What's new
  • اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    اردو اسٹوری کلب پرائم ممبرشپ

    ماہانہ ممبرشپ صرف 1000 روپے میں!

    یہ شاندار آفر 31 دسمبر 2025 تک فعال ہے۔

    ابھی شامل ہوں اور لامحدود کہانیوں، کتابوں اور خصوصی مواد تک رسائی حاصل کریں!

    واٹس ایپ پر رابطہ کریں
    +1 979 997 1312

وائف افئیر کہانی میری محبت کی قیمت

Story LoverStory Lover is verified member.

Super Moderator
Staff member
Moderator
Points 93
Solutions 0
Joined
Apr 15, 2025
Messages
143
Reaction score
735
Story LoverStory Lover is verified member.
میں صائمہ ہوں، 30 سال کی بہت ہی خوبصورت عورت، میرے شوہر دانش بزنس مین ہیں۔ میں آپ کو اس واقعہ کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں جو آج سے کوئی دس سال پہلے پیش آیا تھا، اس واقعے نے میری زندگی ہی بدل دی۔۔۔
میرے جسمانی تعلقات میری سہیلی کے شوہر سے ہیں اور اس کے لیے وہی قصوروار ہے۔ میرے دو بچوں میں سے ایک کا باپ دانش نہیں بلکہ میری سہیلی کا شوہر ہے۔
اس وقت میں پڑھائی کر رہی تھی۔ میری ایک پیاری سی سہیلی ہے، نام ہے عاشی۔ ویسے آج کل وہ میری نند ہے، دانش عاشی کا ہی بھائی ہے، عاشی کے بھائی سے شادی کرنے کے لیے مجھے ایک بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ ہم دونوں کالج میں ساتھ ساتھ پڑھتے تھے، ہماری جوڑی بہت مشہور تھی، ہم دونوں ہی بہت خوبصورت اور چھریرے بدن کی مالک تھیں، بدن کے کٹاؤ بڑے ہی سیکسی تھے، میری چھاتیاں عاشی سے بھی بڑی تھیں لیکن ایک دم ٹائٹ۔
ہم اکثر ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے۔ میرا عاشی کے گھر جانے کا مقصد ایک اور بھی تھا، اس کا بھائی دانش۔ وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا، اس وقت وہ بی ٹیک کر رہا تھا۔ بہت ہینڈسم اور خوبصورت بدن کا مالک ہے دانش! میں اس سے دل ہی دل محبت کرنے لگی تھی۔ دانش بھی شاید مجھے پسند کرتا تھا۔ لیکن منہ سے کبھی کہا نہیں۔ میں نے اپنا دل عاشی کے سامنے کھول دیا تھا۔ ہم آپس میں لڑکوں کی باتیں بھی کرتے تھے۔
مصیبت تب آئی جب عاشی سکندر کی محبت میں پڑ گئی۔ سکندر کالج یونین کا لیڈر تھا۔ اس میں ہر طرح کی بری عادتیں تھی۔ وہ ایک امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد تھا۔۔۔ اس کے والد ایک مشہور صنعت کار تھے، کھلی کمائی تھی اور بیٹا اس کمائی کو اپنی عیاشی میں خرچ کر رہا تھا، دو سال سے فیل ہو رہا تھا۔
سکندر مجھ پر بھی گندی نظر رکھتا تھا پر میں اس سے بری طرح نفرت کرتی تھی، میں نے اس سے دور ہی رہتی تھی۔ عاشی پتہ نہیں کس طرح اس کی محبت میں پڑ گئی۔ مجھے پتہ چلا تو میں نے کافی منع کیا لیکن اس نے میری بات کی بالکل بھی پرواہ نہیں کی۔ وہ تو سکندر کی چکنی چپڑی باتوں کے سحر میں ہی کھوئی ہوئی تھی۔
ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اس کے ساتھ سکندر سے جسمانی تعلق بھی قائم ہو چکا ہے۔ میں نے اسے بہت برا بھلا کہا مگر وہ تھی گویا چکنا گھڑا اس پر کوئی بھی بات اثر نہیں کر رہی تھی۔
ایک دن میں اکیلی سٹوڈنٹ روم میں بیٹھی کچھ تیاری کر رہی تھی، اچانک سکندر وہاں آ گیا اس نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی مگر میں نے اپنا سر گھما لیا۔ اس نے مجھے باہوں سے پکڑ کر اٹھا دیا۔
میں نے کہا: کیا بات ہے؟ کیوں پریشان کر رہے ہو؟
سکندر بولا - تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔
"میں تیرے جیسے آدمی کے منہ پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتی! " میں نے کہا، تو وہ غصے سے تلملا گیا۔ اس نے مجھے کھینچ کر اپنی باہوں میں لے لیا اور تپاک سے ایک چما میرے ہونٹوں پر دے دیا۔
میں ایک دم ہکی بکی رہ گئی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ کسی پبلک مقام پر ایسا بھی کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سنبھلتی، اس نے میرے دونوں ممے پکڑ کر مسل دیے، میرے نپلز انگلیوں میں بھر کے کھینچ لیے اور قمیض کے اوپر سے ہی منہ لگا کر دانت سے کاٹ لیا۔ میں فورا وہاں سے جانے لگی تو اس نے شلوار کے اوپر سے ہی میرے چوتڑ پکڑ کر مجھے اپنے بدن کے ساتھ چپکا لیا، مجھے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا موٹا لنڈ پیچھے سے میری رانوں میں سے گزر کر میری چوت پر گڑا جا رہا تھا۔
میں نے کہا: مجھے کوئی بازاری لڑکی مت سمجھنا، جو تیری بانہوں میں آ جاؤں گی۔ یہ کہہ کر میں نے گھوم کر اس کے منہ پر ایک چانٹا جما دیا۔
تبھی کسی کے قدموں کی آواز سن کر وہ وہاں سے بھاگ گیا۔
اس کے بعد سارا دن موڈ خراب رہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی بھی میری چوچیوں کو مسل رہا ہو، بہت غصہ آ رہا تھا۔ دونوں چھاتیاں چھونے سے ہی درد کر رہی تھیں۔
گھر پہنچ کر میں نے اپنے کمرے میں آ کر جب کپڑے اتار کر اپنی گوری گوری چھاتیوں کو دیکھا تو رونا ہی آ گیا، گوری چھاتیوں پر مسلے جانے سے نیلے نیلے نشان پڑے صاف نظر آ رہے تھے۔
شام کو عاشی آئی: آج سنا ہے تم سکندر سے لڑ پڑیں؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔
میں نے کہا: لڑ پڑی؟ میں نے اسے ایک جم کر چانٹا مارا۔ اور اگر وہ اب بھی نہیں سدھرا تو میں اس کا چپلوں سے استقبال کروں گی۔۔۔ سالا لوفر!
عاشی: ارے کیوں غصہ کرتی ہو۔ تھوڑا سا اگر چھیڑ ہی دیا تو اس طرح کیوں بگڑ رہی ہے؟ وہ تیرا ہونے والا نندوئی ہے۔ رشتہ ہی کچھ ایسا ہے کہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ تو چلتی ہی رہتی ہے۔
میں: تھوڑی چھیڑ چھاڑ مائی فٹ! دیکھے گی، کیا کیا اس تیرے آوارہ عاشق نے؟ میں نے یہ کہہ کر اپنی قمیض اوپر کرکے اسے اپنی چھاتیاں دکھائیں۔
عاشی: چچچ۔۔۔ کتنی بری طرح مسلا ہے سکندر نے! وہ ہنس رہی تھی۔ مجھے غصہ آ گیا مگر اس کی منتوں سے میں آخر ہنس دی۔ لیکن میں نے اس کہہ دیا کہ آپ اس آوارہ عاشق کو کہہ دینا میرے چکر میں مت رہے۔ میرے آگے اس کی نہیں چلنی!
بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ دن بعد میں نے محسوس کیا کہ عاشی کچھ اداس رہنے لگی ہے۔ میں نے وجہ جاننے کی کوشش کی مگر اس نے مجھے نہیں بتایا۔ مجھ سے اس کی اداسی دیکھی نہیں جاتی تھی۔
ایک دن اس نے مجھ سے کہا: صائمہ، تیرے پریمی کے لیے لڑکی ڈھونڈی جا رہی ہے۔
میں تو گویا آسمان سے زمین پر گر پڑی "کیا۔۔۔ ؟؟؟"
"ہاں صائمہ! بھیا کے لیے رشتے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ جلدی کچھ کر، نہیں تو اسے کوئی اور لے جائے گی اور تو ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔
"لیکن میں کیا کروں؟"
"تو بھیا سے بات کر!"
میں نے دانش سے بات کی۔
لیکن وہ اپنے ممی پاپا کو سمجھانے میں ناکام تھا۔ مجھے تو ہر طرف اندھیرا ہی دکھ رہا تھا۔ تبھی عاشی ایک روشنی کی طرح آئی۔۔۔
"بڑی جلدی گھبرا گئی؟ ارے ہمت سے کام لے!"
"مگر میں کیا کروں؟ دانش بھی کچھ نہیں کر پا رہا ہے۔"
"میں تیری شادی دانش سے کروا سکتی ہوں۔" عاشی نے کہا تو میں اس کا چہرہ تکنے لگی۔
"لیکن۔۔۔ کیوں؟"
"کیوں؟ میں تیری سہیلی ہوں ہم دونوں زندگی بھر ساتھ رہنے کی قسم کھاتے تھے۔ بھول گئی؟"
"مجھے یاد ہے سب، لیکن تجھے بھی یاد ہے یا نہیں، میں یہ دیکھ رہی تھی۔"
اس نے کہا: میں ممی پاپا کو منا لوں گی تمہاری شادی کے لیے مگر اس کے بدلے تمہیں میرا ایک کام کرنا ہو گا!
"ہاں ہاں، بول نا! کیا چاہتی ہے مجھ سے؟" مجھے لگا جیسے جان میں جان آ گئی ہو۔
"دیکھ تجھے تو معلوم ہی ہے کہ میں اور سکندر ساری حدود پار کر چکے ہیں، میں اس کے بغیر نہیں جی سکتی۔" اس نے میری طرف گہری نظر سے دیکھا۔۔۔ "تو میری شادی سکندر سے کروا دے، میں تیری شادی دانش سے کروا دوں گی!"
میں نے گھبراتے ہوئے کہا: میں تیرے ممی پاپا سے بات چلا کر دیکھوں گی۔
عاشی بولی: ارے، میرے ممی پاپا کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کام تو میں خود ہی کر لوں گی!
"پھر کیا پریشانی ہے تیری؟"
"سکندر۔۔۔! " اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، "سکندر نے مجھ سے شادی کرنے کی ایک شرط رکھی ہے۔"
"کیا؟" میں نے پوچھا۔
"تم! " اس نے کہا تو میں اچھل پڑی، "کیا؟۔۔۔ کیا کہا؟" میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
"ہاں، اس نے کہا ہے کہ وہ مجھ سے تبھی شادی کر سکتا ہے جب میں تجھے اس کے پاس لے جاؤں۔"
"اور تُو نے۔۔۔ تُو نے مان لیا؟" میں چلّائی۔
"آہستہ بول، ممی کو پتہ چل جائے گا۔ وہ تجھے ایک بار پیار کرنا چاہتا ہے، میں نے اسے بہت سمجھایا مگر اسے منانا میرے بس میں نہیں ہے۔"
"تجھے معلوم ہے کہ تُو کیا کہہ رہی ہے؟" میں نے غرّا کر اس سے پوچھا۔
"ہاں! میں اپنی پیاری سہیلی سے اپنے پیار کی بھیک مانگ رہی ہوں۔۔۔ تُو سکندر کے پاس چلی جا، میں تجھے اپنی بھابھی بنا لوں گی!"
میرے منہ سے کوئی بات نہیں نکلی۔ کچھ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
عاشی نے کہا: اگر تو نے مجھے مایوس کیا تو میں بھی تجھے کوئی ہیلپ نہیں کروں گی۔
میں خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر گھر چلی آئی۔ مجھے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کروں۔ ایک طرف کنواں تو دوسری طرف کھائی۔
دانش کے بغیر میں نہیں رہ سکتی اور اس کے ساتھ رہنے کے لیے مجھے اپنی سب سے بڑی دولت گنوانی پڑ رہی تھی۔
رات کو کافی دیر تک نیند نہیں آئی۔ صبح میں نے ایک فیصلہ کر لیا۔ میں عاشی سے ملی اور کہا، "ٹھیک ہے، تم جیسا چاہتی ہے ویسا ہی ہو گا۔ سکندر کو کہنا کہ میں تیار ہوں۔" وہ سنتے ہی خوشی سے اچھل پڑی۔
"لیکن صرف ایک بار! اور ہاں کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ ایک بات اور۔۔۔"
عاشی نے کہا: ہاں بول جان! تیرے لیے تو جان بھی حاضر ہے۔"
"اس کے بعد تو میری شادی اپنے بھائی سے کروا دے گی اور تیری شادی ہوتی ہے یا نہیں، اس کے لیے میں ذمہ دار نہیں ہوں۔" میں نے اس سے کہا۔
وہ تو اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔ عاشی نے اگلے دن مجھے بتایا کہ سکندر مجھے ہوٹل پارک ویو میں ملے گا۔ وہاں اس کا سویٹ بک ہے۔ ہفتہ شام 8 بجے وہاں پہنچنا تھا۔ عاشی نے میرے گھر پر چل کر میری امی سے بات کر کے مجھے ہفتے کی رات اپنے گھر رکنے کے لیے منا لیا۔
میں چپ رہی۔ ہفتہ کے بارے میں سوچ سوچ کر میرا برا حال ہو رہا تھا، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں ٹھیک کر رہی ہوں یا نہیں۔ ہفتہ کی صبح سے ہی میں کمرے سے باہر نہیں نکلی، شام کو عاشی آئی، اس نے امی کو منایا مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے، اس نے امی سے کہا کہ ہم دونوں سہیلیاں رات بھر پڑھائی کریں گی اور میں ان کے گھر رات کو رک جاؤں گی۔
اس نے بتا دیا کہ وہ مجھے اتوار کو چھوڑ جائے گی۔ مجھے پتہ تھا کہ مجھے سنیچر کی رات اس کے ساتھ نہیں بلکہ اس آوارہ بدمعاش سکندر کے ساتھ گزارنی تھی۔
ہم دونوں تیار ہوکر نکلے۔ میں نے ہلکا سا میک اپ کیا۔ ایک سادہ سا کرتہ پہن کر نکلنا چاہتی تھی مگر عاشی مجھ سے الجھ پڑی، اس نے مجھے خوب سجایا سنوارا۔
پھر ہم نکلے۔ وہاں سے نکلتے نکلتے شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے۔
"عاشی، مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے۔ وہ مجھے بہت ذلیل کرے گا۔ پتہ نہیں میری کیا حالت بنائے!" میں نے عاشی کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
"ارے نہیں، میرا سکندر ایسا نہیں ہے!"
میں نے کہا: ایسا نہیں ہے؟ سالا لوفر! میں جانتی ہوں کتنی لڑکیوں سے اس کے تعلقات ہیں۔ تو وہاں میرے ساتھ رہے گی۔ رات کو تو بھی وہیں رکے گی۔
"نہیں! میں نہیں جاؤں گی۔"
"نہیں نہیں، تو میرے ساتھ ہی رہے گی۔"
"نہیں نا جان! سکندر نے منع کیا ہے مجھے ساتھ رکنے سے۔۔۔ لیکن تو گھبرا مت، میں اسے سمجھا دوں گی۔ وہ تیرے ساتھ بہت اچھے سے پیش آئے گا۔"


ہم آٹو لے کر ہوٹل پارک ویو پہنچے، وہاں ہمیں سوٹ نمبر 205 کے سامنے پہنچا دیا گیا۔ عاشی نے ڈور بیل پر انگلی رکھی۔ بیل کی آواز ہوئی۔ کچھ دیر بعد دروازہ تھوڑا سا کھلا۔ اس میں سے سکندر کا چہرہ نظر آیا۔
"گڈ گرل! " اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
مجھے لگا جیسے میں اس کے سامنے ننگی ہی کھڑی ہوں۔
"آؤ اندر آ جاؤ۔" اس نے دروازے کو تھوڑا سا کھول دیا۔
میں اندر آ گئی۔ میرے اندر آتے ہی دروازے کو بند کرنے لگا۔
عاشی نے آواز لگائی - سکندر، مجھے بھی تو آنے دو۔۔۔
"تیرا کیا کام ہے یہاں؟ تجھے پہلے ہی منع کیا تھا نا۔۔۔ چل بھاگ جا یہاں سے! کل صبح آ کر اپنی اس رنڈی کو لے جانا! " کہہ کر بھک سے سکندر نے دروازہ بند کر دیا۔
میں نے چاروں طرف دیکھا۔ اندر اندھیرا ہو رہا تھا۔ ایک آرائشی سپاٹ لائٹ کمرے کے بیچوں بیچ گول روشنی کا دائرہ بنا رہی تھی۔ کمرہ مکمل نظر نہیں آ رہا تھا۔
اس نے میری بازو پکڑی اور کھنچتا ہوا اس روشنی کے دائرے میں لے گیا۔
"بڑی شیرنی بنتی ہے؟ آج تیرے دانت ایسے توڑوں گا کہ تیری قیمت دو ٹکے کی بھی نہیں رہ جائے گی۔"
میں اپنے آپ کو سمیٹے ہوئے کھڑی ہوئی تھی۔
اس نے مجھے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے موٹے موٹے ہونٹ رکھ دیے۔ اس کی زبان میرے ہونٹوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے میرے منہ میں داخل ہو گئی۔ اس کے منہ سے شراب کی تیز بدبو آ رہی تھی۔ شاید میرے آنے سے پہلے پی رہا ہو گا۔ وہ میرے منہ کا کوئی کونا اپنی زبان پھیرئے بغیر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ ایک ہاتھ سے میرے بدن کو اپنے سینے پر بھینچے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ کو میری پیٹھ پر پھیر رہا تھا۔
اچانک میرے چوتڑوں کو پکڑ کر اس نے زور سے دبا دیا اور اپنے سے چپکا لیا۔ اب میں اس کے لنڈ کو اپنی چوت کے اوپر چپکا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ میں اس کے چہرے کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس نے مجھے پل بھر کے لیے چھوڑا اور میری قمیض کو پکڑ کر اوپر کر دیا۔ میں سہمی سی ہاتھ اوپر کر کے کھڑی ہو گئی۔ اس نے قمیض کو میرے بدن سے الگ کر دیا، پھر میری برا میں ڈھکی دونوں چھاتیوں کو پکڑ کر زور سے مسل دیا۔
اور اتنی زور سے مسلا کہ میرے منہ سے "آآآآآآآہہہہ" نکل گئی۔ اس نے میری دونوں چوچیوں کے بیچ سے میری برا کو پکڑ کر زور سے ایک جھٹکا دیا۔ میری برا پھٹ کر دو حصوں میں الگ ہو گئی۔ اب میرے بریسٹس اس کی آنکھوں کے سامنے ننگے ہو گئے۔ اس نے میرے بدن سے میری پھٹی ہوئی برا کو اتار کر پھینک دیا اور دوبارہ میرے نپل کو پکڑ کر زور زور سے مسلنے لگا۔
"اووووہ اووفففف پلیز پلیز آہستہ کرو! '' میں نے درد سے تڑپتے ہوئے کہا۔
"کیوں بھول گئی اپنے تھپڑ کو حرامزادی؟ آج بھی میں بھولا نہیں ہوں وہ بے عزتی۔ آج تیری چوت کو ایسے پھاڑوں گا کہ تو کبھی اپنا سر اٹھا کر بات نہیں کر پائے گی۔ ساری زندگی میری رنڈی بن کر رہے گی!" یہ کہہ کر وہ میری ایک چھاتی کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا، چوس کیا کھا ہی رہا تھا میری ممے کو۔
اس نے میری شلوار کے ناڑے کو ایک جھٹکے میں توڑ دیا، شلوار سرسراتی ہوئی میرے قدموں پر ڈھیر ہو گئی۔
"میں ایسا ہی ہوں! جو بھی میرے سامنے کھلنے میں دیر لگاتی ہے، اسے میں توڑ دیتا ہوں۔" وہ بولے جا رہا تھا - سالی مادرچود! چانٹا مارا تھا نا تو نے مجھے! کتیا اب دیکھ سالی رنڈی!
اور پھر میرے ممے کو کچل کر میری چوت کو بھی مسلنے لگا، وہ نوچ رہا تھا مجھے! پھر اس نے میری ایک بازو پکڑ کر مروڑ دی۔
میں درد کے مارے پیچھے گھوم گئی۔
اس نے زمین سے میرا دوپٹہ اٹھا کر میرے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف کرکے سختی سے باندھ دیا، لائٹ کا سوئچ آن کر دیا۔
پورا کمرہ روشنی سے جگمگا اٹھا۔ سامنے صوفے پر ایک اور لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔
"اسے تو تم پہچانتی ہو گی؟ میرا دوست سنی!"
سنی اٹھ کر پاس آ گیا، اس نے میرے بدن کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ میں نے جھک کر بچنے کی کوشش کی، سنی نے میرے بالوں کو پکڑ کر میرے چہرے کو اپنی طرف کھینچا، میرے چہرے کو اپنے پاس لا کر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔
سکندر میرے جسم کے نیچے کے حصوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ میری ران پر کبھی چٹکی کاٹتا تو کبھی چوت کے اوپر ہاتھ پھیرتا۔ پھر اس نے میری پینٹی کو بھی میرے جسم سے الگ کر دیا اور ایک ہی جھٹکے سے اپنی دو موٹی موٹی انگلیاں میری چوت میں ڈال دیں اور ایک انگلی میری گانڈ میں گھسیڑ دی۔ زندگی میں پہلی بار چوت اور گانڈ پر کسی بیرونی چیز کے دخول نے مجھے سسک اٹھنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ پہلی بار میرے بدن سے کوئی کھیل رہا تھا اس لیے میرا جسم گرم ہونے لگا، میرے دماغ کا کہنا اب میرا جسم نہیں مان رہا تھا۔" اب تجھے دکھاتے ہیں کہ لوڑا کسے کہتے ہیں۔" یہ کہہ کر وہ دونوں اپنے اپنے جسم پر سے کپڑے اتارنے لگے۔ دونوں بالکل ننگے ہو گئے۔ ان دونوں کے لوڑے دیکھ کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میری چوت کا چھید تو بہت ہی چھوٹا تھا۔ ایک انگلی ڈالنے سے بھی درد ہوتا تھا مگر ان دونوں کے لوڑوں کے گھیر تو میری مٹھی سے بھی موٹے تھے، گھبراہٹ سے میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔
"پلیز مجھے جانے دو! " میں نے روتے ہوئے کہا۔
"ہم نے تو تجھے نہیں پکڑا! تو خود چل کر اس دروازے سے اندر آئی ہے ہم سے چدوانے کے لیے، اپنی مرضی سے! آئی ہے یا نہیں، بول؟ مادرچود!" یہ کہتے ہوئے سکندر نے میرے بال پکڑ کر میرے گال کی چمی لی۔
میں نے ہاں میں سر ہلایا۔
"پھر اب کیوں انکار کر رہی ہے؟" اس نے میرے چوتڑوں پر ایک زوردار چپت لگائی اور بولا: تُو جا! میں بھی عاشی سے اپنے تعلقات توڑ دیتا ہوں۔ تجھے پتہ ہے عاشی پریگننٹ ہے؟ میرا بچہ ہے اس کے پیٹ میں! تیری مرضی ہے! تو چلی جا!" وہ بولے جا رہا تھا اور میری چوت، گانڈ، ممے، گال، جہاں اس کی مرضی ہو، مسلے جا رہا تھا۔
اس کی بات سن کر ایسا لگا جیسے کسی نے میرے اندر کی ہوا نکال دی ہو۔ میں نے ایک دم مزاحمت چھوڑ دی۔ سکندر نے مجھے گھٹنوں پر بیٹھنے کو کہا۔
میں بلا چوں چراں اس کے حکم کو مانتے ہوئے ان کے سامنے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئی۔۔۔ وہ دونوں اپنے اپنے لنڈ میرے ہونٹوں پر پھیرنے لگے، "لے انہیں چاٹ کتیا!" سکندر نے کہا، "کنجری، اپنا منہ کھول!"
میں نے اپنے منہ کو تھوڑا سا کھول دیا۔ سکندر نے اپنے لنڈ کو میرے منہ میں ڈال دیا، میرے سر کو پکڑ کر اپنے لنڈ کو اندر تک گھسا دیا۔ بہت ہی سخت گندی سی بدبو آئی، مجھے گھن سی آنے لگی۔
میں نے سنی کی جانب دیکھا تو معلوم ہوا کہ سنی کے ہاتھ میں سٹل کیمرا تھا۔ میں نے زبردستی سکندر کا لنڈ اپنے منہ سے نکالا اور اس کی منتیں کرنے لگی کہ پلیز میری تصویریں مت بناؤ، پلیز، جو تم کہو گے میں وہ کروں گی لیکن میری ایسی تصویریں مت بناؤ اور رونے لگی، میری منتوں کا سکندر پر الٹا اثر ہوا اور اس نے میرے گالوں پر تین چار کرارے تھپڑ رسید کر دیے اور بولا: کنجری! چپ چاپ جو ہم کہتے ہیں وہ کرتی رہ۔۔۔ منہ کھول حرامزادیا ور لوڑا چوس۔میں نے اس کے مزید تھپڑوں کے خوف سے روتے سسکتے ہوئے اپنا منہ کھول دیا۔
اب سکندر میرے منہ میں دھکا دھک اپنا لنڈ اندر باہر کر رہا تھا، وہ میرے بال پکڑ کر میرا منہ چود رہا تھا۔
کچھ دیر اس طرح میرے منہ کو چودنے کے بعد اس نے اپنا لنڈ باہر نکالا۔ اس کی جگہ سنی نے اپنا لنڈ میرے منہ میں ڈال دیا۔ پھر وہی ہونے لگا جو پہلے ہو رہا تھا۔ میرے جبڑے درد کرنے لگے۔ زبان بھی کھردری ہو گئی تھی۔
"چل کمینی، اپنا منہ اور کھول اور ہم دونوں اپنا لنڈ ایک ساتھ ڈالیں گے۔"
میں سوچنے لگی کہ میرے منہ میں ایک ساتھ دو موسل جا سکتے ہیں کیا؟ دونوں اپنے اپنے لنڈ کو زور لگا رہے تھے اندر ڈالنے کے لیے!
سکندر نے میری چوت میں اپنے پیر کا انگوٹھا بھی پھنسا دیا تھا۔ سکندر نے اپنا لنڈ میرے منہ میں ڈال دیا مگر سنی باہر گالوں پر ہی پھیرتا رہ گیا، اس کا لنڈ منہ کے اندر آدھا ہی جا کر رہ جاتا تھا، وہ اسے پورا اندر ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔
اب سکندر مجھے کھینچ کر بستر پر لے گیا اور وہ دونوں میرے سر کو کھینچ کر بیڈ کے کونے تک لے آئے۔ اس طرح کہ میرا سر بستر سے نیچے جھول رہا تھا۔ اب اس نے میرا سر اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنا لنڈ اندر ڈالنا شروع کیا۔ اب لنڈ کو گلے کے اندر تک ڈال دیا، لنڈ پورا سما گیا تھا، اس کی جھانٹیں میرے نتھنوں میں گھس رہی تھیں، مجھے سانس لینے میں پریشانی ہو رہی تھی۔
"ارے سکندر، ایسے مت ٹھوک اسے! " سنی جو میری تصاویر لے رہا تھا، اس نے کہا۔
یہ سن کر سکندر نے اپنا لنڈ تھوڑا باہر کھینچا، پھر کچھ دیر تک میرے منہ میں اپنا تھوک ڈال ڈال کے میرے منہ کو چوت کی طرح چودنے کے بعد مجھے بستر پر چت لٹا دیا۔ اب وہ بھی بستر پر چڑھ گیا اور میری ٹانگیں پھیلا دیں۔ جتنا ہو سکتا تھا اتنا پھیلا کر ہاتھوں سے پکڑے رکھا۔
"ابے اب کے پاس آ کر کلوز اپ لے! ایک ایک حرکت کی تصویریں کھینچ! ابھی اس کی چوت سے خون بھی ٹپکے گا۔ سب کیمرے میں آنا چاہیے! " اس نے سنی کو کہا۔
سنی میری چوت کے ہونٹوں کے درمیان ملحقہ سکندر کے لنڈ کی تصویریں لینے لگا۔
سکندر اب دھیرے دھیرے میری چوت پر اپنے لنڈ کا دباؤ ڈالنے لگا۔۔۔ مگر اس کا لنڈ اتنا موٹا تھا کہ اندر ہی نہیں گھس پا رہا تھا۔ اس لنڈ سے نکلے پری کم سے اور کچھ میرے رس سے چوت کا چھید کافی ہموار ہو رہا تھا۔ وہ لنڈ پر دباؤ بھی بڑھاتا گیا مگر بار بار اس کا لنڈ پھسل جاتا تھا۔ "تیل لاؤں؟" سنی نے پوچھا۔
"ابے تیل لگانے سے تو آرام سے اندر چلا جائے گا۔ پھر کیا خاک مزہ آئے گا۔" اس بار اس نے اپنی انگلیوں سے میری چوت کے منہ کو پھیلا کر اپنے لنڈ کے ٹوپے کو وہاں لگایا اور اپنے جسم کا پورا وزن میرے اوپر ڈال دیا۔ اس کا لنڈ میری چوت کی دیواروں کو چھیلتا ہوا اندر گھسنے لگا اور میرے کنوارے پن کی جھلی پر جا کر ایک بار رک گیا۔
مجھے زور سے درد ہوا - اووووہ آآآآآہہہہ اوہہہہ ماں آ آآ آہہ مر گئی۔ اوہ نہیییں!
اگلے جھٹکے میں میرے کنوارے پن کو توڑتے ہوئے سکندر کا لنڈ پورا اندر گھس گیا۔ اگر چوت میں کوئی تیل لگایا ہوتا تو اتنا درد نہیں ہوتا لیکن مجھے درد سے چلاتے دیکھ کر اسے بہت مزا آ رہا تھا۔ اس کا لنڈ اتنا موٹا تھا کہ میری نازک چوت کی چمڑی اس کے لنڈ پر چپک سی گئی تھی۔
کچھ دیر تک اسی طرح رہنے کے بعد جیسے ہی وہ اپنے لنڈ کو باہر کھینچنے لگا تو ایسا لگا کہ میری بچہ دانی بھی لنڈ کے ساتھ باہر آ جائے گی۔ اس نے اپنے لنڈ کو مکمل باہر نکالا اور میرے سامنے لے کر آیا۔ اس کے لنڈ پر میرے خون کے قطرے لگے ہوئے تھے۔ میری چوت سے خون رِس کر بستر پر ٹپک رہا تھا۔ "دیکھ مادرچود! تیری چوت کو آج پھاڑ ہی دیا نا۔ لے اسے چاٹ کر صاف کر کتیا! " میں نے گھن سے آنکھیں بند کر لی۔ مگر وہ ماننے والا تو تھا نہیں، اس نے میرے گال پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا اور میں نے آنکھیں بند کیے ہوئے اپنا منہ کھول دیا۔ اس نے اپنا لنڈ جڑ تک میرے منہ میں ڈال دیا۔ پھر اس نے میرے منہ سے نکال کر دوبارہ اپنا لنڈ میری چوت میں گھسیڑ دیا اور تیز تیز دھکے مارنے لگا۔ اس کے ہر دھکے سے میری جان نکل رہی تھی۔ لیکن کچھ ہی دیر میں درد ختم ہو گیا اور مجھے بھی مزا آنے لگا۔ میں بھی نیچے سے اپنی کمر اچھالنے لگی۔ آدھے گھنٹے تک وہ اسی طرح بے دردی سے مجھے چودتا رہا۔ اس دوران میرا تین بار پانی جھڑ گیا تھا۔
اس کے بعد اس نے مجھے اٹھا کر اپنے اوپر بٹھا لیا، میں اس کے لنڈ کو اپنی چوت پر سیٹ کرکے اس پر بیٹھ گئی۔ اس کا لنڈ پورا میری چوت کے اندر چلا گیا۔ اس کے سینے پر گھنے بال تھے جنہیں میں اپنے ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے مزے لے لے کر اپنی کمر اوپر نیچے کر رہی تھی۔ میرے دونوں چوچیاں اوپر نیچے اچھل رہی تھیں۔
سنی سے برداشت نہیں ہوا، اس نے بستر پر کھڑے ہو کر میرے منہ میں اپنا لنڈ ڈال دیا۔ میں اس کے لنڈ کو منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ اس طرح دونوں سے چدواتے ہوئے میں ایک بار پھر جھڑ گئی۔ سکندر میری چھاتیوں سے کھیل کر مجھے خوش کر رہا تھا۔ سنی اتنا وحشی تھا کہ اس کا لنڈ تھوڑی ہی دیر میں تن گیا اور ڈھیر ساری منی سے اس نے میرا منہ بھر دیا۔ مجھے گھن سی آ گئی۔ میں نے سارا پانی بستر پر ہی الٹ دیا۔
سنی اب گہری سانسیں لے رہا تھا مگر سکندر کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ اس پوزیشن میں بھی وہ مجھے پندرہ منٹ تک چودتا رہا۔
"پلیز اب بس کرو، میں تھک گئی ہوں۔ اب مجھ سے اوپر نیچے نہیں ہوا جا رہا۔" میں نے اس سے منت کی۔
مگر وہ کچھ بھی نہیں بولا لیکن اگلے پانچ منٹ میں اس کا بدن سخت ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میرے چھاتیوں میں گڑ گئے۔ میں سمجھ گئی کہ وہ اب زیادہ دیر کا مہمان نہیں ہے۔ اس نے میرے نپلز پکڑ کر اپنی طرف کھینچے، میں اس کے سینے پر لیٹ گئی۔ اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور ایسا لگا گویا ایک گرم دھار میرے اندر گر رہی ہو۔
اب ہم ایک دوسرے سے لپٹے لیٹے ہوئے تھے، میرا پورا بدن پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔ اے سی چل رہا تھا مگر اس کے باوجود بھی میں پسینے سے نہا گئی تھی۔
پہلی بار میں ہی اتنی زبردست چدائی نے میرے سارے اعضاء ڈھیلے کر دیے تھے۔۔۔ ایک ایک حصہ میرا دکھ رہا تھا۔ میں نے کسی طرح اٹھ کر سائڈ ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس آدھا پیا اور آدھا اپنے چہرے پر ڈال لیا۔
تھوڑی دیر بعد سنی اٹھا اور مجھے ہاتھوں پیروں کے بل بستر پر جھکایا اور خود بستر کے نیچے کھڑے ہو کر میری چوت میں اپنا لنڈ ڈال دیا۔ وہ زور زور سے مجھے پیچھے کی طرف سے ٹھوکنے لگا۔ میرے چہرے کو پکڑ کر سکندر نے اپنے ڈھیلے پڑے لنڈ پر دبا دیا۔ میں اس کا مطلب سمجھ کر اس کے ڈھیلے لنڈ کو اپنے زبان کو نکال کر چاٹنے لگی۔ میں پورے لنڈ کو اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں سکندر کا لنڈ دھیرے دھیرے کھڑا ہونے لگا۔ اب وہ میرے بالوں سے مجھے پکڑ کر اپنے لنڈ پر اوپر نیچے چلانے لگا۔ کافی دیر تک مجھے چودنے کے بعد سنی نے اپنا پانی چوت میں ڈال دیا۔۔۔
سکندر نے مجھے اٹھا کر زمین پر پیر چوڑا کر کے کھڑا کیا اور بستر کے کنارے بیٹھ کر مجھے اپنی گود میں دونوں طرف پیر کرکے بٹھا لیا۔ اس کا لنڈ میری چوت میں گھس گیا۔ میں اس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے جسم کو اس کے لنڈ پر اوپر نیچے چلانے لگی۔ کچھ دیر تک اسی طرح چودنے کے بعد وہ ایک بار پھر میرے اندر فارغ ہو گیا۔ اس بار میں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ ہم دونوں ایک ساتھ جھڑ گئے۔
سنی نے کھانا منگوا لیا تھا۔ ہم اسی طرح ننگی حالت میں ڈنر کرتے ہوئے واپس بستر پر آ گئے۔ مجھ سے تو کچھ کھایا ہی نہیں گیا۔ سارا بدن لجلجا ہو رہا تھا۔ دونوں نے مجھے اب تک اپنا بدن صاف بھی نہیں کرنے دیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد میں ان کا سہارا لے کر اٹھی تو میں نے دیکھا کہ پورے بستر پر خون کے کچھ دھبے لگے ہوئے تھے۔ میں سنی کے کندھے کا سہارا لے کر باتھ روم میں گئی۔۔۔ لیکن وہاں بھی انہوں نے دروازہ بند نہیں کرنے دیا۔ سکندر میری گانڈ اور چوت سے کھیل رہا تھا، میں پیشاب کر رہی تھی اور تب بھی سکندر چوت میں انگلی آگے پیچھے کر رہا تھا، کاٹ رہا تھا میری گانڈ اور رانوں کو اور سنی تصویریں بنا رہا تھا!
میں ان دونوں کی موجودگی میں شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ واپس بستر پر آکر کچھ دیر تک دونوں میرے ایک ایک انگ سے کھیلتے رہے۔ میری اسی ننگی حالت میں مختلف پوز میں کئی تصویریں کھینچیں، پھر میری چدائی کا دوسرا دور شروع ہوا۔ یہ دور کافی دیر تک چلتا رہا۔ اس بار سنی نے مجھے اپنے اوپر بٹھایا اور اپنا لنڈ اندر ڈال دیا۔ اس حالت میں اس نے مجھے کھینچ کر اپنے سینے سے چپکا لیا، میرے دونوں پیر گھٹنوں سے مڑے ہوئے تھے اس لیے میری گانڈ اوپر کی طرف اٹھ گئی۔ سکندر نے میری چدتی ہوئی چوت میں ایک انگلی ڈال کر ہمارے رس کو باہر نکالا اور میری گانڈ پر لگا دیا۔ ایک انگلی سے میری گانڈ میں اندر تک اس رس کو لگانے لگا۔
میں اس کا مطلب سمجھ کر اٹھنا چاہتی تھی۔ مگر دونوں نے مجھے ہلنے بھی نہیں دیا۔ سکندر نے اپنی انگلی نکال کر میرے چوتڑوں کو اپنے ہاتھوں سے الگ کیا اور میری گانڈ کے سوراخ پر اپنا لنڈ لگا دیا اور آہستہ سے اپنا لنڈ اندر ھکیلا۔ ایسا لگا گویا کوئی میری گانڈ کو ڈنڈے سے پھاڑ رہا ہو، میں "آ آآ اایی ییی اوووووووووہ مممی مماااااااا اییایا بچااااااؤؤؤ" جیسی آوازیں نکالنے لگی۔ مگر اس کا لنڈ کے آگے کا موٹا حصہ اب اندر جا چکا تھا۔ میں نے درد سے اپنے ہونٹ کاٹ لیے مگر وہ آگے بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ مکمل اندر ڈالنے کے بعد ہی وہ رکا۔
پھر دونوں میرے چلانے کی پرواہ کیے بغیر ہی دھکے مارنے لگے۔ اوپر سے سکندر دھکا مارتا تو سنی کا لنڈ میری چوت میں گھس جاتا۔ جب سکندر اپنا لنڈ باہر نکالتا تو میں اس کے لنڈ کے ساتھ تھوڑا اوپر اٹھتی اور سنی کا لنڈ باہر کی طرف آ جاتا۔ اسی طرح مجھے کافی دیر تک دونوں نے چودا پھر ایک ساتھ دونوں نے میرے دونوں چھیدوں میں اپنا اپنا پانی ڈال دیا۔ میں بھی ان کے ساتھ ہی جھڑ گئی۔
رات بھر کئی دور ہوئے مختلف پوز میں، میں تو گنتی ہی بھول گئی۔
تقریبا چار بجے کے قریب ہم ایک ہی بستر پر آپس میں لپٹ کر سو گئے۔


صبح ساڑھے نو بجے کسی کے دروازے کی گھنٹی بجائے جانے پر نیند کھلی تو میں نے پایا کہ میرا پورا بدن درد کر رہا تھا۔ میں نے اپنے جسم کا جائزہ لیا۔ میں بستر پر آخری چدائی کے وقت جیسے لیٹی تھی، ابھی تک اسی طرح ہی لیٹی ہوئی تھی۔ انگلش کے X حروف کی طرح۔
سنی شاید صبح اٹھ کر جا چکا تھا۔ سکندر نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔
تیزی سے عاشی اندر آئی بستر پر مجھ پر نظر پڑتے ہی چیخ اٹھی - سکندر، صائمہ کی کیا حالت بنائی ہے تم نے؟ تم پورے وحشی ہو۔ بیچاری کے پھول جیسے بدن کو کس بری طرح کچل ڈالا ہے؟
وہ بستر پر بیٹھ کر میرے چہرے پر اور بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
"ٹیسٹی مال ہے! " سکندر نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بے ہودگی سے کہا۔
عاشی مجھے سہارا دے کر باتھ روم میں لے گئی۔ میں باتھ روم میں جاتے ہی اس سے لپٹ کر رو پڑی۔ اس نے مجھے غسل دیا۔ میں نہا کر کافی تازہ دم محسوس کر رہی تھی۔ کپڑے باہر بستر پر ہی پڑے تھے۔ برا اور پینٹی کے تو چیتھڑے اڑ چکے تھے۔ شلوار کا ناڑا بھی انہوں نے توڑ دیا تھا۔ ہم اسی حالت میں کمرے میں آئے۔
اب اتنا سب ہونے کے بعد پوری ننگی حالت میں سکندر کے سامنے آنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
وہ بستر کے سرہانے پر بیٹھ کر میرے بدن کو بڑی ہی گندی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی میں نے اپنے کپڑوں کی طرف ہاتھ بڑھایا، اس نے میرے کپڑوں کو کھینچ لیا۔ ہم دونوں سہیلیوں کی نظر اس کی طرف اٹھ گئی۔
"نہیں، ابھی نہیں! " اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ابھی جانے سے پہلے ایک بار اور! "نہییییں! " میرے منہ سے اس کی بات سنتے ہی نکل گیا۔
"اب کیا جان لو گے اس کی؟ رات بھر تو تم نے اسے مسلا ہے۔ اب تو چھوڑ دو اسے! " عاشی نے بھی اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر اس کے منہ پر تو میرے خون کا ذائقہ چڑھ چکا تھا۔ "نہیں، اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ تُو بھی تو دیکھ اپنی سہیلی کو چدواتے ہوئے! " سکندر ایک بھدی سی ہنسی ہنسا۔ پتہ نہیں عاشی کیسے اس کے چکر میں پڑ گئی تھی۔
اس نے اپنے ڈھیلے پڑے لنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عاشی سے کہا، "چل اسے منہ میں لے کر کھڑا کر! " عاشی نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا لیکن وہ بے ہودوں کی طرح ہنستا رہا۔ اس نے عاشی کو کھینچ کر پاس پڑی ایک کرسی پر بٹھا دیا اور اپنا لنڈ چوسنے کو کہا۔ عاشی اس ڈھیلے لنڈ کو کچھ دیر تک ایسے ہی ہاتھ سے سہلاتی رہی، پھر اسے منہ میں لے لیا۔
سکندر نے عاشی کی قمیض اور برا اتار دی۔ زندگی میں پہلی بار ہم دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کے سامنے ننگی ہوئی تھیں۔ عاشی کا بدن بھی کافی خوبصورت تھا۔ بڑے بڑے ابھار، پتلی کمر کسی بھی لڑکے کو دیوانہ بنانے کے لیے کافی تھا۔
سکندر میرے سامنے ہی اس کی چھاتیوں کو سہلانے لگا، ایک ہاتھ سے عاشی کا سر پکڑ رکھا تھا دوسرے ہاتھ سے اس کے نپل مسل رہا تھا، چہرے سے لگ رہا تھا کہ عاشی گرم ہونے لگی ہے۔ میں بستر پر بیٹھ کر ان دونوں کی راس لیلا دیکھ رہی تھی اور اپنے آپ کو اس میں شامل کیے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔
میں نے اپنے بدن پر نظر دوڑائی، میرے دونوں مموں پر ان دونوں درندوں کے دانتوں کے نشان تھے، میری چوت سوجی ہوئی تھی، رانوں پر بھی دانتوں کے نشان تھے، دونوں نپلز بھی سوجے ہوئے تھے۔ عاشی نے کوئی پین کلر کھلائی تھی باتھ روم میں، اس کی وجہ درد کچھ کم ہوا تھا۔ درد کچھ کم ہوتے ہی میں ان دونوں کا کھیل دیکھ دیکھ کر کچھ گرم ہونے لگی۔
سکندر کا لنڈ کھڑا ہونے لگا۔ سکندر مسلسل عاشی کے منہ کو چود رہا تھا، اسے دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ اس نے رات بھر میری چوت میں منی ڈالی ہے۔ مجھے تو پیروں کو سکوڑ کر بیٹھنے میں بھی تکلیف ہو رہی تھی اور وہ تھا کہ سانڈ کی طرح میری حالت اور بھی بری کرنے کے لیے تیار تھا۔ پتہ نہیں کہاں سے اتنی گرمی تھی اس کے اندر۔
اس کا لنڈ کچھ ہی دیر میں ایک دم تن کر کھڑا ہو گیا۔ اب اس نے عاشی کو کھڑا کرکے اس کی شلوار اور انڈرویئر اتار اسے بھی پوری طرح ننگی کر دیا۔ عاشی کو واپس کرسی پر بٹھا کر اس کی چوت میں اپنی انگلی ڈال دی۔ انگلی جب باہر نکلی تو وہ عاشی کے رس سے گیلی ہو رہی تھی۔ سکندر نے اس انگلی کو میرے ہونٹوں سے ٹچ کیا: لے چکھ کر دیکھ! کیسی مست چیز ہے تیری سہیلی!
میں منہ نہیں کھول رہی تھی مگر اس نے زبردستی میرے منہ میں انگلی گھسا دی۔ عجیب سا لگا عاشی کے رس کو چکھنا۔
"پوری طرح مست ہو گئی ہے تیری سہیلی! " اس نے مجھ سے کہا۔
اس نے اب اپنا لنڈ عاشی کے منہ سے نکال لیا، اس کا بڑا لنڈ عاشی کے تھوک سے چمک رہا تھا۔ پھر مجھے اٹھا کر اس عاشی پر جھکا دیا، کچھ اس طرح کہ میرے دونوں ہاتھ عاشی کے کندھوں پر تھے، میں اس کے کندھوں کا سہارا لیے جھکی ہوئی تھی، میرے بوبس عاشی کے چہرے کے سامنے جھول رہے تھے۔ سکندر نے میری ٹانگوں کو پھیلایا اور میری چوت میں اپنا لوڑا ڈالا۔
لنڈ جیسے جیسے اندر جا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی میری چوت کی دیواروں پر ریگ مار گھس رہا ہو۔ میں درد سے "آ آآ ااہ افففف!" کر اٹھی۔
پتہ نہیں کتنی دیر اور کرے گا؟ اب تو مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا۔ وہ مجھے پیچھے سے دھکے لگانے لگا تو میرے ممے جھول جھول کر عاشی کے چہرے سے ٹکرانے لگے۔ عاشی بھی مستی میں آ گئی تھی اور مستی میں کسمسا رہی تھی، وہ پہلی بار مجھے اس حالت میں دیکھ رہی تھی۔ ہم دونوں بہت پکی سہیلیاں ضرور تھیں مگر لیزبین نہیں تھیں۔
سکندر نے میرا ایک نپل اپنی انگلی پکڑ کر کھینچا۔ میں نے درد سے بچنے کے لیے اپنے بدن کو آگے کی طرف جھکا دیا۔ اس نے میرے نپل کو عاشی کے ہونٹوں سے ٹچ کیا، "لے چوس چوس۔۔۔ میری رانڈ کے ممے کو! " عاشی نے اپنے ہونٹ کھول کر میرے نپل کو اپنے ہونٹوں کے بیچ دبا لیا۔ سکندر میرے بوبس کو زور زور سے مسلنے لگا۔ کچھ اس طرح گویا وہ ان سے دودھ نکال رہا ہو۔
میری چوت میں بھی پانی رسنے لگا، میں "آ آآ اہہ ہہ اووووہ اففففف اوئی اویئی مااا اووفففف" جیسی آوازیں نکال رہی تھی۔
سکندر کبھی گانڈ میں کبھی چوت میں لنڈ پیل رہا تھا، میری گانڈ کی دھجیاں اڑ رہی تھیں اور چوت بھوسڑا بن رہی تھی، کمرے میں سکگ اور پھککگ کی "پھچ پھچ" کی آواز گونج رہی تھی۔
وہ درمیان درمیان میں عاشی کے بوبس کو مسل دیتا۔۔۔ اس نے میرے بالوں کو اپنی مٹھی میں بھر لیے اور اپنی طرف کھینچنے لگا جس کی وجہ سے میرا چہرہ چھت کی طرف اٹھ گیا۔ کوئی پندرہ منٹ تک مجھے اسی طرح چودنے کے بعد اس نے اپنا لنڈ باہر نکالا اور ہمیں کھینچ کر بستر پر لے گیا۔ بستر پر گھٹنوں کے بل ہم دونوں کو قریب قریب چوپایا بنا دیا۔ پھر وہ کچھ دیر عاشی کو چودتا کچھ دیر مجھے!
ہم دونوں کی گانڈ پر، پیٹھ پر تھپڑ مارتا، کاٹتا، کتنا درد دے رہا تھا اور چود رہا تھا وہ ہمیں۔ ہم دونوں کتیوں کی طرح اس سے چدوا رہی تھیں، مجھے درد ہو رہا تھا لیکن سکندر سے چدوانے میں اب مزا بھی آ رہا تھا۔
کافی دیر تک اسی طرح ہم دونوں سہیلیوں کی چدائی چلتی رہی۔ میں اور عاشی دونوں ہی جھڑ چکی تھیں۔ اس کے بعد بھی وہ ہمیں چودتا رہا۔
کافی دیر بعد جب اس کے پانی کا نکلنے کا وقت ہوا تو اس نے ہم دونوں کو بستر پر بٹھا کر اپنے اپنے منہ کھول کر اس پانی کو منہ میں لینے کو کہا، ڈھیر سارا پانی میرے اور عاشی کے منہ میں بھر دیا۔ ہم دونوں کے منہ کھلے ہوئے تھے، ان میں سکندر کی منی بھری ہوئی تھی اور منہ سے چھلک کر ہمارے بوبس پر اور بدن پر گر رہی تھی۔
وہ ہمیں اسی حالت میں چھوڑ کر اپنے کپڑے پہن کر کمرے سے نکل گیا۔ کئی گھنٹوں تک عاشی میری تیمار داری کرتی رہی، جب تک میں چل سکنے کے قابل ہو گئی۔ پھر ہم کسی طرح گھر لوٹ آئے۔

میں اپنے گھر تو شام کو پہنچی۔ وہاں سے براہ راست عاشی کے گھر گئی تھی۔ خدا کا شکر ہے کسی کو پتہ نہیں چلا۔
عاشی نے اپنے وعدے کے مطابق میرے رشتے کی بات اپنے ممی پاپا سے چلائی اور وہ مان بھی گئے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا رشتہ بھی سکندر کے ساتھ پکا ہو گیا۔ چھ ماہ میں ہی ہم دونوں کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔
ان چھ ماہ کے دوران سکندر نے مجھے کئی بار مختلف جگہ پر بلا کر چودا۔ اس کے پاس میری تصویریں تھی، وہ تو ایک وجہ تھی ہی، لیکن مجھے بھی سکندر کے لنڈ کا چسکا لگ چکا تھا لیکن میں بتا نہیں پا رہی تھی کیونکہ وہ عاشی کا ہونے والا شوہر تھا۔
سکندر نے ایک دن ہم دونوں کو وہ تصویریں اور موویز دکھائیں۔ میں تو شرم سے پانی پانی ہو گئی پر عاشی نے خوب چٹخارے لیے۔ میں اب پوری طرح سکندر کے چنگل میں تھی۔ اس نے مجھے اکیلے میں دھمکی بھی دے رکھی تھی کہ اس کی بات اگر میں نے نہیں مانی تو وہ یہ فلم دانش کو دکھا دے گا۔
خیر میں نے وعدہ کر لیا۔ شادی سے چند دن پہلے سکندر کے کسی رشتہ دار کی موت ہو گئی اس لیے اس کی اور عاشی کی شادی کچھ دنوں کے لیے ٹل گئی۔ میری اور دانش کی شادی مقررہ دن کو ہی ہونی تھی۔
ہمارے گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھی۔ عاشی سکندر کو بھی ہمارے گھر لے آتی تھی۔ دونوں کی منگنی ہو چکی تھی اس لیے کسی کو کسی بات پر اعتراض نہیں تھا۔
مایوں کی رسم شروع ہونی تھی، میرے گھر والے اس میں مصروف تھے۔ میرے کمرے میں آ کر عاشی مجھے لے کر باتھ روم میں گھسی: اپنے یہ کپڑے اتار کر یہ سوتی ساڑھی لپیٹ لے!
اس نے کہا اور میں نے اپنے کپڑے اتارنے لگی۔
تبھی دروازے پر ٹھک ٹھک ہوئی۔
"کون؟"
پوچھنے پر پھسپھساتی ہوئی سکندر کی آواز آئی۔
عاشی نے ہلکے سے دروازہ کھولا اور وہ جھٹ سے باتھ روم میں گھس گیا۔
"مرواؤ گے آپ! اس طرح بھری محفل میں کوئی دیکھ لے گا تو بڑی مشکل ہو جائے گی! جم کر جوتے پڑیں گے! " عاشی نے کہا۔
مگر وہ اتنی جلدی مان جانے والا انسان تھا ہی نہیں۔ ویسے بھی یہ باتھ روم ہمارے بیڈروم سے اٹیچڈ تھا۔ اس لیے کسی کو یہاں آنے سے پہلے دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا۔ سکندر پہلے ہی سارا انتظام کرکے آیا تھا، دروازہ اندر سے بند کر دیا تھا۔
"آج تو صائمہ بہت ہی خوبصورت لگ رہی ہے! " سکندر نے کہا: آج تو میں اسے تیار کروں گا! تو ہٹ!
عاشی میرے پاس سے ہٹ گئی۔ سکندر اس جگہ آ گیا۔ اس نے میرے کرتے کو بلند کرنا شروع کیا۔ میں نے بھی ہاتھ بلند کر دیئے۔ اب تک میں اتنی بار سکندر سے چدوا چکی تھی کہ اب اس کے سامنے کوئی شرم باقی نہیں بچی تھی۔ صرف کسی کے آ جانے کا ڈر ستا رہا تھا۔
اس نے میرے کرتے کو بدن سے الگ کر دیا، پھر مجھے پیچھے گھما کر میرے برا کے ہک کھول دیے، پھر دونوں سٹرپ کو پکڑ کر کندھے سے نیچے اتار دیے۔ میری برا کھل کر اس کے ہاتھوں میں آ گئی۔ اس نے اس کو میرے بدن سے الگ کر کے اپنے ہونٹوں سے چوما اور پھر عاشی کو پکڑا دیا۔
پھر اس نے میری شلوار کے ناڑے کو پکڑ کر اسے ڈھیلا کر دیا۔ شلوار ٹانگوں سے سرسراتی ہوئی نیچے میرے قدموں میں ڈھیر ہو گئی۔
پھر اس نے میری پینٹی کے الاسٹک کو دو انگلیوں سے کھینچ کر کھلا کیا۔ پھر اپنے ہاتھ کو دھیرے دھیرے نیچے لے گیا۔ چھوٹی سی پینٹی بدن سے کینچلی کی طرح اتر گئی۔ میں اس کے سامنے اب بالکل ننگی ہو گئی تھی۔ اس نے کھینچ کر مجھے شاور کے نیچے کر دیا۔ پھر میرے بدن کو مسل مسل کر نہلانے لگا۔
عاشی نے روکنا چاہا کہ ابھی یہ سب کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن اس نے کہا: تم دوبارہ نہلا دینا!
مجھے نہلانے کے بعد اس نے میرے سارے بدن کو پونچھ پونچھ کر خشک کیا۔
"لو، صائمہ کو یہ ساڑی پہنانی ہے۔ دیر ہو رہی ہے اسے مایوں لگوانی ہے۔" عاشی نے ایک ساڑی سکندر کی طرف بڑھائی۔
"پہلے میں اسے اپنے رس سے نہلا دوں، پھر اسے کپڑے پہنانا۔" کہہ کر سکندر نے مجھے باتھروم میں ہی جھکنے پر مجبور کر دیا۔ پہلے سکندر کی ایسی بدتمیزیوں سے مجھے سخت نفرت تھی مگر آج کل جب بھی وہ مجھے ایسے کرتا تو پتہ نہیں مجھے کیا ہو جاتا تھا، میں چپ چاپ اس کے کہنے کے مطابق کام کرنے لگتی تھی اور چدائی کے مزے لیتی تھی گویا اس نے مجھے کسی جادو میں باندھ رکھا ہو۔
اس نے پیچھے سے اپنا لنڈ میری چوت میں ڈال دیا اور میری چھاتیوں کو مسلتے ہوئے دھکے مارنے لگا۔
"جلدی چودو! لوگ باہر تلاش کرتے ہوئے یہاں آتے ہوں گے! " عاشی نے سکندر سے کہا۔
وہ مجھے دھکے کھاتے ہوئے دیکھ رہی تھی، "میری سہیلی کو کیا کوئی رنڈی سمجھ رکھا ہے تو جب موڈ آئے ٹانگیں پھیلا کر ٹھوکنے لگتا ہے؟"
سکندر کافی دیر تک مجھے اس طرح چودتا رہا۔ پھر میری ایک ٹانگ کو اوپر کر دیا۔ اس وقت میں دیوار کا سہارا لیے ہوئے کھڑی تھی، میرا ایک پاؤں زمین پر تھا دوسرے کو اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ میری پھیلی ہوئی چوت میں اپنا لنڈ ڈال کر پھر چودنے لگا۔ مگر اس پوزشن میں وو زیادہ دیر نہیں چود سکا اور اس نے میری ٹانگ کو چھوڑ دیا۔ اب اس نے مجھے عاشی کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا اور پھر چودنے لگا۔۔۔
میں نے اس کی اس حرکت سے تڑپتے اور مزے لیتے ہوئے اپنے پانی کی بارش کر دی۔ وہ بھی اب چھوٹنے ہی والا تھا۔ اس نے اچانک اپنا لنڈ باہر نکال لیا اور مجھے گھٹنوں کے بل جھکا کر میرے بدن کو اپنی منی سے بھگو دیا، چہرے پر، چھاتی پر، پیٹ، ٹانگوں اور یہاں تک کہ بالوں میں بھی منی کے قطرے لگے ہوئے تھے۔
کچھ منی اس نے میری برا کے کپس میں ڈال دی۔ اس نے پھر مسل کر میرے بدن پر اپنی منی کا لیپ چڑھا دیا۔ میرا پورا بدن چپچپا ہو رہا تھا۔ پھر اس نے مجھے اٹھا کر اپنی منی سے بھیگی ہوئی برا مجھے پہنا دی۔ اس نے پھر مجھے باقی سارے کپڑے پہنا دیے۔
میں باتھ روم سے باہر آ گئی، عاشی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا اور ہم باہر نکل گئے۔ سکندر دروازے کے پیچھے چھپ گیا تھا ہمارے جانے کے کچھ دیر بعد جب وہاں کوئی نہیں بچا تو چپ چاپ نکل کر چلا گیا۔ اس کی ان حرکتوں سے تو میرا دل کافی دیر تک زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ عاشی کے ماتھے پر بھی پسینہ بہہ رہا تھا۔
مایوں کی رسم اچھی طرح پوری ہو گئی۔ پھر کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

شادی کے دن میں بیوٹی پارلر سے میک اپ کروا کر واپس آئی تھی شام کو 6 بجے۔
بیوٹیشین نے بہت محنت سے سنوارا تھا مجھے۔ میں ویسے بھی بہت خوبصورت ہوں اس لیے تھوڑی محنت سے ہی بالکل اپسرا کی طرح لگنے لگی، سنہری لہنگے چولی میں بالکل راجکماری سی لگ رہی تھی، عاشی ہر وقت ساتھ ہی تھی، کافی دیر سے سکندر کہیں نہیں دکھا تھا۔
شادی کے لیے ایک میرج ہال بک کیا گیا تھا۔ اس کی دوسری منزل پر میرے ٹھہرنے کا مقام تھا۔ میں اپنی سہیلیوں سے گھری ہوئی بیٹھی تھی۔ شام کو تقریبا نو بجے بینڈ والوں کا شور سن کر پتہ چلا کہ بارات آ رہی ہے۔
میری سہیلیاں دوڑ کر کھڑکی سے جھانکنے لگی۔ وہاں اندھیرا ہونے سے کسی کی نظر اوپر کھڑکی پر نہیں پڑتی تھی۔ اب میری سہیلیاں وہاں سے اے کے ایک کر کے کھسک گئیں۔ کچھ کو تو بارات پر پھولوں کی بارش کرنی تھی اور کچھ دولہے اور بارات کو دیکھنے کے لیے چلی گئیں۔
میں کچھ دیر کے لیے بالکل اکیلی پڑ گئی۔ ایک دروازہ پاس کے کمرے میں کھلتا تھا۔ اچانک وہ دروازہ کھلا اور سکندر اندر آیا۔
میں اس وقت اسے دیکھ کر ایک دم گھبرا گئی، دماغ میں چل رہا تھا کہ آج بھی مجھے چود کر رخصت کرے گا کیا۔
اس نے آ کر باہر کے دروازے کو بند کر دیا۔
"سکندر، اب کوئی غلط حرکت مت کرنا، کسی کو پتہ چل گیا تو میری زندگی برباد ہو جائے گی، سب تھوکیں گے مجھ پر، میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہ جاؤں گی۔" میں نے اپنے ہاتھ جوڑ دیے وہ چپ رہا۔
"دیکھو شادی کے بعد جو چاہے کر لینا، جہاں چاہے بلا لینا، مگر آج نہیں! آج مجھے چھوڑ دو! "
"ارے، آج تو اتنی خوبصورت لگ رہی ہے کہ تم سے ملے بغیر نہیں رہ پایا۔ بس ایک بار پیار کر لینے دے! " وہ آ کر مجھ سے لپٹ گیا۔ میں اس سے اپنے کو الگ نہیں کر پا رہی تھی، ڈر تھا سارا میک اپ خراب نہ ہو جائے۔
میں نے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اس نے میرے چھاتی پر ہلکے سے ہاتھ پھیرا۔ شاید اسے بھی میک اپ بگڑ جانے کا ڈر تھا۔
"آج تجھے اس وقت ایک بار پیار کرنا چاہتا ہوں۔" کہہ کر اس نے میرے لہنگے کو پکڑا۔ میں اس کا مطلب سمجھ کر اس سے منع کرنے لگی۔ مگر اس نے سنا نہیں اور میرے لہنگے کو کمر تک اٹھا دیا۔ پھر اس نے میری گلابی شفاف پینٹی کو کھینچ کر نکال دیا، اسے اپنی پینٹ کی جیب میں بھر لیا۔
پھر مجھے کھلی ہوئی کھڑکی پر جھکا کر میرے پیچھے سے چپک گیا۔ اس نے اپنے پینٹ کی زپ کھولی اور اپنے کھڑے لنڈ کو میری چوت میں پیل دیا۔
میں کھڑکی کی چوکھٹ کو پکڑ کر جھکی ہوئی تھی اور وہ پیچھے سے مجھے ٹھوک رہا تھا۔ سامنے بارات آ رہی تھی اس کے استقبال میں بھیڑ امڈتی پڑی تھی اور میں دلہن کسی اور سے چدوا رہی تھی۔ لگتا تھا سب باراتیوں کے سامنے چدوا رہی ہوں۔
وہاں اندھیرا اور سامنے ایک درخت ہونے کی وجہ سے کسی کی نظر نہیں پڑ رہی تھی ورنہ غضب ہو جاتا۔ سامنے ناچ گانا چل رہا تھا۔ سب اسے دیکھنے میں مصروف تھے اور ہم چدائی کر رہے تھے۔ کچھ دیر میں اس نے ڈھیر ساری منی میری چوت میں ڈال دیا۔ میرا بھی اس کے ساتھ ہی پانی نکل گیا۔
بارات اندر آ چکی تھی۔۔۔
تبھی کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سکندر جھپٹ کر بغل والے کمرے کی طرف لپکا۔
میں نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا، "میری پینٹی تو دیتے جاؤ! " میں نے کہا۔
"نہیں یہ میرے پاس رہے گی۔" کہہ کر وہ بھاگ گیا۔
دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو میں نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ میری دو تین سہیلیاں اندر آئیں۔۔۔
"کیا ہوا؟" انہوں نے پوچھا۔
"کچھ نہیں! آنکھ لگ گئی تھی تھکاوٹ کی وجہ سے۔" میں نے بات کو ٹال دیا مگر عاشی سمجھ گئی کہ میں سکندر سے چدی ہوں۔ میں نے اسے اپنے کو گھورتے پایا۔
میں نے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔
"چلو چلو، بارات آ گئی ہے۔ آنٹی انکل بلا رہے ہیں! " سب نے مجھے اٹھایا اور میرے ہاتھوں میں مالا تھما دی۔ میں ان کے ساتھ مالا تھامے لوگوں کے درمیان سے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسٹیج پر پہنچی۔ سکندر کی منی بہتی ہوئی میرے گھٹنوں تک آ رہی تھی۔
پینٹی نہ ہونے کی وجہ سے دونوں رانیں چپچپی ہو رہی تھیں۔
اسی حالت میں میری شادی ہوئی۔ شادی کے فنکشن کے دوران جب بھی سکندر نظر آیا اس کے ہاتھوں کے درمیان میری گلابی پینٹی جھانکتی ہوئی ملی۔
ایک مرد سے میری شادی ہو رہی تھی اور دوسرے کی منی میری چوت سے ٹپک رہی تھی۔ کیسی عجیب حالت تھی۔۔۔(ختم شد)
 
Back
Top