مجھے پہلے سے بھی زیادہ گوشت کا ارتکاز نظر آرہا تھا لیکن اسکا دل رکھنے کے لئے میں نے کہا بہت خوب ۔ ۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔۔ جان ہے تو جہان ہے ( دل میں سوچا یہ تو جہان کی سب سے بھاری جان ہے ) انسان کو اپنی صحت کا کو د خیال رکھنا چاہیے۔
چند روایتی باتوں کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ سلمی اب سمجھ رہی ہے۔ وہ بڑی تمیز سے ادبی لہجے میں بات کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک دوسری کا حال احوال پوچھنے کے بعد میں کچن میں چلا گیا مجھے کافی کی طلب ہو رہی تھی میں نے سلمی کے لئے بھی بنالی۔ اور جب اُسے پیش کی تو اُس نے خندہ پیشانی سے قبول کر لی ۔ ہم خاموشی سے کافی پینے لگے۔ میں کن اکھیوں سے اُسکے جسم کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ قدرت نے بھی دل کھول کر ماس اس لڑکی پر وار دیا تھا نسوانی حسن تو دور حسن نام کی کوئی بھی چیز اس کے جسم میں نہیں تھی بس چہرہ حسین تھا اور جیسے جیسے وہ جوان ہو رہی تھی اسکے چہرے پر نکھار آ رہا تھا۔ چہرہ کی جلد صاف اور چمکدار تھے ناک چہرے پر چھتی تھی آنکھیں تھوڑی باریک تھیں۔ بال گھنے اور سیاہ تھے ۔ گردن تک سب ٹھیک تھا گردن سے نیچے نظر پڑتے ہی مجھے اندازہ لگانا مشکل ہو گیا کہ اُس کے مموں کا سائز کیا ہو گا۔ اُس کے بڑے پھیلے ہوئے پیٹ پر مموں کے ابھار بہت بڑے لگ رہے تھے اور اسکا بریز مر بھی اسپیشل ہی ہوگا کیونکہ اتنا بڑا نارمل حالت میں تو مل بھی نہیں سکتا۔ میرے ذہن میں باتوں کی حد تک تجس پیدا ہونے لگا تھا سلمی کے جسم کو لے کر۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اسکی کم عمری اور ہمسائیگی کی لاج بھی رکھنی تھی۔
مجھے خود کو کن اکھیوں سے دیکھتے شاید اس نے محسوس کر لیا تھا۔ وہ تھی تو پندرہ سال کی لیکن دیکھنے میں بہت بڑی عورت لگتی تھی۔ ذہین اتنی نہیں تھی کیونکہ اکثر ریاضی کے سوال مجھ سے سمجھنے کے لئے مجھے گھر بلاتی تھی اور ایک سوال گھنٹوں بعد بھی جب اُسے سمجھ نہیں آتا تو رٹنے بیٹھ جاتی ۔ یاداشت تیز ہونے کی وجہ سے اُسے ہر سبق رہنا آسان لگتا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں ہی نہیں وہ بھی مسلسل مجھے گھور رہی ہے۔ اور زیر لب مسکرارہی ہے۔ مجھے اسکا یہ رویہ کچھ عجیب لگ رہا تھا لیکن میں نے اسے اپنا و ہم سمجھ کر جھٹک دیا۔
اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں وہ پر سکون بیٹھی تھی اور میں مصروف رہنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا تا کہ وقت بیت جائے اور سلمی اپنے گھر چلی جائے وہ جب تک یہاں تھی میرے ذہن پر بوجھ رہنا تھا۔ لیکن سلمئی کو جیسے بہت سکون مل رہا تھا میرے گھر آ کر ۔ کافی کے بعد میں نے اُسے کچھ پھل پیش کئے لیکن اُس نے واقعی کھانے سے انکار کر دیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ چلو اس بہانے سہی میری فرج تو محفوظ رہے گی ۔ کچھ دیر خاموشی میں گزرگئی میں کبھی کچن میں کبھی دوسرے کمروں میں چکر لگا تا رہا۔ مجھے بوریت کے ساتھ ساتھ اب عجیب سی الجھن بھی ہونے لگی تھی۔ سیکس کے جو جذبات مجھے پریشان کرنے لگے تھے وہ سرد پڑ گئے تھے۔ اور ہلکا ہلکا سر درد ہونے لگا تھا۔ اپنے آپ کو نارمل رکھنے کی میں پوری کوشش کر رہا تھا جب اچانک سلمی نے مجھے مخاطب کیا۔
بھائی جان ! ( وہ مجھے بھائی جان کہہ کر ہی پکارتی تھی ) مجھے ایک بات پوچھنی ہے۔ آپ برا تو نہیں مانو گے؟
میں نے دل میں سوچا کہ تمہیں پاس رکھنے سے زیادہ برا کیا ہوگا )
بلا جھک بولی ۔ کیا پوچھتا ہے؟
آپ اکیلے رہتے ہو؟ کیلئے کیوں رہتے ہو؟
میں نے اسے بتایا کہ میری فیملی پنجاب میں ہے اور میں جاب کی وجہ سے یہاں رہتا ہوں لیکن اُس نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔
وہ میں جانتی ہوں ۔ میرا مطلب تھا کہ آپ نے شادی کیوں نہیں کی ؟
اور میں نے یہاں غلطی کر دی۔۔ میں نے از رائے مذاق کہہ دیا۔
کیا کروں سلمی ؟ مجھ سے کوئی لڑکی شادی ہی نہیں کرتی ۔۔ کیا تم کرو گی مجھ سے شادی؟
بوریت دور کرنے کے لئے یا وقت گزاری کی خاطر نا جانے کیسے میں نے یہ بات کہہ دی )
وہ شرم سے سرخ ہوگئی اور ایک لمحے کو آنکھیں جھکانے کے بعد پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
آپ مذاق اچھا کر لیتے ہیں بھلا آپ جیسے ہینڈ سم نو جو ان سے کون سی لڑ کی شادی نہیں کرنا چاہے گی۔
تو کیا تم مجھ سے شادی کرنے کو تیار ہو سلمی؟
میں نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔ میرے ذہن میں اپنا تجس مٹانے کا ایک طریقہ آگیا تھا۔ میں سلمی کے جسم کو
دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن جیسے میں دیکھنا چا ہتا تھا نہیں معلوم مسلمی راضی ہوتی یا نہیں۔ لیکن میں نے کوشش شروع کر دی تھی ) میری بات سے وہ اور زیادہ شرما کر سمٹنے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس کا بھاری بھر کم جسم سمٹ کر جاتا بھی تو کہاں جاتا۔
مجھے شادی نہیں کرنی ہے بھائی جان ۔ مجھے اکیلا رہنا ہی پسند ہے ۔ ( اُس نے شرماتے ہوئے نظریں جھکا کر جواب
دیا ) اور میں نے بھی دل ہی دل میں ہنس کر کہا کہ میں نے کب تم جیسی گوشت کی دکان سے شادی کر لیتی ہے مجھے تو
بس تمہارے جسم کے پیر پارٹ دیکھنے سے مطلب ہے۔
تو پھر مجھے بھی اکیلا رہنا ہی پسند ہے اس لئے مجھے بھی شادی نہیں کرنی۔
میری بات سن کر وہ خاموش ہو گئی اور کچھ سوچنے لگی۔ میں بغور اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا اور مجھے لچک اور
امید دونوں نظر آنے لگی تھیں کہ کام ہو جائے گا مسلمی کوشیشے میں اتارا جا سکتا تھا۔
اس نے کچھ کہنے کے لئے لب ہلائے لیکن پھر رک گئی۔ میں نے خود ہی پوچھ لیا۔
چپ کیوں ہوگئی ؟ بولو۔۔ کیا کہنے لگی تھی۔
میں اتنی موٹی ہوں ( اُس نے لرزتی آواز میں کہا مجھے بھلا کون پسند کرے گا۔ مجھ سے کون شادی کرے گا۔ آپ بھی مذاق کر رہے ہو میں جانتی ہوں۔
ایسی بات نہیں ہے سلمی ! تم بہت خوبصورت ہو۔ اتنی سیکسی ہو ( بے اختیار میرے منہ سے سیکسی کا لفظ نکل گیا )
وہ مجھے چونک کر دیکھنے لگی جیسے اپنے میری بات کا یقین نہ ہو۔
سیکسی ۔۔ (اُس کے زیر اب مجھے یہ لفظ سنائی دیا )
ہاں سلمی ا تم بہت سیکسی ہو۔ تم میں کشش ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ ۔۔ ( میں جان بوجھ کر ادھوری بات کر کے رک گیا )
سلمی نے مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے زور دینے والے انداز میں پوچھا۔
کہ کیا ؟ کیا دل کرتا ہے آپ کا ؟ بتائیے نا۔
میرا دل کرتا ہے کہ میں ۔۔۔۔ دیکھو۔ تم مجھے غلط مت سمجھنا۔۔ یہ میرا پیار ہے تمہارے لئے میری چاہت ہے۔۔
میرا ارادہ غلط نہیں ہے۔۔ ( میں نے سلمی کو اور تجس میں ڈالتے ہوئے کہا ) اور وہ واقعی بے چین ہوگئی اور جاننے کے لئے اصرار کرنے لگی کہ میں کیا چاہتا ہوں ۔۔
آپ مجھے کھل کر بتاو ۔ ۔ آپ کا دل کیا چاہتا ہے؟
کیا تم میری بات مانو گی ؟
کیوں نہیں؟ میں آپ کی ہر بات مانونگی۔۔ آپ مجھے کتنے اچھے لگتے ہو آپ نہیں جانتے۔۔ آپ کہو جو کہتا ہے۔
میری باتوں سے وہ لائن پر آرہی تھی لیکن میں اُسے اور پکا کرنا چاہتا تھا۔
پہلے وعدہ کرو ۔ یہ بات ہم دونوں کے درمیان ہی رہے گی۔۔ اور وعدہ کرو تم وہ کرو گی جو میں کہونگا۔
اُس نے مجھے مسکرا کر پیار سے دیکھا جیسے وہ میرا ارادہ سمجھ رہی ہو۔
آپ بے خوف بولوں میں وعدہ کرتی ہوں میں نہ کسی کو کچھ بتاؤنگی اور نہ آپ کی کسی بات سے انکار کرونگی۔
سلمی کے اقرار نے میرے دل میں بہت سی باتوں کو بیدار کر دیا تھا۔ پہلے میر انجس تھا کہ میں اسکے جسم خاص کر اس کے ممے اور گانڈنگی دیکھوں ۔ لیکن اُسکے جواب سے میرا دل بہت کچھ اور بھی سوچنے لگا تھا۔
میں نے اتنا بڑا پچھواڑا ۔ ۔ اتنے بڑے تھے ۔ کبھی نہیں دیکھے تھے ۔۔ اور اب تو میرا دھیان سلمی کے ٹانگوں کے درمیان بھی جار ہا تھا۔ صوفے پر جیسے وہ ٹانگیں بسارے بیٹھی تھی میری نظر اس جگہ بار بار جارہی تھی جہاں اسکی گوشت کی دکان میں کہیں ایک چھوٹا سا سوراخ بھی تھا۔
مجھے سوچتے دیکھ کر اور خاموش گھورتے دیکھ سلمی کی بے چینی بڑھنے لگی تھی۔ اُس نے ایک بار پھر مجھے مخاطب کرتے کہا کہاں کھو گئے آپ؟ آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے؟
میر اول کیا چاہتا ہے یہ میں بعد میں بتاؤ نگا۔ پہلے تم مجھے کچھ سوالوں کے جواب دو۔
میں نے آب سلمی کو پہلے چینی طور پر سیکس کے سارے کھیل کے لئے تیار کرنے کا منصوبہ بنالیا تھا تا کہ مجھے کوئی دقت پیش نہ آئے۔
جی پوچھیں ۔۔ (اُس نے سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا )
کیا تمہیں سیکس کا مطلب پتہ ہے؟ ( میں نے بلا جھک سوال کر دیا ) لیکن وہ شاید تیار نہیں تھی شرم سے لال ہو گئی اور کچھ لمحے اُسے بولنے کے لئے الفاظ نہیں ملے ۔ اُس نے سر کو ہلا کر مجھے ہاں میں جواب دیا۔
کیا ہوتا ہے سیکس؟ مجھے بھی بتاؤ۔
نہیں ( وہ چونک کر بے اختیار بولی ) مجھے شرم آتی ہے۔۔ آپ ایسی باتیں نہ کریں نا۔
اُسکی بات سن کر میں خاموش ہو گیا۔ اور منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔ لیکن مجھے اسکی کیفیت کا اندازہ ہورہا تھا۔ وہ اور زیادہ بے چین ہو رہی تھی۔
کیا ہوا ؟ آپ نے منہ کیوں پھیر لیا ؟
تو اور کیا کروں؟ ( میں نے بناوٹی غصے سے کہا ) ابھی تو تم میری ہر بات ماننے کو تیار تھیں ۔ وعدہ کیا تھا تم نے۔
وہ میری بات سن کر لمبی آہ بھر کر بولی۔
مجھے معاف کر دیں ۔ بس آپ ناراض مت ہوں۔ میں کوشش کرتی ہوں جواب دینے کی؟
میں واپس اسکی طرف منہ موڑ کر سوالیہ نگاہوں سے اسکی طرف دیکھنے لگا لیکن مجھ سے نظریں ملتے ہی اُس نے سر جھکا لیا اسکی آواز لرزتی ہوئی ابھری۔
میں نے سائنس میں پڑھا تھا۔۔ جب ایک میل اور ایک فی میل ملتے ہیں تو اُن کے درمیان جو ہوتا ہے۔۔
وہ اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی لیکن اسکی چہرے کی گوری رنگت سرخ ہو رہی تھی۔
اچھا۔ تو پھر تمہیں باڈی پارٹس کے نام بھی آتے ہوں گے؟
جی ۔ وہ تو میں نے پہلی کلاس میں ہی سیکھ لئے تھے۔۔ (وہ نظریں اٹھا کر بولی )
تو بتاو ۔۔ جو تمہاری چھاتی کے اوپر دو بڑے بڑے گول جسم میں انہیں کیا کہتے ہیں؟
میری آواز میں شرارت تھی لیکن سلمی کی حالت خراب ہو رہی تھی ۔ ۔ شرم سے وہ پانی پانی ہوئی جارہی تھی ۔۔ مجھے اس پر ترس آنے لگا تھا اور ایک لمحے کو میں نے سوچا بھی کہ جانے دو۔۔ ایسی باتیں کر کے کیا لینا لیکن مسلمی کے جواب نے
مجھے حیران کر دیا۔
آپ بریسٹ کی بات کر رہے ہیں۔۔
اُردو میں نام بتاو۔ ( میں نے جھڑ کنے کے انداز میں کہا )
اُردو میں ۔ تو مجھے نہیں معلوم ۔۔ آپ بتا دو۔۔ اُس نے الٹا مجھ سے پوچھ لیا۔
میں ہنسا اور بولا ۔۔ انہیں مجھے کہتے ہیں ۔۔ اور جو مجھے کے اوپر نیل نما حصہ ہوتا ہے اُسے پستان کہتے ہیں۔ ( مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ سلمی کی بھجھک وقت برباد کرے گی اس لئے میں نے خود ہی سب بولنا شروع کر دیا ) اور جو تمہاری ٹانگوں کے درمیان ناف کے نیچے والا حصہ ہے اُسے چوت بھی کہتے ہیں اور پھدی بھی۔ اور جو میری ٹانگوں کے درمیان ہے اُسے لن یا لوڑا کہتے ہیں۔ اور میں سانس لینے کے لئے رکا تو سلمی مسکرا کر سر جھکائے سب سن رہی تھی )
میرے اور کے بعد خاموش ہونے کے ایک لمحے بعد ہی وہ سوالیہ انداز میں بولی ۔۔ اور ؟
اور مجھے یہ جان کر اطمینان ہوا کہ اسے یہ سب اچھا لگ رہا تھا۔
اور بہت کچھ ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں ۔ تم اپنی آنکھوں سے سب دیکھو اور محسوس کرو۔
میرا یہ دار کام کر گیا۔ مسلمی تجس کی لپیٹ میں پہلے ہی آچکی تھی اور اب اسکی نگاہوں میں سوال تھے کہ وہ یہ سب جاننا چاہتی ہے۔
مگر کیسے ۔ ۔ ؟ میں کیسے دیکھ سکتی ہوں؟ کیا آپ کے پاس تصاویر ہیں ان سب کی ؟
میں نے اسکی بات سن کر ماتھے پر ہاتھ مارا اور بولا ۔۔
بہت معصوم ہو تم بھی ۔۔ اس کے لئے ایک لڑکی کی ضرورت ہے جو تم ہو ۔۔ ایک لڑکے کی ضرورت ہے جو میں ہوں۔
بس تم تھوڑی دیر کے لئے اپنی شرم بھجھک اتار کر ایک طرف رکھ دو ۔ اب اگر اجازت دو تو میں تمہارے پاس آجاؤں ( یہ سب کرنے کے لئے ہمارا قریب ہونا ضروری تھا اس لئے میں نے اور وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور سیدھا مدعے پر آ گیا وہ پہلے کچھ مجھکی لیکن پھر مجھے پاس آنے کا سر ہلا کر اشارہ کر دیا۔ میں جس صوفے پر وہ بیٹھی تھی اُس کے سامنے پڑے میز پر بیٹھ گیا۔ اب وہ میرے بالکل سامنے تھی اور خود میں سمٹنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔ مجھے اتنا قریب دیکھ کر شاید وہ اور زیادہ بے چین ہوگئی تھی اور اتنا قریب آکر میری بھی آنکھیں کھل گئی تھیں۔۔۔ دور سے جو جسم موٹا اور بے ڈنگھا دکھتا تھا پاس آکر پتہ چلا کہ وہ ایک پہاڑ کی مانند ہے اسکی ران کی موٹائی میری چھاتی کی موٹائی سے بھی زیاد تھی۔ میرے پاس آنے اور سامنے بیٹھنے کے بعد سلمی شرم کے مارے کچھ بول نہیں پارہی تھی ۔ کیا ہوا ۔۔ میرا قریب آنا اچھا نہیں لگا کیا ۔؟
نہیں تو ۔۔۔ بس اتنے قریب دیکھ کر کچھ ھبراہٹ ہو رہی ہے۔ ابھی سے گھبرا گئی۔۔ ابھی تو مجھے اور قریب آتا ہے۔۔ ایسے تو کام نہیں چلے گا۔ اور قریب ۔۔ اس سے بھی زیادہ قریب ۔۔ آپ کا اردہ کیا ہے بھائی جان؟ دیکھنے کا۔۔ اور دکھانے کا۔۔ چھونے کا۔۔ اور تم سے کچھ بیچ کروانے کا۔۔ آف ۔۔ (اُس کے منہ سے بے اختیار نکالا ) آپ اور کچھ تو نہیں کرو گے۔ اور ۔ مثلاً ۔۔ کیا ؟ ( میں سمجھنے کے باوجود انجان بن کر بولا )
وہی۔۔ جو میل اور فی میل کرتے ہیں ( اس نے نظریں اب مستقل جھکالیں تھیں ) اور میں اسکی بات پر دل ہی دل میں ہنس دیا۔ بھلا میں کہاں اُس کی پھدی یا گانڈ تک پہنچ سکتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ اُس سے لن چوسنے کا کام لے سکتا تھا وہ بھی اگر اسکا دل مان جاتا تو۔ ہوگا تو وہی سب ۔ لیکن یقین رکھو ایسا کچھ نہیں ہو گا جس سے تمہاری عزت خراب ہو میری اس بات سے سلمی حو صلے میں آگئی اور اس نے سر جھکائے ہی کہا۔ مجھے آپ پر پورا یقین ہے۔ لیکن مجھے کچھ پہی نہیں۔۔ میں نے پہلے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا۔۔ آپ بتاتے جانا میں کرتی جاؤنگی۔
وہ مان گئی تھی ۔۔ اور میرے لن میں اسکی اس بات سے تحریک آنے لگی تھی۔
مجھے جتنی سیکس کی طلب تھی ۔۔ کچھ نا ہونے سے یہ اچھا تھا۔ ۔ وہ اگر لن چوس کر فارغ کرا دیتی یا اُس کے مموں میں رکھ کر فارغ ہو جاتا میرے لئے اتنا بھی غنیمت تھا اور اتنے کے لئے وہ تیار تھی۔
کیا تم نے کبھی پہلے کسی کا لن دیکھا ہے اصل میں ؟ (میں نے اس کا تجس ابھارنے کے لئے پوچھا )
نہیں۔ اسکے منہ سے بس اتنی ہی آواز نکلی )
میرا دیکھوگی ۔۔ بلکہ تم پکڑ کر محسوس کر کے دیکھنا۔۔ بہت مزہ آئے گا
مجھے بہت شرم آرہی ہے۔۔ میں نہیں دیکھ پاؤں گی۔۔ ( وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی )
میرے پاس اس کا بھی حل ہے۔ تم آنکھوں پر پٹی باندھ لو ۔۔ نہ کچھ دکھے گا نہ شرم آئے گی ۔۔ بس محسوس کرتی رہنا
سب کچھ۔۔ کیا خیال ہے؟
ہاں یہ بات ٹھیک ہے
میں نے سلمی کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی ۔ لیکن اس کے چہرے کی خوبصورت پٹی سے چھپ گئی تھی اب تو مجھے لگ رہا تھا مجھے اپنی آنکھوں پر بھی پٹی باندھ لینی چاہیے۔ لیکن مجھے سب دیکھنا تھا۔
سلمی کے ہونٹ بہت پیارے اور رسیلے تھے۔ اُس نے ہلکے گلابی رنگ کی لپ اسٹک بھی لگائی ہوئی تھی لیکن نہ بھی لگائی ہوتی تو بار یک نرم و نازک سے ہونٹ چومنے کے قابل تھے۔ میں نے کھیل کا آغاز یہی سے کرنا بہتر سمجھا۔ ہونٹ چوسنے سے لڑکی کے جذبات کو آگ لگ جاتی ہے۔۔ اور مجھے بھی سلمی کو تھوڑ ا جذباتی کرنا تھا۔
مسئلہ اب اس کے ہونٹوں تک پہنچنے کا تھا۔۔ وہ صوفے پر ٹیک لگائے بیٹھی تھی اور اسکا بے شمار بکھرا ہوا جسم آگے بچھا ہوا تھا۔ میں اسکی گود میں بھی بیٹھ جاتی تو وہاں تک پہنچنا مشکل ہوتا ۔۔ میں اٹھا اور صوفے کی پچھلی جانب سے اس کے سر پر کھڑا ہو گیا ۔۔ اُسے اب کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن اسکی باڈی لینگو بی بتارہی تھی کہ وہ سر پرائز کے انتظار مین ہے۔ میں خاموشی سے اس کے سر پر پہنچ تو گیا تھا لیکن اب اس کے لبوں کو او پر کرنا تھا۔ میں نے اُسے بتانا مناسب سمجھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ ۔ وہ تیار ہو گئی اور میں نے اُسکا چہرہ پیچھے کھینچ کر سیدھا چھت کی طرف کر لیا کو د جھکا اور پہلے ہونٹوں کو ہونٹوں سے بس ملایا ۔۔ اُسے ایک جھٹکا لگا لیکن جلد ہی وہ نارمل ہوگئی۔ میں اُس کے نازک سے نچلے ہونٹ کو اپنے لبوں میں لیکر چوسنا شروع کر دیا۔ وہ سانس تھا سے سب محسوس کرنے لگی۔ ایک کے بعد دونوں ہونٹوں کو چوسنے لگا تو اُس کے جسم مین اکرن آنے لگی۔ یقیناً اُس کے سارے جسم میں سرسراہٹ دوڑ گئی ہوگی۔
اُس نے بے اختیار ہو کر اپنے بھاری بھر کم بازو اٹھائے اور میری گردن میں ڈال دئے ۔ جس سے میرے ہونٹ اس کے ہونٹوں میں اور پیوست ہو گئے ۔۔ وہ بھی شاید یہی چاہتی تھی۔ پھر خود بخود ہی اسے بھی طریقہ آگیا ۔۔ وہ میری اور میں اُس کی زبان چوسنے لگا۔ اسکے جذبات پوری طرح ابھر آئے تھے۔ جی بھر کر اس نے لپ کسنگ کی اس دوران میں اُس کے دیو ہیکل مموں پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ مجھے چھونے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ محے میرے اندازے سے بہت بڑے ہیں۔ اور مجھے انہیں دیکھنے کی بے چینی ہونے لگی تھی ۔
ابھی ہم ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر مزے لے ہی رہے تھے کہ میرے فلیٹ کے مین ڈور کی بیل بج اٹھی ۔ ہم چونک کر الگ ہو گئے اور میں اپنے تنے ہوئے لن کو انڈروئیر میں پھنسا کر سیدھا کرتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا۔۔ یقینا آنٹی واپس آگئی تھیں ۔۔ کیونکہ گھنٹوں گزر چکے تھے۔ دروازہ کھولا تو آنٹی سامنے کھڑی مسکرا رہی تھیں
کیوں بیٹا ؟ سلمی نے پریشان تو نہیں کیا۔
نہیں آنٹی ۔۔ آپ اندر آئیں ۔۔
نہیں بیٹا ۔ سلمی کو بھیج دو میں اب ہنڈیا چڑھاؤنگی۔ سلمی ۔۔ آ جائیٹی ۔۔
انہوں نے سلمی کو آواز دی تو سلمی بمشکل صوفے سے اٹھ کر فرش کولر زاتی ہوئی دروازے کی طرف آنے لگی جب میں مڑ کر اسکی آنکھوں میں دیکھا تو وہاں سوال ہی سوال تھے۔۔ میں نے اُسے کول رہنے کا اشارہ کیا۔۔ اور وہ امی کے ساتھ چلی گئی۔۔
میں دروازہ کھلا چھوڑ کر ہی واپس آکر صوفے پر گر سا گیا۔۔ سارے جذبات کی واٹ لگ گئی تھی۔ سلمی کے ہونٹوں کے لمس نے جو نشہ پیدا کیا تھا اُس نے میرے جسم کو اکثر دیا تھا۔ لین جوتن چکا تھا اب جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ لمبی لمبی سانسیں نکال کر میں نے خود کو نارمل کیا۔۔ اور سوچنے لگا کہ اس ادھورے کھیل کو کیسے پورا کرونگا اب ۔
میری امید کے برخلاف میرے خوب کو پورا کرنے کا سلمی نے خود ہی بندو بست کر دیا ۔۔ دراصل مجھ سے زیادہ اب اُسے میری طلب ہونے لگی تھی۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد سلمی دوبارہ ایک ہاتھ میں ایک کتاب اور کاپی اور دوسرے ہاتھ میں لفن لے کر آ گئی اُس کے پیچھے خالہ بھی تھی۔ دروازہ کھلا تھا اس لئے دونوں بلا جھجھک اندر آ گئیں میں احتراماً کھڑا ہو گیا۔ ۔ ۔ آنٹی مسکراتے ہوئے بولیں۔
لے بیٹا ۔ کھانا کھا ۔۔ اور سلمی کو سوال بھی سمجھا دے۔ میں نے اسے کہا کہ تمہیں وہاں بلا لیتے ہیں لیکن یہ کہنے گئی۔۔ بھائی جان ہمارے ملازم تھوڑے ہی ہیں۔۔ جب کام مجھے ہے تو مجھے جانا چاہیے۔۔ اگر تمہارے پاس ٹائم ہے تو اسے کچھ سمجھا دو۔۔
کیسی باتیں کرتیں ہیں آنٹی (میں نے سلمی کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اب شرم کی بجائے شرارت تھی ) آپ کا اپنا گھر ہے یہ بھی ۔۔ اور پہلے کبھی میں نے سلمی کی مدد کرنے سے انکار کیا ۔
آئی مضمن ہو کر چلی گئیں ۔ ۔ وہ کہی گئی کہ جب اسے سوال حل کرنا آجائے تب اسے گھر بھیجنا۔۔ چاہے جتنی دیر بھی لگ جائے۔۔ میں نے آنٹی کو وداع کر کے دروازہ اندر سے لاک کیا۔۔ اور جیسے ہی واپس مرا ملی کسی پہاڑ کی طرح ایک دم سامنے آگئی۔ اُس نے مجھے بانہوں میں بھرنے کی کوشش کی ۔ ۔ اسکی بانہوں میں میں کسی بچے کی طرح لگ رہا تھا میں نے اسے بانہوں میں لینے کی کوشش کی لیکن میرے بازوں چھوٹے پڑ گئے سلمی نے کھڑے کھڑے مجھے پھر سے لپ کسنگ شروع کر دی۔۔ میں بھی جواب دینے لگا۔۔ اور میرے بھاگ کی طرح بیٹھے ہوئے ارمان پھر جاگنے لگے۔ ۔ میرا لن ہوئے جو لے کھڑا ہوتا چلا گیا ۔۔ جواب سلمی کی ٹانگوں کے درمیان بیچ ہو رہا تھا۔۔ اب سلمی کو آنکھوں پر پٹی باندھنے کی بھی ضرورت نہیں رہی تھی ۔۔
کھیل کسنگ سے شروع ہوا اور صوفے تک پہنچتے سلمی کی قمیض اتر چکی تھی۔ وہ کھلا لباس پہنتی تھی اور پورا ایک تمبو اس کے جسم پر شلوار میض کی شکل میں موجود تھا۔ اُس نے ہاتھ سے سیا ہوا برا پہنا تھا جس کے اتارتے ہی دو بہت بڑے مے اچھل کر سامنے آگئے ۔ جوانی کی ابتداء کی وجہ سے اُس کے ممے سخت تھے ایک نہیں رہے تھے بلکہ تنے ہوئے تھے اور میرے لئے یہ لمحہ انمول تھا جب میں نے ایسے ممے دیکھے تھے۔ مموں کے سائز کے حساب سے اسکی نپلز بہت چھوٹی تھی اتنی کہ بمشکل محسوس ہو رہی تھیں۔ مموں کے نیچے پیٹ چربی کی بہت ساری تہوں کا مجموعہ تھا۔ کمر نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں بس ماس ہی ماس تھا۔ میں نے اُس کے مموں کو ہاتھوں سے پکڑنے کی کوشش کی لیکن کچھ ہی حصہ ہاتھ میں آتا اور پھسل جاتا ۔ ۔ نپلز کو چوسنے کی کوشش کی لیکن منہ میں نہیں آرہی تھیں۔ لیکن میرے ہونٹوں اور زبان کے لمس کو جموں پر محسوس کر کے سلمی مست ہو گئی تھی۔ میں نے اُس کے سارے اوپری جسم کا بغور مشاہدہ کیا وہ حسین تھی لیکن موٹاپے نے اس کے حسن کو گہنا دیا تھا۔ اسکی جلد صاف اور ملائم تھی۔
میں نے اپنا ٹراؤزر بھی اتار دیا اور کھڑا لن نکال کر کر سلمی کے منہ کے آگے کر دیا۔ اچھا تک لن کو سامنے دیکھ کر وہ یکی کی رہ گئی لیکن جلد ہی ایک گہری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔
یہ ۔۔ یہ تو بہت بڑا لگ رہا ہے۔۔ کپڑوں میں تو محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ ایسا ہوگا۔۔ میں چھو کر دیکھ لوں اسے؟
سلمی نے جھجکتے ہوئے پوچھا اور ساتھ ہی اپنا گول مٹول ہاتھ میرے لن کی طرف لے آئی )
یہ بڑا ہے۔۔ میں نے حیران ہو کر کہنا شروع کیا) میں تو سوچ رہا تھا کہ تمہارے کسی بھی سوراک تک پہنچنے کے لئے یہ توسوچ رہاتھا کہ لئے ہے یہ بہت چھوٹا ہے۔ ۔ تمہارے ہاتھ کی نرمی اور منہ کی گرمی سے زیادہ یہ کہیں نہیں پہنچ پائے گا۔
کیا مطلب ۔۔ ؟ اُس نے اپنے ملائم گداز ہاتھ میں ڈرتے ڈرتے میرا لن پکڑتے ہوئے کہا )
مطلب یہ کہ ۔۔ تم نہیں سمجھو گی ۔ تم بتاو کیسا لگ رہا ہے ہاتھ میں پکڑ کر۔۔
بہت ملائم ہے۔۔ جی چاہ رہا ہے ہاتھ پھیرتی رہوں ۔۔
تو رو کا کس نے ہے؟ پھیرو جیسے من کرے۔۔ وہ میرے لن کو سہلانے لگی ۔۔ اس کے گورے ہاتھوں میں گندمی رنگ کا لن بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔ ہاتھ ہونے ہونی کی وجہ سے وہ پوری مٹھی بند نہیں کر سکتی تھی لیکن وہ بڑے پیار سے سہلانے لگی جیسے کوئی بہت ہی قیمتی چیز ہو اور ذرا سے لا پرواہی سے ٹوٹ جائے گی۔۔ مجھے جیسے جیسے اس کے ہاتھ کا مس مل رہا تھا لن کے ساتھ ساتھ جسم بھی اکڑتا جارہا تھا۔ سلائی میرے لن کی ملائم جلد میں کھوئی گئی تھی ۔۔ اچانک بولی۔۔
کیا میں اسے چوم لوں ؟ ۔۔
ہاں ۔ ۔ صرف چومنا کافی نہیں ۔۔ اسے منہ میں لالی پاپ کی طرح ڈالو ۔۔ اور قاری کی طرح چوسو ۔۔ وہ آگے کو بھی ۔۔ میں کھڑا تھا اور وہ صوفے پر بیٹھی تھی۔۔ اس لئے آسانی سے اُس نے لن منہ کے قریب کر لیا۔ پہلے اُس نے ہونٹوں سے نزاکت سے پی کی۔ لین کی ٹوپی پر اس کے ہونٹ محسوس ہوئے ۔ ۔ پھر اس نے ہونٹ لن کی ٹوپی پر پھیر نے شروع کر دئے ۔ ۔ آہستہ آہستہ اسکی زبان باہر آ کر کسی ناگن کی زبان کی طرح لن کو چکھنے لگی ۔ جب اسے اطیمنان ہو گیا کہ لن منہ میں لے جانے میں کوئی حرج نہیں ۔ اُس نے آرام سے منہ کھولا اور ٹوپی منہ میں ڈال لی۔ ٹوپی کو چوسنے کے بعد اس نے آہستہ آہستہ لن کو اور منہ میں جانے دیا اور جلد ہی وہ آدھا لن منہ میں لیجا کر چوس رہی تھی۔ وہ کبھی منہ میں ڈالتی کبھی باہر نکال کر اسے چائے لگتی جیسے کوئی بہت ہی میٹھی چیز اسے مل گئی ہو۔۔
کیسا ہے ذائقہ ؟ ۔ ۔ مزے کا ہے نا۔ ۔ میں نے اُسے اور مست کرنے کے لئے کہا )
ام م م م م م م ۔ ۔ یہ بہت کیوٹ ہے۔۔ بہت پیارا ۔۔ بہت ملائم ۔۔ (وہ ایک ہی سانس میں بول کر پھر چاٹنے لگی )
لن کا نمکین پانی قطروں کی شکل میں ٹوپی سے نکل رہا تھا لیکن وہ اسے بھی چاٹ رہی تھی۔۔ اُسے لن کا ذائقہ لبھا گیا تھا لیکن مجھے آپ منہ میں ہی فارغ ہونے سے آگے بھی کچھ کرنے کی طلب ہورہی تھی۔۔
کیا میں بھی چاٹوں ۔۔؟
میرے سوال پر وہ چونگی ۔۔ اور سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھنے لگی
نیچے میرے لن کی جگہ جو تمہارا سوراخ ہے اُسے ۔۔۔
کھی بھی ۔۔ وہ تو بہت گندی ہے۔۔ آپ اسے کیسے۔۔ نہیں ۔۔؟
وہ بھی اتنی ہی گندی ہے جتنا میرا یہ ۔۔۔ اگر یہ گندہ ہے تو نہیں چاہتا میں ۔۔
وہ کشمکش میں پڑ گئی۔۔ اُس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ کوئی لڑکا ایسے اسکی پھدی چاٹنے کی بات کرے۔۔
لیکن ۔۔ آپ کو کچھ ہوگا تو نہیں ۔۔
مجھے کچھ نہیں ہوتا ۔۔ آؤ۔۔ بیڈ روم میں چلتے ہیں۔۔
وہ میرے پیچھے پیچھے چل پڑی۔۔ جب و و قدم اٹھا کر رکھتی تو اس کے ممے اچھل جاتے اور پیٹ کی جلد میں اہرمیں چلنے لگتی۔ ۔ شلوار کے اندرقید بے شمار گوشت لرز رہا تھا ۔۔
بیڈ پر میں نے اسے لٹادیا اور بڑی مشکل سے اسکی شلوار اتاری۔ تو بہ نکل گئی میری۔۔ ناف سے نیچے کا علاقہ تو گوشت کی تہوں پر مشتمل عجیب سا علاقہ تھا۔ میں اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا اور ٹانگیں کھول کر پہلی نظر اسکی پھدی پر ڈالی ۔ دونوں طرف کے گوشت کے پہاڑوں کے درمیان جسم کی نسبت بہت چھوٹی پھدی چھپی ہوئی تھی ۔۔ اسکی اچھی بھلی ٹانگیں کھولنے کے بعد پھدی کی لکیر نظر آئی۔ پھدی بالکل بند تھی۔ ایک کنواری لڑکی کی ایسی پھدی جس میں اس نے کبھی انگلی تک نہیں ڈالی تھی ۔ سلمی نے اس سے پہلے کبھی اپنے جسم کے ان حصوں کو محسوس ہی نہیں کیا تھا۔۔ وہ پھدی کو صرف پیشاب کرنے کی جگہ بجھتی تھی۔ میں نے جب ٹانگوں کے درمیان لیٹ کر پھدی پر ہاتھ پھیرا تو وہ تراپ کر رہ گئی۔ تھوڑی دیر سہلانے کے بعد میں نے زبان سے اسکی ہلکے ہلکے بالوں والی پھدی کے نازک سے لب انگلیوں سے الگ کرتے ہوئے چاٹنے شروع کر دئے ۔ سلمیٰ کا مزے سے برا حال ہورہا تھا ۔۔ وہ ہاتھ سے بار بار
مجھے پیچھے کر رہی تھی۔۔ میں نے پھدی کے ہونٹ پیچھے کر کے اندر دیکھا تو سوراخ بالکل بند تھا۔ اندر کے ہونٹوں کے درمیان میں بھی گوشت بھر اتھا۔ کوئی سوراخ نظر نہیں آرہا تھا۔
ایک عجیب سی بو آ رہی تھی۔ سلامی کی پھدی نے اب پانی نکالنا شروع کر دیا تھا اور اچھی بھلی گیلی ہوگئی تھی شاید اس کی بو تھی۔۔ میں نے زبان پھدی کے سوراخ میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن منہ تک ہی محدود رہی ۔ میری زبان کے لمس نے مسلمی کو مد ہوش کر دیا تھا ۔۔ وہ اپنے تھے اب خود ہی ہاتھوں سے دبانے لگی تھی۔ تبھی مجھے خیال آیا کہ میں سلمی کی گانڈ مار تو نہیں سکتا کم از کم اسکا سوراخ دیکھنے کی کوشش تو کروں ۔۔
میں اسے گھٹنوں کے بل ہونے کا کہا۔۔ وہ بڑی مشکل سے اٹھی لیکن آسانی سے گھٹنوں کے بل ہوگئی۔۔ میں اسکی گانڈ کے پیچھے بیٹھ گیا اور گوشت کے اس جنگل میں اسکی گانڈ کا سوراخ ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا۔۔ میں نے پوری قوت دے ماس کو پیچھے کیا تو ایک لمحے کو مجھے اسکی گانڈ کے سوراخ کی جھلک مل گئی ۔ ۔ جیسی اسکی اپنی رنگت تھی ویسی ہی گانڈ بھی سرخ و سفید تھی۔۔ سوراخ کا پھول بھی اس کے جسم کی نسبت بہت چھوٹا تھا۔۔
گانڈ کے سوراخ کی جھلک نے مجھ پر نشہ طاری کر دیا تھا۔۔ میں نے کھڑے ہو کر ان کو گانڈ کی لکیر پر رکھ دیا اور لن گانڈ پر پھیرنے لگا۔۔ میں اندازہ لگارہا تھا کہ کسی طرح گانڈ ماری جاسکتی ہے یا نہیں۔۔ پھدی مارنا آسان تھا لیکن میں سلمی کی عزت خراب نہیں کر سکتا تھا ۔۔ جتنی سختی سے اسکی پھدی بند تھی یقینا بہت خون نکلتا جو اس کے لئے تشویش ناک ہو سکتا تھا ۔۔ میں نے ان سے گانڈ کے درمیان مساج کرنے کے انداز میں اینٹری کرنے کی کوشش کی لیکن سارا لن گانڈ میں غائب ہونے کے بعد بھی سوراخ کے قریب تک نہ پہنچا۔۔ تو کیا مجھے اب صرف محموں میں لن رگڑ کر ہی فارغ کرنا تھا یا سلمی منہ سے کر دیتی ۔۔
میں جو بھی کر رہا تھا سلمی اب مزے میں تھی اسے کوئی اعتراض نہیں تھا وہ مست میرے ہر کام سے لطف لے رہی تھی۔۔ میں گانڈ پر ان پھیر رہا تھا ساتھ سوچ رہا تھا کہ اتنا بڑا پچھواڑا میرے سامنے ہے اور گانڈ مارے بغیر جانے دوں تو کیا مزہ سلمی کا۔۔ مجھے ایک ترکیب سوجھ گئی۔۔ میں نے سلمیٰ کو بتا دیا کہ میں لن اسکی گانڈ کے سوراخ میں ڈالنا چاہتا ہوں ۔۔ اور اسے بتایا کہ پھدی میں ڈالنا خطرناک ہو سکتا ہے۔۔ اس نے ابھی تک جو کیا تھا مزہ ہی لیا تھا اس لئے اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ میں نے اُسے دوبارہ سیدھا لیٹایا ۔۔ ایک بڑا تکیہ اسکی کمر کے نیچے بہت مشکل سے رکھا۔۔ اور اسکو کہا کہ ٹانگیں پیٹ سے لگا کر رکھے۔ لیکن گوشت کی زیادتی اسے ایسا کرنے نہیں دے رہی تھی۔ اس نے پوری کوشش کی اور میں نے تانگوں کو نیچے سے دبالیا۔ کام بہت خطر ناک تھا اسکی ٹانگوں کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ میں نیچے آجاتا تو سانس بند ہو جاتی۔ لیکن اس نے پوری ہمت سے ٹانگیں پیٹ کی طرف کئے رکھی۔
میں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا اور لن کو پھدی پر رگڑنے لگا۔ سلمی لن کے لمس کو پھدی پہ پا کر تڑپ اٹھی تھی وہ یقیناً چاہتی تھی کہ لن اسکی پھدی پھاڑ کر اندر چلا جائے لیکن میں ایسا نہیں چاہتا تھا ۔۔ اسکی عمر بھی کم تھی اور پھر مجھے خطرہ تھا خون زیادہ بہے گا۔۔ میں نے پھدی سے نکلے پانی سے لن کو گیلا کیا اور اندازے سے پھدی کے سورخ سے نیچے لن کی ٹوپی پھیلا دی۔ ۔ گانڈ کا سوراخ بالکل نظر نہیں آرہا تھا میں بس اندازے سے ہی اسے تلاش کر رہا تھا۔ لین کو پکڑ کر میں نے ٹوپی سے اسکی گانڈ کا سوراخ ٹولنے کی کوشش کی اور جلد ہی مجھے محسوس ہونے لگا۔ اسکی گانڈ کا سوراخ پھدی کی لکیر جہاں ختم ہو رہی تھی اس کے بالکل ساتھ نیچے تھا۔ میں نے ٹوپی سے سوراخ پر دو تین دفعہ رگڑ لگائی ۔۔ تو سلمی مستی سے آہیں بھرنے لگی۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ لن جب اندر جائے گا تو کیا ہوگا۔
میری پوری کوشش کے باوجود میں ان اسکی گانڈ کے سوراخ میں نہ ڈال سکا۔۔ جیسے ہی دھکا لگا تا اسکی گانڈ کا ماس درمیان میں آجاتا ۔ سوراخ کولن پیچ ضرور ہوتا لیکن اندر جانے والی کوئی صورت نہیں تھی۔۔ میں ہار ماننے پر مجبور ہو گیا۔ سلمی بھی ٹانگیں اور اٹھا کر نہیں رکھ سکتی تھی۔ اتنا بڑا پچھواڑا جب میں نے پہلی بار دیکھا تھا اور جو سوچا تھا وہ سب سچ ثابت ہورہا تھا۔ سلمی کی گانڈ مارنے کے لئے ایک فٹ سے بھی لمبا لن ہونا ضروری تھا۔ تو گویا کوئی بھی ساری زندگی سلمی کی گانڈ نہیں مار سکتا تھا۔ سلمیٰ ہمیشہ گانڈ مروانے کے لطف سے انجان ہی رہے گی۔ میں نے سلمی کو سیدھا لیٹنے کے لئے کہا۔۔ اور 69 کے سٹائل میں اس کے اوپر لیٹ گیا۔ ۔ میرا لن اسکے منہ پر اور میرا منہ اسکی پھدی پر تھا۔۔ میں نے پھدی ایک بار پھر چاٹنی شروع کی تو سلمی نے بھی بے اختیار لن منہ میں ڈال لیا۔ جیسے جیسے میں اسکی پھدی چاٹ رہا تھا وہ میرے لن کو اتنے ہی جوش سے منہ میں سمیٹ رہی تھی۔ وہ فیڈر کی طرح لن منہ میں ہی رکھ کر چوس رہی تھی ۔۔ جلد ہی میرا ان چھوٹنے والا ہو گیا تو میں نے سلمیٰ سے پوچھا کہ منہ میں چھوٹ جاؤں ۔۔ اُس نے ہاں کی لیکن میں نے سوچا اتنی زیادہ منی پہلی دفعہ منہ میں جانے سے اسے الٹی آسکتی ہے۔۔ میں نے اُس کے مموں مین ہی جسٹر نا سچ سمجھا۔۔ میں اسکے پھول جیسے بڑے پیٹ پر بیٹھ گیا ۔ اور لن کو اس کے بھاری بھر کم موں کے درمیان رکھ کر سلائیڈنگ شروع کردی ۔ ۔ تیز تیز سلائیڈنگ سے جلد ہی لن نے منی اگل دی اور گرم گرم منی نے سلمی کے محلے بھر دئے۔ جب میں ٹھنڈا ہو گیا تو سلمی کے محے صاف کئے اور لن پر لگی منی اسے چاٹنے کو کہا جو وہ شوق سے چاٹ گئی۔ اس کے بعد سلمی کپڑے پہن کر اپنے گھر چلی گئی۔۔ اور میں بھی کچھ پر سکون ہو گیا۔
ختم شد
اُس دن میں صبح سے ہی فلیٹ سے باہر دسویں منزل کی گیلری میں کھڑا ادور نیچے تک آتے جاتے لوگوں کا نظارہ کر رہا تھا۔ سو سے زیادہ فلیٹ اس بلڈنگ میں تھے اور اتنے ہی گھرانے بھی آباد تھے۔ لیکن ماحول ایسا تھا کہ سب اپنے کام سے کام رکھتے ۔ مجھے بہت سے لوگ جانتے تھے اور میری کافی عزت بھی کرتے تھے اس لئے میں بھی شرافت کا پتلا بن کر اس سوسائٹی میں زندگی گزار رہا تھا جب بھی مجھے طلب ہوتی تھی میں اپنے گھر سے دور کسی کردار کا انتخاب کر کے وقت گزاری کرتا تھا جو ان حالات میں مجھے مشکل لگ رہا تھا۔ سیکس کی طلب اتنی شدید ہورہی تھی کہ میرا جسم اکڑ چکا تھا اور کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ گیلری میں کھڑے جب بھی کوئی لڑکی نظر آتی میں محروم نگاہوں سے اُس کو دور تک دیکھتا رہتا۔ کچھ جانے پہچانے چہرے بھی نظر آئے لیکن اپنی عزت اور ساکھ برقرار رکھنے کیلئے میں سوسائٹی میں کوئی بھی رسک لینے کو تیار نہیں تھا۔
میں سامنے کے فلیٹس کی گیلریز میں کھڑے اکا دکا لوگوں کو دیکھ رہا تھا جب اچانک میرے ساتھ کے فلیٹ کا دروازہ کھلا۔ میں نے چونک کر ادھر دیکھا تو گھر سے آنٹی شمیم برآمد ہوئیں۔ ایک بھاری بھر کم فیملی کی بھاری بھر کم عورت ۔ بھاری بھر کم فیملی اس لئے کہ آنٹی شمیم کے شوہر بھی کافی موٹے تھے اور وہ خود بھی لیکن جو موٹا پا خدا نے انکی بیٹی سلمی کو بخشا تھا پناہ ہی مانگی جا سکتی تھی۔ سلمی اُن کی اکلوتی بیٹی تھی لیکن پندرہ سال کی عمر میں ہی وزن دو سو کلو گرام سے بھی۔
تجاوز کر گیا تھا۔ پہلی بار جب میں نے سلمی کو دیکھا تھا تو اُس کا پیچھے کو نکلا ہوا پچھواڑا دیکھ کر بے اختیار میرے منہ سے نکلا تھا اتنا بڑا ۔ اور جب وہ چلتی تھی تو زمین تو دھل ہی جاتی تھی پیچھے کو نکلی ہوئی گوشت کی دکان بھی جھولنے لگتی تھی۔ بالکل چکی والے دینے کی طرح جیسے اسکی چکی پیچھے براتی تھی ویسے ہی سلمی کی گانڈ کا منظر ہوتا تھا۔ سلمی کی نسبت آئی شمیم کا پچھواڑا کم تھا لیکن موٹاپے نے انہیں گول مٹول بنا دیا ہوا تھا کوئی نسوانی حسن نام کی کوئی چیز ان میں نہیں تھی اور اکثر آنی شمیم اور اُن کے شوہر کو اکٹھے دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ یہ دونوں سیکس کیسے کرتے ہوں گے۔ دونوں کے باہر نکلنے پیٹ اور پھولا ہوا جسم ۔ سیکس کے دوران نا جانے کون کی پوزیشن میں ان کا کام مکمل ہوتا ہوگا۔ اور سلمی کو جب پچھلی بار میں نے دیکھا تھا تو سوچ میں پڑ گیا تھا کہ اگر کسی نے اس سے شادی کر لی تو اُس کے پاس کم از کم ایک فٹ بڑا ان ضرور ہونا چاہیے۔ کیونکہ جتنی بڑی وہ گوشت کی دکان تھی منزل تک پہنچنے کے لئے انتالم بالن ضروری تھاور نہ راستے میں ہی پھنس کر رہ جاتا۔ اور اگر کسی نے اسکی گانڈ مارنے کی کوشش کی تو ایک فٹ کا لن تو اسکی گانڈ کے سوراخ تک بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ آسان لفظوں میں عام نارمل انسان کے بس کی بات نہیں تھی کہ وہ سلمی کو کسی بھی سوراخ سے چود سکتا سوائے مند کے ۔۔ یا اُس کے بھاری بھر کم دس دس کلو کے مموں کے درمیان لن کی سلائیڈنگ سے منی خارج کی جاسکتی تھی۔
آئی ٹیم جیسے ہی ہاتھ میں سودا سلف لانے والا تھیلا لے کر باہر نہیں مجھ پر انکی نظر پڑی۔ میری بلا ئیہ ائیں لیتی بیٹا بیٹا کہتی سیدھی میری پاس آگئیں۔ مجھے لگا مجھے سو دا لانے کو کہیں گی لیکن میری اچھی بھلی خود آ مد نما تعریف کے بعد انہوں نے التجا کے انداز میں پوچھا۔
بیٹا ! تمہارا اے سی تو چل رہا ہے نا۔
جی خالہ ( میں اُن کو ادب سے خالہ ہی کہتا تھا )
ہمارا اے سی خراب ہو گیا ہے۔ سلمی کے پاپا مکینک کو لینے گئے ہیں پتہ نہیں مکینک ملتا ہے یا نہیں اور مجھے بازار سے سودے لینے بھی جانا ہے تو تم تھوڑی زحمت اٹھاو گے؟ ( وہ ایک ہی سانس میں سب بول گئیں )
جی خالہ ! آپ حکم کریں (میں نے پوری تابعداری سے جواب دیا )
تمہیں تو پتہ ہے سلمی کو بہت گرمی لگتی ہے اگر تم اجازت دو تو اسے تمہارے فلیٹ میں چھوڑ جاؤں ۔ واپس آتے ہی اُسے لے جاؤنگی۔ ویسے بھی اُسے اکیلے گھر میں ڈر لگتا ہے تمہارے ساتھ اس کا وقت اچھا گزر جائے گا۔( وہ اپنی بات مکمل کر کے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگیں)
آنٹی کی بات نے میرے پاؤں تلے سے زمین نکال دی۔ کہاں میں کسی معقول لڑکی کی تلاش میں تھا اور کہاں یہ کھانے والی بلا میرا دن خراب کرنے لگی تھی ۔ جی ہاں ! اس سے پہلے تین دفعہ میں یہ عذاب جھیل چکا تھا آنٹی اُس کو میرے فلیٹ میں چھوڑ کر گئی تھیں اور اُس نے وہ سارا وقت میری فرج خالی کرنے میں ہی صرف کیا جتنی دیر وہ میرے گھر رہی۔ ویسے بھی میں اُسے دیکھ کر ہی گھبرا جاتا تھا اگر وہ زمین پر گر جائے تو خود سے اٹھ نہیں سکتی تھی اور مجھ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ دو سو کلو کی لاش کو اٹھا سکتا لیکن مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق مجھے چارونا چار آنٹی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی پڑا۔
آنٹی نے ایک لمبی سانس بھری جیسے اُن کا کوئی بہت بڑا بوجھ اُتر گیا ہو میری شرافت کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے آنٹی نے فور اسلامی کو لا کر میرے فلیٹ میں ڈال دیا۔ وہ صوفے کی سنگل سیٹ میں فٹ نہیں آتی تھی اس لئے تین سیٹوں والے صوفے پر بیٹھایا گیا ۔ آنٹی نے اُسے چند ہدایات کیں کہ اچھے سے رہنا مجھے زیادہ تنگ نہ کرتا و غیر دوغیرہ اور خود خدا حافظ بول کر فرش ہلاتی میرے فلیٹ سے نکل گئیں۔
اُن کے جانے کے بعد جیسے ہی میں دروازہ لاک کر کے واپس مڑا اور میری نظر سلمی پر پڑی وہ میری طرف ہی دیکھ رہی تھی مجھ سے نظریں ملتے ہی وہ بے اختیار مسکرادی ۔ اپس کے چہرے کے نقوش برے نہیں تھے گوری رنگت تھی چہرہ گول اور پرکشش تھا گردن بھی معقول تھی لیکن اُس نے نیچے تو جیسے پالچل مچی ہوئی تھی۔ ایک دم سے شانوں سے وہ چوڑی ہو نا شروع ہوتی تھی اور کمر تک آتے پھیلتی ہی جاتی تھی میں نے اندازہ لگایا تھا کہ اسکی ایک ٹانگ کی موٹائی میرے پورے جسم کی سمارٹ نس کے برابر تھی۔ میں نے بے اختیار مسکرا کر اسکی مسکراہٹ کا جواب دیا۔ اور اسکی طرف آتے ہوئے پوچھا
چائے ۔۔ کافی ۔۔ کیا لوگی سلمی
کچھ بھی نہیں ۔ ( خلاف معمول آج اُس نے انکار کر دیا ) مین ڈائیٹنگ پر ہوں اس لئے بہت کم کھاتی ہوں آب۔ آپ دیکھ نہیں رہے میں پہلے سے کتنی کمزور ہوگئی ہوں ۔
میں سلمی کی بات سن کر اپنی ہنسی دباتے ہوئے اُس کے وجود کا وہ حصہ تلاش کرنے لگا جہاں سے وہ کمزور ہو چکی تھی۔ لیکن مجھے پہلے سے بھی زیادہ گوشت کا ارتکاز نظر آرہا تھا لیکن اسکا دل رکھنے کے لئے میں نے کہا بہت خوب ۔ ۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔۔ جان ہے تو جہان ہے ( دل میں سوچا یہ تو جہان کی سب سے بھاری جان ہے ) انسان کو اپنی صحت کا کو د خیال رکھنا چاہیے۔
چند روایتی باتوں کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ سلمی اب سمجھ رہی ہے۔ وہ بڑی تمیز سے ادبی لہجے میں بات کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک دوسری کا حال احوال پوچھنے کے بعد میں کچن میں چلا گیا مجھے کافی کی طلب ہو رہی تھی میں نے سلمی کے لئے بھی بنالی۔ اور جب اُسے پیش کی تو اُس نے خندہ پیشانی سے قبول کر لی ۔ ہم خاموشی سے کافی پینے لگے۔ میں کن اکھیوں سے اُسکے جسم کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ قدرت نے بھی دل کھول کر ماس اس لڑکی پر وار دیا تھا نسوانی حسن تو دور حسن نام کی کوئی بھی چیز اس کے جسم میں نہیں تھی بس چہرہ حسین تھا اور جیسے جیسے وہ جوان ہو رہی تھی اسکے چہرے پر نکھار آ رہا تھا۔ چہرہ کی جلد صاف اور چمکدار تھے ناک چہرے پر چھتی تھی آنکھیں تھوڑی باریک تھیں۔ بال گھنے اور سیاہ تھے ۔ گردن تک سب ٹھیک تھا گردن سے نیچے نظر پڑتے ہی مجھے اندازہ لگانا مشکل ہو گیا کہ اُس کے مموں کا سائز کیا ہو گا۔ اُس کے بڑے پھیلے ہوئے پیٹ پر مموں کے ابھار بہت بڑے لگ رہے تھے اور اسکا بریز مر بھی اسپیشل ہی ہوگا کیونکہ اتنا بڑا نارمل حالت میں تو مل بھی نہیں سکتا۔ میرے ذہن میں باتوں کی حد تک تجس پیدا ہونے لگا تھا سلمی کے جسم کو لے کر۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اسکی کم عمری اور ہمسائیگی کی لاج بھی رکھنی تھی۔
مجھے خود کو کن اکھیوں سے دیکھتے شاید اس نے محسوس کر لیا تھا۔ وہ تھی تو پندرہ سال کی لیکن دیکھنے میں بہت بڑی عورت لگتی تھی۔ ذہین اتنی نہیں تھی کیونکہ اکثر ریاضی کے سوال مجھ سے سمجھنے کے لئے مجھے گھر بلاتی تھی اور ایک سوال گھنٹوں بعد بھی جب اُسے سمجھ نہیں آتا تو رٹنے بیٹھ جاتی ۔ یاداشت تیز ہونے کی وجہ سے اُسے ہر سبق رہنا آسان لگتا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں ہی نہیں وہ بھی مسلسل مجھے گھور رہی ہے۔ اور زیر لب مسکرارہی ہے۔ مجھے اسکا یہ رویہ کچھ عجیب لگ رہا تھا لیکن میں نے اسے اپنا و ہم سمجھ کر جھٹک دیا۔
اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں وہ پر سکون بیٹھی تھی اور میں مصروف رہنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا تا کہ وقت بیت جائے اور سلمی اپنے گھر چلی جائے وہ جب تک یہاں تھی میرے ذہن پر بوجھ رہنا تھا۔ لیکن سلمئی کو جیسے بہت سکون مل رہا تھا میرے گھر آ کر ۔ کافی کے بعد میں نے اُسے کچھ پھل پیش کئے لیکن اُس نے واقعی کھانے سے انکار کر دیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ چلو اس بہانے سہی میری فرج تو محفوظ رہے گی ۔ کچھ دیر خاموشی میں گزرگئی میں کبھی کچن میں کبھی دوسرے کمروں میں چکر لگا تا رہا۔ مجھے بوریت کے ساتھ ساتھ اب عجیب سی الجھن بھی ہونے لگی تھی۔ سیکس کے جو جذبات مجھے پریشان کرنے لگے تھے وہ سرد پڑ گئے تھے۔ اور ہلکا ہلکا سر درد ہونے لگا تھا۔ اپنے آپ کو نارمل رکھنے کی میں پوری کوشش کر رہا تھا جب اچانک سلمی نے مجھے مخاطب کیا۔
بھائی جان ! ( وہ مجھے بھائی جان کہہ کر ہی پکارتی تھی ) مجھے ایک بات پوچھنی ہے۔ آپ برا تو نہیں مانو گے؟
میں نے دل میں سوچا کہ تمہیں پاس رکھنے سے زیادہ برا کیا ہوگا )
بلا جھک بولی ۔ کیا پوچھتا ہے؟
آپ اکیلے رہتے ہو؟ کیلئے کیوں رہتے ہو؟
میں نے اسے بتایا کہ میری فیملی پنجاب میں ہے اور میں جاب کی وجہ سے یہاں رہتا ہوں لیکن اُس نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔
وہ میں جانتی ہوں ۔ میرا مطلب تھا کہ آپ نے شادی کیوں نہیں کی ؟
اور میں نے یہاں غلطی کر دی۔۔ میں نے از رائے مذاق کہہ دیا۔
کیا کروں سلمی ؟ مجھ سے کوئی لڑکی شادی ہی نہیں کرتی ۔۔ کیا تم کرو گی مجھ سے شادی؟
بوریت دور کرنے کے لئے یا وقت گزاری کی خاطر نا جانے کیسے میں نے یہ بات کہہ دی )
وہ شرم سے سرخ ہوگئی اور ایک لمحے کو آنکھیں جھکانے کے بعد پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
آپ مذاق اچھا کر لیتے ہیں بھلا آپ جیسے ہینڈ سم نو جو ان سے کون سی لڑ کی شادی نہیں کرنا چاہے گی۔
تو کیا تم مجھ سے شادی کرنے کو تیار ہو سلمی؟
میں نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔ میرے ذہن میں اپنا تجس مٹانے کا ایک طریقہ آگیا تھا۔ میں سلمی کے جسم کو
دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن جیسے میں دیکھنا چا ہتا تھا نہیں معلوم مسلمی راضی ہوتی یا نہیں۔ لیکن میں نے کوشش شروع کر دی تھی ) میری بات سے وہ اور زیادہ شرما کر سمٹنے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس کا بھاری بھر کم جسم سمٹ کر جاتا بھی تو کہاں جاتا۔
مجھے شادی نہیں کرنی ہے بھائی جان ۔ مجھے اکیلا رہنا ہی پسند ہے ۔ ( اُس نے شرماتے ہوئے نظریں جھکا کر جواب
دیا ) اور میں نے بھی دل ہی دل میں ہنس کر کہا کہ میں نے کب تم جیسی گوشت کی دکان سے شادی کر لیتی ہے مجھے تو
بس تمہارے جسم کے پیر پارٹ دیکھنے سے مطلب ہے۔
تو پھر مجھے بھی اکیلا رہنا ہی پسند ہے اس لئے مجھے بھی شادی نہیں کرنی۔
میری بات سن کر وہ خاموش ہو گئی اور کچھ سوچنے لگی۔ میں بغور اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا اور مجھے لچک اور
امید دونوں نظر آنے لگی تھیں کہ کام ہو جائے گا مسلمی کوشیشے میں اتارا جا سکتا تھا۔
اس نے کچھ کہنے کے لئے لب ہلائے لیکن پھر رک گئی۔ میں نے خود ہی پوچھ لیا۔
چپ کیوں ہوگئی ؟ بولو۔۔ کیا کہنے لگی تھی۔
میں اتنی موٹی ہوں ( اُس نے لرزتی آواز میں کہا مجھے بھلا کون پسند کرے گا۔ مجھ سے کون شادی کرے گا۔ آپ بھی مذاق کر رہے ہو میں جانتی ہوں۔
ایسی بات نہیں ہے سلمی ! تم بہت خوبصورت ہو۔ اتنی سیکسی ہو ( بے اختیار میرے منہ سے سیکسی کا لفظ نکل گیا )
وہ مجھے چونک کر دیکھنے لگی جیسے اپنے میری بات کا یقین نہ ہو۔
سیکسی ۔۔ (اُس کے زیر اب مجھے یہ لفظ سنائی دیا )
ہاں سلمی ا تم بہت سیکسی ہو۔ تم میں کشش ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ ۔۔ ( میں جان بوجھ کر ادھوری بات کر کے رک گیا )
سلمی نے مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے زور دینے والے انداز میں پوچھا۔
کہ کیا ؟ کیا دل کرتا ہے آپ کا ؟ بتائیے نا۔
میرا دل کرتا ہے کہ میں ۔۔۔۔ دیکھو۔ تم مجھے غلط مت سمجھنا۔۔ یہ میرا پیار ہے تمہارے لئے میری چاہت ہے۔۔
میرا ارادہ غلط نہیں ہے۔۔ ( میں نے سلمی کو اور تجس میں ڈالتے ہوئے کہا ) اور وہ واقعی بے چین ہوگئی اور جاننے کے لئے اصرار کرنے لگی کہ میں کیا چاہتا ہوں ۔۔
آپ مجھے کھل کر بتاو ۔ ۔ آپ کا دل کیا چاہتا ہے؟
کیا تم میری بات مانو گی ؟
کیوں نہیں؟ میں آپ کی ہر بات مانونگی۔۔ آپ مجھے کتنے اچھے لگتے ہو آپ نہیں جانتے۔۔ آپ کہو جو کہتا ہے۔
میری باتوں سے وہ لائن پر آرہی تھی لیکن میں اُسے اور پکا کرنا چاہتا تھا۔
پہلے وعدہ کرو ۔ یہ بات ہم دونوں کے درمیان ہی رہے گی۔۔ اور وعدہ کرو تم وہ کرو گی جو میں کہونگا۔
اُس نے مجھے مسکرا کر پیار سے دیکھا جیسے وہ میرا ارادہ سمجھ رہی ہو۔
آپ بے خوف بولوں میں وعدہ کرتی ہوں میں نہ کسی کو کچھ بتاؤنگی اور نہ آپ کی کسی بات سے انکار کرونگی۔
سلمی کے اقرار نے میرے دل میں بہت سی باتوں کو بیدار کر دیا تھا۔ پہلے میر انجس تھا کہ میں اسکے جسم خاص کر اس کے ممے اور گانڈنگی دیکھوں ۔ لیکن اُسکے جواب سے میرا دل بہت کچھ اور بھی سوچنے لگا تھا۔
میں نے اتنا بڑا پچھواڑا ۔ ۔ اتنے بڑے تھے ۔ کبھی نہیں دیکھے تھے ۔۔ اور اب تو میرا دھیان سلمی کے ٹانگوں کے درمیان بھی جار ہا تھا۔ صوفے پر جیسے وہ ٹانگیں بسارے بیٹھی تھی میری نظر اس جگہ بار بار جارہی تھی جہاں اسکی گوشت کی دکان میں کہیں ایک چھوٹا سا سوراخ بھی تھا۔
مجھے سوچتے دیکھ کر اور خاموش گھورتے دیکھ سلمی کی بے چینی بڑھنے لگی تھی۔ اُس نے ایک بار پھر مجھے مخاطب کرتے کہا کہاں کھو گئے آپ؟ آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے؟
میر اول کیا چاہتا ہے یہ میں بعد میں بتاؤ نگا۔ پہلے تم مجھے کچھ سوالوں کے جواب دو۔
میں نے آب سلمی کو پہلے چینی طور پر سیکس کے سارے کھیل کے لئے تیار کرنے کا منصوبہ بنالیا تھا تا کہ مجھے کوئی دقت پیش نہ آئے۔
جی پوچھیں ۔۔ (اُس نے سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا )
کیا تمہیں سیکس کا مطلب پتہ ہے؟ ( میں نے بلا جھک سوال کر دیا ) لیکن وہ شاید تیار نہیں تھی شرم سے لال ہو گئی اور کچھ لمحے اُسے بولنے کے لئے الفاظ نہیں ملے ۔ اُس نے سر کو ہلا کر مجھے ہاں میں جواب دیا۔
کیا ہوتا ہے سیکس؟ مجھے بھی بتاؤ۔
نہیں ( وہ چونک کر بے اختیار بولی ) مجھے شرم آتی ہے۔۔ آپ ایسی باتیں نہ کریں نا۔
اُسکی بات سن کر میں خاموش ہو گیا۔ اور منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔ لیکن مجھے اسکی کیفیت کا اندازہ ہورہا تھا۔ وہ اور زیادہ بے چین ہو رہی تھی۔
کیا ہوا ؟ آپ نے منہ کیوں پھیر لیا ؟
تو اور کیا کروں؟ ( میں نے بناوٹی غصے سے کہا ) ابھی تو تم میری ہر بات ماننے کو تیار تھیں ۔ وعدہ کیا تھا تم نے۔
وہ میری بات سن کر لمبی آہ بھر کر بولی۔
مجھے معاف کر دیں ۔ بس آپ ناراض مت ہوں۔ میں کوشش کرتی ہوں جواب دینے کی؟
میں واپس اسکی طرف منہ موڑ کر سوالیہ نگاہوں سے اسکی طرف دیکھنے لگا لیکن مجھ سے نظریں ملتے ہی اُس نے سر جھکا لیا اسکی آواز لرزتی ہوئی ابھری۔
میں نے سائنس میں پڑھا تھا۔۔ جب ایک میل اور ایک فی میل ملتے ہیں تو اُن کے درمیان جو ہوتا ہے۔۔
وہ اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی لیکن اسکی چہرے کی گوری رنگت سرخ ہو رہی تھی۔
اچھا۔ تو پھر تمہیں باڈی پارٹس کے نام بھی آتے ہوں گے؟
جی ۔ وہ تو میں نے پہلی کلاس میں ہی سیکھ لئے تھے۔۔ (وہ نظریں اٹھا کر بولی )
تو بتاو ۔۔ جو تمہاری چھاتی کے اوپر دو بڑے بڑے گول جسم میں انہیں کیا کہتے ہیں؟
میری آواز میں شرارت تھی لیکن سلمی کی حالت خراب ہو رہی تھی ۔ ۔ شرم سے وہ پانی پانی ہوئی جارہی تھی ۔۔ مجھے اس پر ترس آنے لگا تھا اور ایک لمحے کو میں نے سوچا بھی کہ جانے دو۔۔ ایسی باتیں کر کے کیا لینا لیکن مسلمی کے جواب نے
مجھے حیران کر دیا۔
آپ بریسٹ کی بات کر رہے ہیں۔۔
اُردو میں نام بتاو۔ ( میں نے جھڑ کنے کے انداز میں کہا )
اُردو میں ۔ تو مجھے نہیں معلوم ۔۔ آپ بتا دو۔۔ اُس نے الٹا مجھ سے پوچھ لیا۔
میں ہنسا اور بولا ۔۔ انہیں مجھے کہتے ہیں ۔۔ اور جو مجھے کے اوپر نیل نما حصہ ہوتا ہے اُسے پستان کہتے ہیں۔ ( مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ سلمی کی بھجھک وقت برباد کرے گی اس لئے میں نے خود ہی سب بولنا شروع کر دیا ) اور جو تمہاری ٹانگوں کے درمیان ناف کے نیچے والا حصہ ہے اُسے چوت بھی کہتے ہیں اور پھدی بھی۔ اور جو میری ٹانگوں کے درمیان ہے اُسے لن یا لوڑا کہتے ہیں۔ اور میں سانس لینے کے لئے رکا تو سلمی مسکرا کر سر جھکائے سب سن رہی تھی )
میرے اور کے بعد خاموش ہونے کے ایک لمحے بعد ہی وہ سوالیہ انداز میں بولی ۔۔ اور ؟
اور مجھے یہ جان کر اطمینان ہوا کہ اسے یہ سب اچھا لگ رہا تھا۔
اور بہت کچھ ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں ۔ تم اپنی آنکھوں سے سب دیکھو اور محسوس کرو۔
میرا یہ دار کام کر گیا۔ مسلمی تجس کی لپیٹ میں پہلے ہی آچکی تھی اور اب اسکی نگاہوں میں سوال تھے کہ وہ یہ سب جاننا چاہتی ہے۔
مگر کیسے ۔ ۔ ؟ میں کیسے دیکھ سکتی ہوں؟ کیا آپ کے پاس تصاویر ہیں ان سب کی ؟
میں نے اسکی بات سن کر ماتھے پر ہاتھ مارا اور بولا ۔۔
بہت معصوم ہو تم بھی ۔۔ اس کے لئے ایک لڑکی کی ضرورت ہے جو تم ہو ۔۔ ایک لڑکے کی ضرورت ہے جو میں ہوں۔
بس تم تھوڑی دیر کے لئے اپنی شرم بھجھک اتار کر ایک طرف رکھ دو ۔ اب اگر اجازت دو تو میں تمہارے پاس آجاؤں ( یہ سب کرنے کے لئے ہمارا قریب ہونا ضروری تھا اس لئے میں نے اور وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور سیدھا مدعے پر آ گیا وہ پہلے کچھ مجھکی لیکن پھر مجھے پاس آنے کا سر ہلا کر اشارہ کر دیا۔ میں جس صوفے پر وہ بیٹھی تھی اُس کے سامنے پڑے میز پر بیٹھ گیا۔ اب وہ میرے بالکل سامنے تھی اور خود میں سمٹنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔ مجھے اتنا قریب دیکھ کر شاید وہ اور زیادہ بے چین ہوگئی تھی اور اتنا قریب آکر میری بھی آنکھیں کھل گئی تھیں۔۔۔ دور سے جو جسم موٹا اور بے ڈنگھا دکھتا تھا پاس آکر پتہ چلا کہ وہ ایک پہاڑ کی مانند ہے اسکی ران کی موٹائی میری چھاتی کی موٹائی سے بھی زیاد تھی۔ میرے پاس آنے اور سامنے بیٹھنے کے بعد سلمی شرم کے مارے کچھ بول نہیں پارہی تھی ۔ کیا ہوا ۔۔ میرا قریب آنا اچھا نہیں لگا کیا ۔؟
نہیں تو ۔۔۔ بس اتنے قریب دیکھ کر کچھ ھبراہٹ ہو رہی ہے۔ ابھی سے گھبرا گئی۔۔ ابھی تو مجھے اور قریب آتا ہے۔۔ ایسے تو کام نہیں چلے گا۔ اور قریب ۔۔ اس سے بھی زیادہ قریب ۔۔ آپ کا اردہ کیا ہے بھائی جان؟ دیکھنے کا۔۔ اور دکھانے کا۔۔ چھونے کا۔۔ اور تم سے کچھ بیچ کروانے کا۔۔ آف ۔۔ (اُس کے منہ سے بے اختیار نکالا ) آپ اور کچھ تو نہیں کرو گے۔ اور ۔ مثلاً ۔۔ کیا ؟ ( میں سمجھنے کے باوجود انجان بن کر بولا )
وہی۔۔ جو میل اور فی میل کرتے ہیں ( اس نے نظریں اب مستقل جھکالیں تھیں ) اور میں اسکی بات پر دل ہی دل میں ہنس دیا۔ بھلا میں کہاں اُس کی پھدی یا گانڈ تک پہنچ سکتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ اُس سے لن چوسنے کا کام لے سکتا تھا وہ بھی اگر اسکا دل مان جاتا تو۔ ہوگا تو وہی سب ۔ لیکن یقین رکھو ایسا کچھ نہیں ہو گا جس سے تمہاری عزت خراب ہو میری اس بات سے سلمی حو صلے میں آگئی اور اس نے سر جھکائے ہی کہا۔ مجھے آپ پر پورا یقین ہے۔ لیکن مجھے کچھ پہی نہیں۔۔ میں نے پہلے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا۔۔ آپ بتاتے جانا میں کرتی جاؤنگی۔
وہ مان گئی تھی ۔۔ اور میرے لن میں اسکی اس بات سے تحریک آنے لگی تھی۔
مجھے جتنی سیکس کی طلب تھی ۔۔ کچھ نا ہونے سے یہ اچھا تھا۔ ۔ وہ اگر لن چوس کر فارغ کرا دیتی یا اُس کے مموں میں رکھ کر فارغ ہو جاتا میرے لئے اتنا بھی غنیمت تھا اور اتنے کے لئے وہ تیار تھی۔
کیا تم نے کبھی پہلے کسی کا لن دیکھا ہے اصل میں ؟ (میں نے اس کا تجس ابھارنے کے لئے پوچھا )
نہیں۔ اسکے منہ سے بس اتنی ہی آواز نکلی )
میرا دیکھوگی ۔۔ بلکہ تم پکڑ کر محسوس کر کے دیکھنا۔۔ بہت مزہ آئے گا
مجھے بہت شرم آرہی ہے۔۔ میں نہیں دیکھ پاؤں گی۔۔ ( وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی )
میرے پاس اس کا بھی حل ہے۔ تم آنکھوں پر پٹی باندھ لو ۔۔ نہ کچھ دکھے گا نہ شرم آئے گی ۔۔ بس محسوس کرتی رہنا
سب کچھ۔۔ کیا خیال ہے؟
ہاں یہ بات ٹھیک ہے
میں نے سلمی کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی ۔ لیکن اس کے چہرے کی خوبصورت پٹی سے چھپ گئی تھی اب تو مجھے لگ رہا تھا مجھے اپنی آنکھوں پر بھی پٹی باندھ لینی چاہیے۔ لیکن مجھے سب دیکھنا تھا۔
سلمی کے ہونٹ بہت پیارے اور رسیلے تھے۔ اُس نے ہلکے گلابی رنگ کی لپ اسٹک بھی لگائی ہوئی تھی لیکن نہ بھی لگائی ہوتی تو بار یک نرم و نازک سے ہونٹ چومنے کے قابل تھے۔ میں نے کھیل کا آغاز یہی سے کرنا بہتر سمجھا۔ ہونٹ چوسنے سے لڑکی کے جذبات کو آگ لگ جاتی ہے۔۔ اور مجھے بھی سلمی کو تھوڑ ا جذباتی کرنا تھا۔
مسئلہ اب اس کے ہونٹوں تک پہنچنے کا تھا۔۔ وہ صوفے پر ٹیک لگائے بیٹھی تھی اور اسکا بے شمار بکھرا ہوا جسم آگے بچھا ہوا تھا۔ میں اسکی گود میں بھی بیٹھ جاتی تو وہاں تک پہنچنا مشکل ہوتا ۔۔ میں اٹھا اور صوفے کی پچھلی جانب سے اس کے سر پر کھڑا ہو گیا ۔۔ اُسے اب کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن اسکی باڈی لینگو بی بتارہی تھی کہ وہ سر پرائز کے انتظار مین ہے۔ میں خاموشی سے اس کے سر پر پہنچ تو گیا تھا لیکن اب اس کے لبوں کو او پر کرنا تھا۔ میں نے اُسے بتانا مناسب سمجھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ ۔ وہ تیار ہو گئی اور میں نے اُسکا چہرہ پیچھے کھینچ کر سیدھا چھت کی طرف کر لیا کو د جھکا اور پہلے ہونٹوں کو ہونٹوں سے بس ملایا ۔۔ اُسے ایک جھٹکا لگا لیکن جلد ہی وہ نارمل ہوگئی۔ میں اُس کے نازک سے نچلے ہونٹ کو اپنے لبوں میں لیکر چوسنا شروع کر دیا۔ وہ سانس تھا سے سب محسوس کرنے لگی۔ ایک کے بعد دونوں ہونٹوں کو چوسنے لگا تو اُس کے جسم مین اکرن آنے لگی۔ یقیناً اُس کے سارے جسم میں سرسراہٹ دوڑ گئی ہوگی۔
اُس نے بے اختیار ہو کر اپنے بھاری بھر کم بازو اٹھائے اور میری گردن میں ڈال دئے ۔ جس سے میرے ہونٹ اس کے ہونٹوں میں اور پیوست ہو گئے ۔۔ وہ بھی شاید یہی چاہتی تھی۔ پھر خود بخود ہی اسے بھی طریقہ آگیا ۔۔ وہ میری اور میں اُس کی زبان چوسنے لگا۔ اسکے جذبات پوری طرح ابھر آئے تھے۔ جی بھر کر اس نے لپ کسنگ کی اس دوران میں اُس کے دیو ہیکل مموں پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ مجھے چھونے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ محے میرے اندازے سے بہت بڑے ہیں۔ اور مجھے انہیں دیکھنے کی بے چینی ہونے لگی تھی ۔
ابھی ہم ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر مزے لے ہی رہے تھے کہ میرے فلیٹ کے مین ڈور کی بیل بج اٹھی ۔ ہم چونک کر الگ ہو گئے اور میں اپنے تنے ہوئے لن کو انڈروئیر میں پھنسا کر سیدھا کرتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا۔۔ یقینا آنٹی واپس آگئی تھیں ۔۔ کیونکہ گھنٹوں گزر چکے تھے۔ دروازہ کھولا تو آنٹی سامنے کھڑی مسکرا رہی تھیں
کیوں بیٹا ؟ سلمی نے پریشان تو نہیں کیا۔
نہیں آنٹی ۔۔ آپ اندر آئیں ۔۔
نہیں بیٹا ۔ سلمی کو بھیج دو میں اب ہنڈیا چڑھاؤنگی۔ سلمی ۔۔ آ جائیٹی ۔۔
انہوں نے سلمی کو آواز دی تو سلمی بمشکل صوفے سے اٹھ کر فرش کولر زاتی ہوئی دروازے کی طرف آنے لگی جب میں مڑ کر اسکی آنکھوں میں دیکھا تو وہاں سوال ہی سوال تھے۔۔ میں نے اُسے کول رہنے کا اشارہ کیا۔۔ اور وہ امی کے ساتھ چلی گئی۔۔
میں دروازہ کھلا چھوڑ کر ہی واپس آکر صوفے پر گر سا گیا۔۔ سارے جذبات کی واٹ لگ گئی تھی۔ سلمی کے ہونٹوں کے لمس نے جو نشہ پیدا کیا تھا اُس نے میرے جسم کو اکثر دیا تھا۔ لین جوتن چکا تھا اب جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ لمبی لمبی سانسیں نکال کر میں نے خود کو نارمل کیا۔۔ اور سوچنے لگا کہ اس ادھورے کھیل کو کیسے پورا کرونگا اب ۔
میری امید کے برخلاف میرے خوب کو پورا کرنے کا سلمی نے خود ہی بندو بست کر دیا ۔۔ دراصل مجھ سے زیادہ اب اُسے میری طلب ہونے لگی تھی۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد سلمی دوبارہ ایک ہاتھ میں ایک کتاب اور کاپی اور دوسرے ہاتھ میں لفن لے کر آ گئی اُس کے پیچھے خالہ بھی تھی۔ دروازہ کھلا تھا اس لئے دونوں بلا جھجھک اندر آ گئیں میں احتراماً کھڑا ہو گیا۔ ۔ ۔ آنٹی مسکراتے ہوئے بولیں۔
لے بیٹا ۔ کھانا کھا ۔۔ اور سلمی کو سوال بھی سمجھا دے۔ میں نے اسے کہا کہ تمہیں وہاں بلا لیتے ہیں لیکن یہ کہنے گئی۔۔ بھائی جان ہمارے ملازم تھوڑے ہی ہیں۔۔ جب کام مجھے ہے تو مجھے جانا چاہیے۔۔ اگر تمہارے پاس ٹائم ہے تو اسے کچھ سمجھا دو۔۔
کیسی باتیں کرتیں ہیں آنٹی (میں نے سلمی کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اب شرم کی بجائے شرارت تھی ) آپ کا اپنا گھر ہے یہ بھی ۔۔ اور پہلے کبھی میں نے سلمی کی مدد کرنے سے انکار کیا ۔
آئی مضمن ہو کر چلی گئیں ۔ ۔ وہ کہی گئی کہ جب اسے سوال حل کرنا آجائے تب اسے گھر بھیجنا۔۔ چاہے جتنی دیر بھی لگ جائے۔۔ میں نے آنٹی کو وداع کر کے دروازہ اندر سے لاک کیا۔۔ اور جیسے ہی واپس مرا ملی کسی پہاڑ کی طرح ایک دم سامنے آگئی۔ اُس نے مجھے بانہوں میں بھرنے کی کوشش کی ۔ ۔ اسکی بانہوں میں میں کسی بچے کی طرح لگ رہا تھا میں نے اسے بانہوں میں لینے کی کوشش کی لیکن میرے بازوں چھوٹے پڑ گئے سلمی نے کھڑے کھڑے مجھے پھر سے لپ کسنگ شروع کر دی۔۔ میں بھی جواب دینے لگا۔۔ اور میرے بھاگ کی طرح بیٹھے ہوئے ارمان پھر جاگنے لگے۔ ۔ میرا لن ہوئے جو لے کھڑا ہوتا چلا گیا ۔۔ جواب سلمی کی ٹانگوں کے درمیان بیچ ہو رہا تھا۔۔ اب سلمی کو آنکھوں پر پٹی باندھنے کی بھی ضرورت نہیں رہی تھی ۔۔
کھیل کسنگ سے شروع ہوا اور صوفے تک پہنچتے سلمی کی قمیض اتر چکی تھی۔ وہ کھلا لباس پہنتی تھی اور پورا ایک تمبو اس کے جسم پر شلوار میض کی شکل میں موجود تھا۔ اُس نے ہاتھ سے سیا ہوا برا پہنا تھا جس کے اتارتے ہی دو بہت بڑے مے اچھل کر سامنے آگئے ۔ جوانی کی ابتداء کی وجہ سے اُس کے ممے سخت تھے ایک نہیں رہے تھے بلکہ تنے ہوئے تھے اور میرے لئے یہ لمحہ انمول تھا جب میں نے ایسے ممے دیکھے تھے۔ مموں کے سائز کے حساب سے اسکی نپلز بہت چھوٹی تھی اتنی کہ بمشکل محسوس ہو رہی تھیں۔ مموں کے نیچے پیٹ چربی کی بہت ساری تہوں کا مجموعہ تھا۔ کمر نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں بس ماس ہی ماس تھا۔ میں نے اُس کے مموں کو ہاتھوں سے پکڑنے کی کوشش کی لیکن کچھ ہی حصہ ہاتھ میں آتا اور پھسل جاتا ۔ ۔ نپلز کو چوسنے کی کوشش کی لیکن منہ میں نہیں آرہی تھیں۔ لیکن میرے ہونٹوں اور زبان کے لمس کو جموں پر محسوس کر کے سلمی مست ہو گئی تھی۔ میں نے اُس کے سارے اوپری جسم کا بغور مشاہدہ کیا وہ حسین تھی لیکن موٹاپے نے اس کے حسن کو گہنا دیا تھا۔ اسکی جلد صاف اور ملائم تھی۔
میں نے اپنا ٹراؤزر بھی اتار دیا اور کھڑا لن نکال کر کر سلمی کے منہ کے آگے کر دیا۔ اچھا تک لن کو سامنے دیکھ کر وہ یکی کی رہ گئی لیکن جلد ہی ایک گہری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔
یہ ۔۔ یہ تو بہت بڑا لگ رہا ہے۔۔ کپڑوں میں تو محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ ایسا ہوگا۔۔ میں چھو کر دیکھ لوں اسے؟
سلمی نے جھجکتے ہوئے پوچھا اور ساتھ ہی اپنا گول مٹول ہاتھ میرے لن کی طرف لے آئی )
یہ بڑا ہے۔۔ میں نے حیران ہو کر کہنا شروع کیا) میں تو سوچ رہا تھا کہ تمہارے کسی بھی سوراک تک پہنچنے کے لئے یہ توسوچ رہاتھا کہ لئے ہے یہ بہت چھوٹا ہے۔ ۔ تمہارے ہاتھ کی نرمی اور منہ کی گرمی سے زیادہ یہ کہیں نہیں پہنچ پائے گا۔
کیا مطلب ۔۔ ؟ اُس نے اپنے ملائم گداز ہاتھ میں ڈرتے ڈرتے میرا لن پکڑتے ہوئے کہا )
مطلب یہ کہ ۔۔ تم نہیں سمجھو گی ۔ تم بتاو کیسا لگ رہا ہے ہاتھ میں پکڑ کر۔۔
بہت ملائم ہے۔۔ جی چاہ رہا ہے ہاتھ پھیرتی رہوں ۔۔
تو رو کا کس نے ہے؟ پھیرو جیسے من کرے۔۔ وہ میرے لن کو سہلانے لگی ۔۔ اس کے گورے ہاتھوں میں گندمی رنگ کا لن بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔ ہاتھ ہونے ہونی کی وجہ سے وہ پوری مٹھی بند نہیں کر سکتی تھی لیکن وہ بڑے پیار سے سہلانے لگی جیسے کوئی بہت ہی قیمتی چیز ہو اور ذرا سے لا پرواہی سے ٹوٹ جائے گی۔۔ مجھے جیسے جیسے اس کے ہاتھ کا مس مل رہا تھا لن کے ساتھ ساتھ جسم بھی اکڑتا جارہا تھا۔ سلائی میرے لن کی ملائم جلد میں کھوئی گئی تھی ۔۔ اچانک بولی۔۔
کیا میں اسے چوم لوں ؟ ۔۔
ہاں ۔ ۔ صرف چومنا کافی نہیں ۔۔ اسے منہ میں لالی پاپ کی طرح ڈالو ۔۔ اور قاری کی طرح چوسو ۔۔ وہ آگے کو بھی ۔۔ میں کھڑا تھا اور وہ صوفے پر بیٹھی تھی۔۔ اس لئے آسانی سے اُس نے لن منہ کے قریب کر لیا۔ پہلے اُس نے ہونٹوں سے نزاکت سے پی کی۔ لین کی ٹوپی پر اس کے ہونٹ محسوس ہوئے ۔ ۔ پھر اس نے ہونٹ لن کی ٹوپی پر پھیر نے شروع کر دئے ۔ ۔ آہستہ آہستہ اسکی زبان باہر آ کر کسی ناگن کی زبان کی طرح لن کو چکھنے لگی ۔ جب اسے اطیمنان ہو گیا کہ لن منہ میں لے جانے میں کوئی حرج نہیں ۔ اُس نے آرام سے منہ کھولا اور ٹوپی منہ میں ڈال لی۔ ٹوپی کو چوسنے کے بعد اس نے آہستہ آہستہ لن کو اور منہ میں جانے دیا اور جلد ہی وہ آدھا لن منہ میں لیجا کر چوس رہی تھی۔ وہ کبھی منہ میں ڈالتی کبھی باہر نکال کر اسے چائے لگتی جیسے کوئی بہت ہی میٹھی چیز اسے مل گئی ہو۔۔
کیسا ہے ذائقہ ؟ ۔ ۔ مزے کا ہے نا۔ ۔ میں نے اُسے اور مست کرنے کے لئے کہا )
ام م م م م م م ۔ ۔ یہ بہت کیوٹ ہے۔۔ بہت پیارا ۔۔ بہت ملائم ۔۔ (وہ ایک ہی سانس میں بول کر پھر چاٹنے لگی )
لن کا نمکین پانی قطروں کی شکل میں ٹوپی سے نکل رہا تھا لیکن وہ اسے بھی چاٹ رہی تھی۔۔ اُسے لن کا ذائقہ لبھا گیا تھا لیکن مجھے آپ منہ میں ہی فارغ ہونے سے آگے بھی کچھ کرنے کی طلب ہورہی تھی۔۔
کیا میں بھی چاٹوں ۔۔؟
میرے سوال پر وہ چونگی ۔۔ اور سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھنے لگی
نیچے میرے لن کی جگہ جو تمہارا سوراخ ہے اُسے ۔۔۔
کھی بھی ۔۔ وہ تو بہت گندی ہے۔۔ آپ اسے کیسے۔۔ نہیں ۔۔؟
وہ بھی اتنی ہی گندی ہے جتنا میرا یہ ۔۔۔ اگر یہ گندہ ہے تو نہیں چاہتا میں ۔۔
وہ کشمکش میں پڑ گئی۔۔ اُس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ کوئی لڑکا ایسے اسکی پھدی چاٹنے کی بات کرے۔۔
لیکن ۔۔ آپ کو کچھ ہوگا تو نہیں ۔۔
مجھے کچھ نہیں ہوتا ۔۔ آؤ۔۔ بیڈ روم میں چلتے ہیں۔۔
وہ میرے پیچھے پیچھے چل پڑی۔۔ جب و و قدم اٹھا کر رکھتی تو اس کے ممے اچھل جاتے اور پیٹ کی جلد میں اہرمیں چلنے لگتی۔ ۔ شلوار کے اندرقید بے شمار گوشت لرز رہا تھا ۔۔
بیڈ پر میں نے اسے لٹادیا اور بڑی مشکل سے اسکی شلوار اتاری۔ تو بہ نکل گئی میری۔۔ ناف سے نیچے کا علاقہ تو گوشت کی تہوں پر مشتمل عجیب سا علاقہ تھا۔ میں اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا اور ٹانگیں کھول کر پہلی نظر اسکی پھدی پر ڈالی ۔ دونوں طرف کے گوشت کے پہاڑوں کے درمیان جسم کی نسبت بہت چھوٹی پھدی چھپی ہوئی تھی ۔۔ اسکی اچھی بھلی ٹانگیں کھولنے کے بعد پھدی کی لکیر نظر آئی۔ پھدی بالکل بند تھی۔ ایک کنواری لڑکی کی ایسی پھدی جس میں اس نے کبھی انگلی تک نہیں ڈالی تھی ۔ سلمی نے اس سے پہلے کبھی اپنے جسم کے ان حصوں کو محسوس ہی نہیں کیا تھا۔۔ وہ پھدی کو صرف پیشاب کرنے کی جگہ بجھتی تھی۔ میں نے جب ٹانگوں کے درمیان لیٹ کر پھدی پر ہاتھ پھیرا تو وہ تراپ کر رہ گئی۔ تھوڑی دیر سہلانے کے بعد میں نے زبان سے اسکی ہلکے ہلکے بالوں والی پھدی کے نازک سے لب انگلیوں سے الگ کرتے ہوئے چاٹنے شروع کر دئے ۔ سلمیٰ کا مزے سے برا حال ہورہا تھا ۔۔ وہ ہاتھ سے بار بار
مجھے پیچھے کر رہی تھی۔۔ میں نے پھدی کے ہونٹ پیچھے کر کے اندر دیکھا تو سوراخ بالکل بند تھا۔ اندر کے ہونٹوں کے درمیان میں بھی گوشت بھر اتھا۔ کوئی سوراخ نظر نہیں آرہا تھا۔
ایک عجیب سی بو آ رہی تھی۔ سلامی کی پھدی نے اب پانی نکالنا شروع کر دیا تھا اور اچھی بھلی گیلی ہوگئی تھی شاید اس کی بو تھی۔۔ میں نے زبان پھدی کے سوراخ میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن منہ تک ہی محدود رہی ۔ میری زبان کے لمس نے مسلمی کو مد ہوش کر دیا تھا ۔۔ وہ اپنے تھے اب خود ہی ہاتھوں سے دبانے لگی تھی۔ تبھی مجھے خیال آیا کہ میں سلمی کی گانڈ مار تو نہیں سکتا کم از کم اسکا سوراخ دیکھنے کی کوشش تو کروں ۔۔
میں اسے گھٹنوں کے بل ہونے کا کہا۔۔ وہ بڑی مشکل سے اٹھی لیکن آسانی سے گھٹنوں کے بل ہوگئی۔۔ میں اسکی گانڈ کے پیچھے بیٹھ گیا اور گوشت کے اس جنگل میں اسکی گانڈ کا سوراخ ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا۔۔ میں نے پوری قوت دے ماس کو پیچھے کیا تو ایک لمحے کو مجھے اسکی گانڈ کے سوراخ کی جھلک مل گئی ۔ ۔ جیسی اسکی اپنی رنگت تھی ویسی ہی گانڈ بھی سرخ و سفید تھی۔۔ سوراخ کا پھول بھی اس کے جسم کی نسبت بہت چھوٹا تھا۔۔
گانڈ کے سوراخ کی جھلک نے مجھ پر نشہ طاری کر دیا تھا۔۔ میں نے کھڑے ہو کر ان کو گانڈ کی لکیر پر رکھ دیا اور لن گانڈ پر پھیرنے لگا۔۔ میں اندازہ لگارہا تھا کہ کسی طرح گانڈ ماری جاسکتی ہے یا نہیں۔۔ پھدی مارنا آسان تھا لیکن میں سلمی کی عزت خراب نہیں کر سکتا تھا ۔۔ جتنی سختی سے اسکی پھدی بند تھی یقینا بہت خون نکلتا جو اس کے لئے تشویش ناک ہو سکتا تھا ۔۔ میں نے ان سے گانڈ کے درمیان مساج کرنے کے انداز میں اینٹری کرنے کی کوشش کی لیکن سارا لن گانڈ میں غائب ہونے کے بعد بھی سوراخ کے قریب تک نہ پہنچا۔۔ تو کیا مجھے اب صرف محموں میں لن رگڑ کر ہی فارغ کرنا تھا یا سلمی منہ سے کر دیتی ۔۔
میں جو بھی کر رہا تھا سلمی اب مزے میں تھی اسے کوئی اعتراض نہیں تھا وہ مست میرے ہر کام سے لطف لے رہی تھی۔۔ میں گانڈ پر ان پھیر رہا تھا ساتھ سوچ رہا تھا کہ اتنا بڑا پچھواڑا میرے سامنے ہے اور گانڈ مارے بغیر جانے دوں تو کیا مزہ سلمی کا۔۔ مجھے ایک ترکیب سوجھ گئی۔۔ میں نے سلمیٰ کو بتا دیا کہ میں لن اسکی گانڈ کے سوراخ میں ڈالنا چاہتا ہوں ۔۔ اور اسے بتایا کہ پھدی میں ڈالنا خطرناک ہو سکتا ہے۔۔ اس نے ابھی تک جو کیا تھا مزہ ہی لیا تھا اس لئے اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ میں نے اُسے دوبارہ سیدھا لیٹایا ۔۔ ایک بڑا تکیہ اسکی کمر کے نیچے بہت مشکل سے رکھا۔۔ اور اسکو کہا کہ ٹانگیں پیٹ سے لگا کر رکھے۔ لیکن گوشت کی زیادتی اسے ایسا کرنے نہیں دے رہی تھی۔ اس نے پوری کوشش کی اور میں نے تانگوں کو نیچے سے دبالیا۔ کام بہت خطر ناک تھا اسکی ٹانگوں کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ میں نیچے آجاتا تو سانس بند ہو جاتی۔ لیکن اس نے پوری ہمت سے ٹانگیں پیٹ کی طرف کئے رکھی۔
میں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا اور لن کو پھدی پر رگڑنے لگا۔ سلمی لن کے لمس کو پھدی پہ پا کر تڑپ اٹھی تھی وہ یقیناً چاہتی تھی کہ لن اسکی پھدی پھاڑ کر اندر چلا جائے لیکن میں ایسا نہیں چاہتا تھا ۔۔ اسکی عمر بھی کم تھی اور پھر مجھے خطرہ تھا خون زیادہ بہے گا۔۔ میں نے پھدی سے نکلے پانی سے لن کو گیلا کیا اور اندازے سے پھدی کے سورخ سے نیچے لن کی ٹوپی پھیلا دی۔ ۔ گانڈ کا سوراخ بالکل نظر نہیں آرہا تھا میں بس اندازے سے ہی اسے تلاش کر رہا تھا۔ لین کو پکڑ کر میں نے ٹوپی سے اسکی گانڈ کا سوراخ ٹولنے کی کوشش کی اور جلد ہی مجھے محسوس ہونے لگا۔ اسکی گانڈ کا سوراخ پھدی کی لکیر جہاں ختم ہو رہی تھی اس کے بالکل ساتھ نیچے تھا۔ میں نے ٹوپی سے سوراخ پر دو تین دفعہ رگڑ لگائی ۔۔ تو سلمی مستی سے آہیں بھرنے لگی۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ لن جب اندر جائے گا تو کیا ہوگا۔
میری پوری کوشش کے باوجود میں ان اسکی گانڈ کے سوراخ میں نہ ڈال سکا۔۔ جیسے ہی دھکا لگا تا اسکی گانڈ کا ماس درمیان میں آجاتا ۔ سوراخ کولن پیچ ضرور ہوتا لیکن اندر جانے والی کوئی صورت نہیں تھی۔۔ میں ہار ماننے پر مجبور ہو گیا۔ سلمی بھی ٹانگیں اور اٹھا کر نہیں رکھ سکتی تھی۔ اتنا بڑا پچھواڑا جب میں نے پہلی بار دیکھا تھا اور جو سوچا تھا وہ سب سچ ثابت ہورہا تھا۔ سلمی کی گانڈ مارنے کے لئے ایک فٹ سے بھی لمبا لن ہونا ضروری تھا۔ تو گویا کوئی بھی ساری زندگی سلمی کی گانڈ نہیں مار سکتا تھا۔ سلمیٰ ہمیشہ گانڈ مروانے کے لطف سے انجان ہی رہے گی۔ میں نے سلمی کو سیدھا لیٹنے کے لئے کہا۔۔ اور 69 کے سٹائل میں اس کے اوپر لیٹ گیا۔ ۔ میرا لن اسکے منہ پر اور میرا منہ اسکی پھدی پر تھا۔۔ میں نے پھدی ایک بار پھر چاٹنی شروع کی تو سلمی نے بھی بے اختیار لن منہ میں ڈال لیا۔ جیسے جیسے میں اسکی پھدی چاٹ رہا تھا وہ میرے لن کو اتنے ہی جوش سے منہ میں سمیٹ رہی تھی۔ وہ فیڈر کی طرح لن منہ میں ہی رکھ کر چوس رہی تھی ۔۔ جلد ہی میرا ان چھوٹنے والا ہو گیا تو میں نے سلمیٰ سے پوچھا کہ منہ میں چھوٹ جاؤں ۔۔ اُس نے ہاں کی لیکن میں نے سوچا اتنی زیادہ منی پہلی دفعہ منہ میں جانے سے اسے الٹی آسکتی ہے۔۔ میں نے اُس کے مموں مین ہی جسٹر نا سچ سمجھا۔۔ میں اسکے پھول جیسے بڑے پیٹ پر بیٹھ گیا ۔ اور لن کو اس کے بھاری بھر کم موں کے درمیان رکھ کر سلائیڈنگ شروع کردی ۔ ۔ تیز تیز سلائیڈنگ سے جلد ہی لن نے منی اگل دی اور گرم گرم منی نے سلمی کے محلے بھر دئے۔ جب میں ٹھنڈا ہو گیا تو سلمی کے محے صاف کئے اور لن پر لگی منی اسے چاٹنے کو کہا جو وہ شوق سے چاٹ گئی۔ اس کے بعد سلمی کپڑے پہن کر اپنے گھر چلی گئی۔۔ اور میں بھی کچھ پر سکون ہو گیا۔
ختم شد