What's new
  • اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    ماہانہ ممبرشپ صرف 1000 روپے میں!

    یہ شاندار آفر 31 دسمبر 2025 تک فعال ہے۔

    ابھی شامل ہوں اور لامحدود کہانیوں، کتابوں اور خصوصی مواد تک رسائی حاصل کریں!

    واٹس ایپ پر رابطہ کریں
    +1 979 997 1312

سیکس کہانی یادگار ٹرپ

Story LoverStory Lover is verified member.

Super Moderator
Staff member
Moderator
Points 93
Solutions 0
Joined
Apr 15, 2025
Messages
143
Reaction score
739
Story LoverStory Lover is verified member.
یہ کہانی دو سال پرانے ایک سفر کی ہے جب میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ناران کاغان گھومنے گیا تھا۔ اس ٹرپ میں میرے باقی دوست کافی سست واقع ہوئے تھے، ان کا شوق بس اتنا تھا کہ جہاں جاتے آرام سے بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے۔

خیر، ہم شام ڈھلتے کیوائی پہنچے اور وہاں سے جیپ کے ذریعے شوگران۔ ہمارا قیام پائن پارک سے ذرا آگے ایک ہوٹل میں تھا۔ سفر کی تھکاوٹ تھی، سب سو گئے۔

اگلے دن ہم سری پائے کے لیے نکلے۔ دن کے 10 بجے ہم وہاں پہنچے تو کافی رونق تھی۔ وہاں موجود جیپوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کوئی بڑا گروپ بھی آیا ہوا ہے۔ خیر، باقی دوستوں نے تھوڑا سا اوپر جا کر ایک ٹینٹ ریستوران میں کرسیاں سنبھال لیں اور مجھے انتہائی بے شرمی سے اکیلے جانے کو کہا۔

میں نے بھی ٹھان لیا کہ اب ان کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گا، جہاں جانا ہے اکیلا ہی جاؤں گا۔

خیر، میں آگے چلتا گیا۔ ذرا سا اوپر گیا تو اندازہ ہوا کہ یہاں رنگ برنگے آنچلوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ کم از کم کوئی تین درجن لڑکیاں ادھر ادھر تتلیوں کی طرح منڈلا رہی تھیں۔ ان کے کچھ گروپس گھاس پر بیٹھ کر کھا پی رہی تھیں، کچھ آنکھ مچولی، بیڈمنٹن وغیرہ جیسے کھیل کھیل رہی تھیں۔ کچھ تصاویر اتار رہی تھیں۔ غرض یہ کہ جنت کا سا سماں تھا۔

میں خاموشی سے ان سے ذرا فاصلے سے گزر گیا۔ مجھے دیکھ کر کچھ نے مسکراہٹ بھی دی مگر میں اس قسم کے کسی ایڈونچر کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔ ایک آدمی اور تین درجن لڑکیاں، یہ رسک کوئی دل گردے والا ہی لے سکتا ہے۔ کسی قسم کی پٹائی کی صورت میں ہر ایک کے حصے میں ایک ایک چماٹ بھی آئے تو بہرہ غرق ہو جائے۔

خیر، کوئی دو گھنٹے کی تھکا دینے والی ہائیکنگ کے بعد میں ایسی جگہ پر پہنچ گیا جہاں کی آکسیجن مجھ جیسے میدانی انسان کے لیے کم تھی تو میں واپس ہو لیا جو کہ زیادہ محنت والا کام تھا۔

جب میں واپس آیا تو میں نے لڑکیوں کو ادھر ادھر بکھرے ہوئے دیکھا۔ اب میدان ایسا تھا کہ لامحالہ مجھے ان کے بیچ میں سے گزرنا تھا۔ میں سر جھکائے گزرنے لگا۔

اتنے میں آواز آئی: "ایکسکیوز می! کیا آپ ہماری ایک تصویر لے لیں گے؟"

یہ کہنے والی ایک گندمی سی رنگت والی، بھرے ہوئے جسم کی لڑکی تھی، جس کی عمر تقریباً 22-23 سال کے قریب تھی۔ آنکھیں اور ہونٹ بھرے ہوئے اور بھورے رنگ کے بال تھے۔ اس نے ٹائٹ فٹڈ کپڑے پہنے تھے اور ماتھے پر سن گلاسز لگائے ہوئے تھے۔

میں نے اپنے کیمرے کو دیکھا اور کہا: "مگر میں آپ کی تصویر لے کر کیا کروں گا؟"

وہ بولی: "ہیلو، میں اپنے کیمرے سے کہہ رہی ہوں۔"

میں بولا: "اوہ، آئی ایم سوری! میری نظر کیمرے پر گئی ہی نہیں۔ لیجیے۔"

(یہ سچ تھا کیونکہ میں تو اپنی آنکھیں اس کے جسم پر رکھے ہوئے تھا اور وہ بات وہ بھی بہت اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔)

میں نے ان کے گروپ کی کوئی 5-6 تصاویر لیں اور کیمرہ انہیں واپس کر دیا۔ میں ذرا سا آگے ہوا تو اس نے پھر آواز دی: "سنئیں۔"

میں نے کہا: "جی، سنائیے۔"

"شکریہ، آپ نے ہماری مدد کی، یہ لے لیں۔"

اس نے ایک ڈسپوز ایبل گلاس میں مجھے ڈیو دی۔ میں نے شکریہ کہہ کر لے لی اور بولا: "ویسے کاش میں آپ کی ایک تصویر اپنے کیمرے سے لیتا تو شاید اس وادی کی تصاویر میں ایک حسین اضافہ ہوتا۔"

وہ مسکرا دی اور شکریہ کہہ کر چلی گئی۔

جب میں میدان سے گزرا تو اس کے ساتھ کچھ ٹیچرز ٹائپ خواتین مجھے کافی گھور کر دیکھ رہی تھیں۔

جب میں واپس آیا تو میرے دوست کھا پی کر تھک چکے تھے اور اب پھر تھکان اتارنے کے لیے چائے پی رہے تھے۔ اتنے میں وہ سب ہمارے قریب سے گزریں۔

لڑکیوں کو آتا دیکھ کر ان سب کی رال ٹپکنے لگی۔ وہ لڑکیوں کا گروپ بھی ہمارے ساتھ سے گزرا۔ وہ لڑکیاں مجھے دیکھ کر مسکرائیں اور گے چلی گئیں۔ اب میرے دوستوں کو بھی جوش آیا اور وہ ضد کرنے لگے کہ چلو واپس چلیں، یہ سب سری لیک پر ضرور رکیں گی۔

میں نے ان کو جھوٹ بولا کہ نہیں، یہ آتے ہوئے لیک سے ہو کر آئی ہیں۔ مگر وہ بے چین ہی رہے تھے اور ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر شوگران پہنچ جائیں۔

ہم کوئی تین بجے کے قریب شوگران پہنچے۔ میں تھک گیا تھا اسی لیے کھانا کھا کر سو گیا۔ شام کو باہر نکلا تو لڑکیاں پورے شوگران میں پھیلی ہوئی تھیں۔ میں بھی ایک ریستوران میں بیٹھ گیا اور چائے منگوائی۔

اس گروپ کی ایک لڑکی وہاں تھی۔ میں نے اسے سر کے اشارے سے وش کیا۔ جواب میں اس نے بھی مجھے مسکرا کر دیکھا۔ دس منٹ کے بعد وہ لڑکی بھی وہاں آ گئی۔ کچھ دیر اپنی دوستوں کے ساتھ بیٹھنے کے بعد وہ میرے پاس آ گئی۔

"آپ یہاں بھی؟" وہ بولی۔

"شوگران صرف آدھے کلومیٹر جتنا ہی تو ہے، یہاں ملنا تو ظاہر تھا۔ ویسے آپ کا پلان کیا ہے؟"

وہ بولی: "بس یہاں سے ناران اور وہاں سے مری۔ اور آپ کا؟"

میں نے کہا: "پہلے تو نہیں، اب یہی ہے مس…؟"

"نازش۔" وہ مسکرا کر بولی۔

"فیصل خان۔ ڈاکٹر فیصل خان۔" میں نے اپنا تعارف کروایا۔

مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب کام قریب قریب بن گیا ہے۔

ہم نے تھوڑی دیر باتیں کی پھر وہ چلی گئی۔

اگلے دن جب ہم شوگران سے نکلے تو وہ لوگ ناران جا چکے تھے۔

میری اس سے ناران میں دو دن کے قیام کے دوران کئی بار ملاقات ہوئی اور میں نے اسے ڈنر بھی کروایا۔

ان ملاقاتوں میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس کا دماغ تیار ہے اور وہ بھی یہی سب چاہتی ہے۔

پھر وہ مری آ گئی۔ میرے دوست واپس لاہور آ گئے جب میں مری چلا گیا۔

مری میں میں نے کمرہ لیا اور اسے کال کر کے مال پر بلایا۔

وہ سفید کرتے کے ساتھ سیاہ جینز پہن کر آئی۔

ہم نے ساتھ کھانا کھایا پھر میں نے اس سے پوچھا: "نازش، کیا خیال ہے کہیں چل کر باتیں کریں، یہاں بہت رش ہے۔"

اس نے میرے ہوٹل کا نام پوچھا اور اپنی دوستوں کو کال کر کے بتایا کہ وہ میرے ساتھ اس ہوٹل میں اس کمرے میں جا رہی ہے، کوئی مسئلہ ہو یا کوئی اس کا پوچھے تو وہ فوراً اطلاع کریں۔

کمرے میں پہنچ کر وہ تھوڑا کنفیوز ہو گئی مگر زیادہ پریشان نہیں تھی۔

وہ واش روم میں گئی اور کوئی دس منٹ بعد باہر آئی تو مجھے اس کے جسم سے پرفیوم کی خوشبو آئی۔

وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔

میں بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کے بالوں سے اس کے ہونٹوں تک لایا اور اسے ہونٹوں پر بوسہ دیا۔

وہ پہلے تو ذرا شرمائی مگر پھر میرا ساتھ دینے لگی۔ میں نے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈال دی اور اسے لٹا کر اس کے اوپر لیٹ گیا۔

اپنے ہاتھوں سے میں اس کے جسم کے تمام حصوں کو سہلانے لگا۔

اس نے اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں اور میں بھی آسانی سے اپنا لن اس کی ٹانگوں کے بیچ رگڑنا شروع کر دیا۔ وہ پورے جوش سے میرا ساتھ دے رہی تھی۔

بوسہ کرتے ہم صوفے سے نیچے زمین پر آ گئے۔ میں نے اس کا کرتا اتار دیا۔ اس نے نیچے سیاہ رنگ کا برا اور انڈرویئر پہنا تھا۔

وہ میرے اوپر لیٹ گئی اور مجھے بوسہ دینے لگی۔

اگلا، میں نے اس کا برا بھی اتار دیا۔

اس کے سینوں پر جب میری نظر پڑتی تو آنکھیں خیرہ ہو جاتیں۔

وہ میرے اوپر ہی لیٹ کر بوسہ دیتی رہی۔

کچھ دیر اس کے نپلز کو بوسہ دیتا رہا اور وہ منہ سے آوازیں نکالتی رہی۔ پھر وہ اچانک دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گئی۔ میں نے اس کے ممے اپنے ہاتھوں میں پکڑے اور دبانے لگا۔

اب میں نے اس کی پینٹ بھی اتار دی۔ وہ صرف انڈرگارمنٹس میں ہی رہ گئی۔

میں نے اسے صوفے پر لٹایا اور اس کے جسم پر بوسہ دینے لگا۔

آخر کار میری برداشت ختم ہو گئی، اس کے اور اپنے سارے کپڑے اتار دیے اور میں اسے بیڈ پر لے آیا۔

اسے مضبوطی سے تھام کر اسے بوسہ دینے لگا۔

میں نے اپنی انگلی سے اس کی چوت کو رگڑنا شروع کیا۔ واگینا پہلے ہی کافی گیلی ہو چکی تھی۔ وہ بہت زیادہ لطف اندوز ہو رہی تھی۔ جب میں نے اس کے اندر اپنا لن ڈالنا چاہا تو وہ بولی: "پلیز، تھوڑی دیر رکو، ابھی اسی طرح کرو، مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔"

میں نے مزید 15 منٹ اس کے ساتھ فور پلے کیا۔ اس کے سینوں سے لے کر ناف تک سارے جسم کو خوب بوسہ دیا۔ ساتھ ہی میں نے اس کی چوت کو خوب رگڑا۔ اس کی چوت بالکل شیوڈ اور صاف تھی، جس کا مطلب تھا کہ وہ آج کے لیے تیار ہو کر آئی تھی۔

میں نے کنڈوم نکالا تو وہ بولی: "پلیز یہ نہیں، میرے پاس دوسرا ہے وہ پہنو۔"

میں اس کے پرس سے فلیورڈ کنڈوم لے آیا۔ پورے کمرے میں اسٹرابیری کی خوشبو پھیل گئی۔ جب میں نے کنڈوم پہن لیا تو اس نے پہلے کافی اناڑی پن سے چوپا لگانا شروع کیا۔ مگر آہستہ آہستہ وہ کافی اچھے طریقے سے چوپا لگانے لگی۔ میں لطف اندوز ہو رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے اسے کہا کہ اب بس کرو۔

میں نے اسے سیدھا لٹا دیا اور اس کی ٹانگیں کھول اٹھا دیں۔ پہلے ٹوپی کو چوت پر رگڑا، پھر آرام سے ڈال دیا۔ لن بغیر کسی مشکل کے اندر چلا گیا۔

مجھے اندازہ تھا کہ وہ کوئی کنواری لڑکی نہیں ہے، ہاں مگر کوئی خاص تجربہ کار بھی نہیں تھی۔

میں پہلے آرام سے، پھر ذرا زور سے اسے چودنے لگا۔ وہ بھی ہونٹوں سے سسکیاں اور آوازیں نکالتی رہی۔

میں اسی انداز میں کچھ دیر تک اسے چودتا رہا مگر اب مجھے لگنے لگا کہ میں زیادہ دیر ٹک نہیں پاؤں گا تو میں رک گیا۔ 2-3 منٹ بوسہ کرنے کے بعد میں نے دوبارہ اسے چودا مگر اس بار ٹانگیں تھوڑا سا اوپر اٹھا لیں۔

اس طریقے سے اس کے زیادہ اندر جانے لگا اور تھوڑا بھی کافی محسوس ہونے لگا۔ وہ بھی اب پورے جوش سے میرے ہونٹوں کو بوسہ دینے لگی۔ اس کی ٹانگوں کے بیچ سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بھی پوری جوش و خروش میں ہے۔

میں کسی بھی لمحے چھوٹ سکتا تھا، اسی لیے میں اس کے اوپر سے ہٹ کر اس کی ٹانگیں کھول کر چودنے لگا۔ یہ آخری لمحات سب سے زیادہ پرلطف تھے ہم دونوں کے لیے۔

اب وہ زور زور سے آوازیں نکالنے لگی۔ آخر میں چھوٹ گیا اور اسی کے اوپر لیٹ گیا۔

کچھ دیر لیٹنے کے بعد ہم باتیں کرنے لگے۔

اس نے بتایا کہ وہ اور اس کا کزن کافی عرصے سے سیکس کرتے ہیں مگر اس نے ایسا سیکس کبھی انجوائے نہیں کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ لوگ گھر پر چھپ چھپ کر جلدی جلدی کرتے ہیں مگر یہاں کھل کر سیکس کیا۔

جبکہ فلیورڈ کنڈوم اس کی دوست نے اسے دیا تھا اور یہ اس کا پہلا تجربہ تھا۔

اس نے بغیر نہائے کپڑے پہنے اور جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ کل پھر آنے کا وعدہ کیا۔

میں اسے باہر تک چھوڑ آیا۔(ختم شد)
 
Back
Top